﷽
خذف اور کرکٹ کی ممانعت میں قدر مشترک
بقلم
مولوی عبد اللہ کھوسو
مرتبہ: لیاقت علی کھوسو
مرکز تصنیف و تالیف اللہ آباد کشمور
۰۳۳۳-۷۱۳۱۷۶۴ ۰۳۰۰-۳۱۱۱۳۸۱
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
خذف اور کرکٹ کی ممانعت میں قدر مشترک
تعارف
1۔خذف: ایک چھوٹی کنکری ہے جسے یا تو شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ کر
پھینکا جاتا ہے، یا چھوٹی غلیل میں ڈال کر پھینکا جاتا ہے۔
2- کرکٹ: گیند بلے کا کھیل (گیند کو بلے سے ٹھوکر مارتے ہیں)
خذف (چھوٹی کنکری) کو یونہی پھینک دیا جاتا ہے، پھینک دینے والے کے ہاتھ سے
نکل کر وہ کہیں بھی جا سکتی ہے اور کسی انسان وغیرہ کو لگ کر اس کا نقصان
کر سکتی ہے۔
یہی حال گیند کا ہے۔ جب اُسے بلے کی ٹھوکر لگتی ہے تو وہ آگے کہیں بھی جا
کر کسی کو لگ سکتی ہے۔ جبکہ یہ پتھر کہ اور وزنی ہوتی ہے۔ ماضی میں اس سے
جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔
خذف سے آپ ﷺ کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ نے اپنے کسی عزیز کو "خذف" کھیلتے دیکھا تو اسے یہ
کہ کر منع کیا کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے
شکار نہیں کھیلا جاتا اور نہ ہی اس سے دشمن (کافر) کو گزند پہنچائی جا سکتی
ہے، البتہ یہ (خذف کا کھیل) دانت کہ توڑتا اور آنکھ کو پھوڑتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ بن مغفلؓ نے اپنے اس عزیز کو خذف کھیلتے دیکھا
تو فرمایا: میں نے تجھے بتایا تھا آپﷺ نے اس کھیل سے منع فرماتے ہیں اور
تُو ہے کہ اس سے رکتا نہیں، بس اب میں تجھ سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں
گا۔
آپﷺ نے خذف کھیلنے سے منع کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
1۔اس سے (پرندوں کا) شکار نہیں کیا جاتا-
2- اس سے کسی دشمن (کافر) کو گزند نہیں پہونچا ئی جا سکتی، بلکہ
3- یہ دانت کو توڑتا ہے اور
4-آنکھ کو پھوڑتا ہے-
آپﷺ کے اس ارشاد ساے بطور "اشارۃ النص" حسبِ ذیل احکام ثابت ہوئے ہیں:
1۔ اسلامی معاشرے کے لوگوں کو بے مقصد (لھو و لعب) باتوں سے دور رہنا چا
ہیئے، کھیل و کود میں کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے خواہ دنیوی (شکار) یا
اُخروی (دشمن کو گزند پہونچانا) مقصد ہو۔
2- کھیل و کود کے عمل کو حتی الامکان ضرر رسانی سے دور ہونا چاہیے، (دانت
توڑنا، آنکھ پھوڑنا، جیسے امکانات سے خالی ہونا چاہیے)
3- اگر کسی کھیل میں محض دنیوی مفاد ہو اور وہ ضرر رساں نہ ہو تو اس کی
اجازت ہے۔ (مثلاً شکار وغیرہ)
چنانچہ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اُخروی مقصد کے لیئے کچھ کھیل کھیلوائے ہیں۔
اُن میں سےکچھ کا ذکر ہم ذیل میں کررہے ہیں۔
1- (گھڑدوڑ)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں:
آپ ﷺ نے دبلے گھوڑوں کی دوڑ، حفیاء سے ثنیّۃُ الوداع تک لگوائی اور موٹے
گھوڑوں کی دوڑ، ثنیّۃ الوداع سے مسجد بنی زُرَیق تک لگوائی، اور میں
(عبداللہ بن عمرؓ) دوڑ لگانے والوں میں شامل تھا۔
آپﷺ کی عَضباء نامی ایک اونٹنی تھی کسی دیہاتی نے آپﷺ کی اس اونٹنی سے اپنی
اوٹنی کی دوڑ لگانے کی پیشکش کی تو آپﷺ نے اس کی پیشکش قبول کی، اور دوڑ
میں آپﷺ کی اوٹنی کی ہار ہوئی۔ جس پر صحابہءِ کرام کبیدہِ خاطر ہوئے تو
انہیں تسلی دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا: "یہ اللہ کی شان ہے کہ دنیا کی کوئی
چیزجب شہرت میں بڑھ جاتی ہے تو اللہ اسے نیچے گرا دیتا ہے۔" راوی نے بتایا
کہ عَضباء کو دوڑ میں کبھی شکست نہیں ہو ئی تھی۔
(2) پیدل دوڑ
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:
میں نے آپﷺ سے ایک مرتبہ (پیدل) دوڑ لگائی تو میں جیت گئی، لیکن جب کچھ
عرصہ بعد میں موٹی ہوگئی اور آپﷺ سے دوڑ لگائی تو میں ہار گئی، جس پر آپﷺ
نے فرمایا: میری جیت اُس ہار کے بدلے میں ہے۔ (اب میں اور تُو برابر، برابر
ہو ئے)۔
(3) تیر اندازی
دفاع اور جہاد میں تیر اندازی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس سے دشمن کو دور ہی
