ملکی دفاع پر حملہ

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اس کی سلامتی و دفاع کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اگر کوئی آپ کے دفاع کوکسی بھی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرے تو وہ آپ کے مفادات کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔اگر دفاع پر حملہ ہو جائے تو یہ واجح طور پر ریڈ لائن ہو گی ۔ یعنی آپ پر اعلانیہ جنگ مسلطکر دی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک میں جلاؤ گھیراؤ ، تشدد،حساس دفاعی اور سرکاری تنصیبات پر حملے، مساجد اور یادگار شہداء کو آگ لگانے والے کون تھے۔ اگر چہ ملک کے وزیر داخلہ انہیں تربیت یافتہ دہشت گرد قرار دے رہے ہیں کہ انہیں پچھلے ایک سال سے تربیت دی جا رہی تھی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خان کے حامیوں نے خاص طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ 2022 میں اپنی برطرفی کے لئے فوج کو مورد الزام ٹھہرانے کا پروپگنڈہ کر رہے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یہ واشنگٹن اور شریف کی حکومت کی سازش تھی -یہ ایک بیانیہ تھا جو ووت بینک بڑھانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ لوگوں کو اشتعال دینے، اکسانے اور بڑھکانے ے لئے اسی نفرت اور حقارت کے ہتھیار کو آزمایا گیا۔ 9 مئی سے 11 مئی تک 3 دن ملک میں فتنہ فساد، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈرز لاہور کی رہائش گاہ (کور کمانڈر ہاؤس کو مکمل طور پر راکھ میں تبدیل کر دیا گیا)،ریڈیو پاکستان پشاور سمیت سرکاری اور حساس دفاعی تنصیبات پر حملے ،مساجد، شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش اور لوگوں کے گھروں پر حملے کرنا دراصل دفاع پاکستان پر حملے تھا۔
منظر عام پر آنے والی آڈیو لیکس سے پی ٹی آئی کی قیادت کے فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس منظر عام پر آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت مبینہ طور پر لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے میں ملوث تھی۔مبینہ آڈیو کلپس سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی کارکنوں کو جناح ہاؤس میں جمع ہونے کی تاکید کی تھی اور انہوں نے ٹیلی فون کالز کے دوران ہونے والے نقصان پر ''خوشی'' منائی تھی۔علی چوہدری کو مبینہ طور پر ایک آڈیو ریکارڈنگ میں اعجاز چوہدری کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ''ہم نے پورے کور کمانڈر ہاؤس کو تباہ کر دیا ہے اور ان کی کہانی ختم کر دی ہے۔''پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور صوبائی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کی پارٹی رہنما سے گفتگو کی مبینہ آڈیو اور ان کی کارکنوں کو کور کمانڈر ہاؤس جانے کی ہدایت کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔یاسمین راشد لاہور میں ایک مظاہرے میں پہنچیں جہاں ایک خاتون کارکن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحبہ! یہاں کوئی نہیں بیٹھنا چاہتا اور ہر کوئی کور کمانڈر ہاؤس جانا چاہتا ہے۔اس پر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر سب اکٹھے ہوں گے اور کور کمانڈر ہاؤس پہنچیں گے۔ ویڈیو میں پی ٹی آئی کے کارکن عباد فاروق کو پنجاب کے امیدواروں کو دھرنے کی جگہ سے فوری طور پر نہ پہنچنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے ایک آڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میری آواز تمام گروپس تک پہنچائیں، میں ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کے ساتھ کور کمانڈر ہاؤس پہنچ گیا ہوں اور اعجاز چوہدری اور میاں محمودالرشید بھی ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ عمران خان کا امتحان ختم اور ہمارا امتحان شروع ہو گیا ہے۔عباد نے اپنی مبینہ آڈیو میں یہ بھی کہا کہ 'ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ نے ہمیں واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگا دیں گے اور اعجاز چوہدری نے بھی وعدہ کیا ہے کہ ہم باز نہیں آئیں گے، پی ٹی آئی کے تمام ٹائیگرز فوری طور پر کور کمانڈر کے گھر پہنچ جائیں۔ ''کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد اور پی ٹی آئی رہنما اعجاز منہاس کے درمیان ہونے والی گفتگو کی مبینہ آڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ’’اب ہم واپس گجر چوک جائیں گے، ہمیں ابھی واپس لبرٹی چوک پر بیٹھنا چاہیے یا یہیں (کور کمانڈر) ہاؤس رہنا چاہیے‘‘۔اس پر اعجاز منہاس نے یاسمین راشد سے کہا کہ ’’ان سے پوچھو‘‘۔ جس پر پی ٹی آئی کی خاتون رہنما نے استفسار کیا کہ میں کس سے پوچھوں؟پھر اعجاز منہاس نے کہا کہ اگر آپ کو بیٹھ کر علامت کے طور پر دکھانا ہے تو بہتر تھا جہاں آپ بیٹھے تھے، اب اگر آپ اٹھ گئے ہیں تو لبرٹی بہترین جگہ ہے جہاں پر امن ہے اور چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں۔ جی ہاں، ہم وہاں بیٹھنے کے تمام انتظامات کریں گے''انہوں نے کہا کہ آپ کو جو کرنا تھا وہ ہو گیا، اب واپس جائیں، رات کو لوگوں کو جمع کریں اور میڈیا کے ذریعے لبرٹی پر پرامن دھرنے کی کال دیں۔ اس پر ڈاکٹر یاسمین راشد نے اوکے کہہ کر بات ختم کی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں توڑ پھوڑ کا ایسا ہولناک واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔ لاہور میں واقع تاریخی کور کمانڈر ہاؤس جو کہ بانی قوم قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ بھی تھا، اسلام آباد میں رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے حملہ کیا۔ پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں کم از کم نصف درجن لوگ جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ۔ پشاور میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم تین پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے عہدیداروں نے لاہور میں دو اور پشاور میں مزید تین اموات کی اطلاع دی۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت پر سینکڑوں 'شرپسندوں' نے اچانک دھاوا بول دیا۔مشتعل ہجوم نے نیوز روم اور عمارت کے مختلف حصوں میں تباہی مچا دی۔ 'شرپسندوں' نے ایک دن قبل بھی ریڈیو پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ مظاہرین نے عمارت میں توڑ پھوڑ کی، خواتین سمیت عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا اور آگ لگانے میں مصروف رہے۔ انہوں نے چاغی یادگار اور ریڈیو آڈیٹوریم کو آگ لگا دی۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت کے مختلف حصوں میں آتشزدگی سے ریکارڈ اور دیگر مواد کو تباہ کر دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت میں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔

اس تشدد کا