سے شکست دی جاتی ہے۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا: واعدوا لھم ما استطعتم من
قوّۃِِ۔۔۔(الانفال-60) دشمن کے خلاف تم سے جو طاقت ممکن ہوسکے تیاررکھو۔۔۔
آپﷺ سے دریافت کیا گیا کا طاقت سے کیا مراد ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: تیر
اندازی ہی قوّت ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ کا کچھ صحابہ کرام کے ہاں سے گذر ہئوا
اُس وقت وہ تیر اندازی کی مشق کررہے تھے تو آپﷺ نے ان سے فرمایا: تیراندازی
سیکھ لو، تمہارے آباء و اجداد بھی تیرانداز تھے ۔ آپﷺ نے غزوہء بدر کے
موقعہ پر غازیانِ بدر سے فرمایا: جب کفار تمہارے تیروں کی زد میں آنے کے
قریب ہوں، تو ان پر تیر برساؤ ۔
،آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تیربننے پر اللہ تعالٰی تین اشخاص کو جنت میں داخل
کرتا ہے: تیر ساز کو، جو اس کے بنانے میں خیر (غلبہءِ اسلام) چاہتا ہے، تیر
مارنے والے کو اور تیر کی کِٹ بنانے والے کو، تمہاری تیر انداز مجھے تمہاری
گھڑ سواری سے زیادہ پسند ہے ۔
فُقَیم لَخَمی نے حضرت عقبہ بن عامر کو دو نشانات کے درمیان بار بار آتے
جاتے دیکھ کر پو چھا: آپ اتنے سن رسیدہ ہو کر اِن نشانات کے درمیان آجارہے
ہو؟ حضرت عُقبہ بن عامِر نے جواباََ فرمایا: اگر میں آپﷺ سے ایک بات سنی نہ
ہوتی تو میں یہ کاوش نہ کرتا، اُس نے پوچھا وہ کون سی بات ہے؟ حضرت عقبہ بن
عامر نے کہا، آپﷺ نے فرمایا: "جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑدیا تو
وہ ہم میں سے نہیں ہے یا فرمایا، وہ نا فرمان ہؤا ۔
آپﷺ نے فرمایا: اپنے لڑکوں کو پیراکی سکھاؤ، اور لڑاکؤں کو تیراندازی سکھاؤ
۔
حضرت زبیر بن العوام کو دریائے نیل پار کرکے مسلمانوں کے کسی اہم مشن کی
خاطر نجاشی کے پاس جانا تھا۔ اس موقعہ پر اس کے لیئے ایک مشکیزہ کہ پھونک
کے اس میں ہوا بھردی گئی۔ حضرت زبیر بن العوام نے مشکیزہ کہ پوری مہارت سے
اپنے سینے کے نیچے دبا کے دریائے نیل عبور کیا ۔
(4) کُشتی
آپﷺ کی ملاقات ایک مرتبہ رُکانَہ بن عبدِ یزید بن ھاشم بن عبد المطلب سے
ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کہ کلمہء شھادت پڑھنے کی دعوت دی، بات یہاں تک آکر
پہونچی کہ آپﷺ کو اُس سے کشتی لڑنی پڑی۔ آپﷺ نے کشتی میں اسے دو مرتبہ شکست
دی ۔
(5) سنگین/برچھی بازی
سنگین بازی یا برچھی بازی حبشیوں کا پسندیدہ کھیل بھی تھا اور یہ دست بدست
لڑائی کی صورت میں کار آمد بھی تھا، چناچہ انہوں نے آپﷺ سے اس کھیل کا
مظاہرہ کرنے کی اجازت طلب کی تو آپﷺ نے انہیں اپنی مسجد میں اس کا مظاہرہ
کرنے کی اجازت دی اور پردے کے پیچھے حضتر عائشہ ؓ کو بھی دکھایا ۔
خذف اور کرکٹ کے درمیان قدرِ مشترک
1۔ خذف کے ذریعے، خذف کے کھیلنے والوں کو کو ئی دنیوی یا اُخروی فائدہ نہیں
پہنچتا تھا۔
2۔ خذف کھیلتے مین کبھی آنکھ اور کبھی دانت کا نقصان ہو جاتا تھا، جس کا
تذکرہ آپﷺ نے بھی کیا۔
3۔ خذف کھیل کے شائقین (کھیلنے والے اور تماشہ بین) اپنے ضروری کاموں اور
روزگار وغیرہ سے ے اعتنائی پرتتے تھے۔ جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا
تھا۔
4۔ آپﷺ کے ارشاد سے اشارۃً معلوم ہؤا کہ جس کھیل سے کوئی دنیوی یا اُخرَوِی
فائدہ ہوتا ہو تو وہ کھیل کھیلا جا سکتا ہے، (شکار نہیں کھیلا جاتا)---(
دشمن کو گزند نہیں پہنچائی جا سکتی) اسی طرف اشارہ ہے۔
5۔ کرکٹ سے کوئی دنیوی یا اخروی فائدہ نہیں ہوتا۔
6-کرکٹ کھیلتے میں کئی نقصانات ہوتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے کرکٹ کے
کھلاڑیوں کو حفاظتی کٹ لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔
7- کرکٹ پر بے تحاشہ رقمیں صرف ہوتی ہیں جا ساھوکار اور عیش پرست لوگوں کے
جیبوں سے نکل کر کھلاڑیوں اور کرکٹ کے منتظمین پر صرف ہوتی ہیں۔
8- اللہ کی عطا کی ہوے دولت غریبوں، حاجت مندوں، مریضوں اور مفلوک الحال
لوگوں پر خرچ ہونے کے بجائے ذہنی عیاشی پر خرچ ہو جاتی ہے۔
اس لیئے خذف کی طرح کرکٹ بھی شرعاً ممنوع کھیل ہے۔
|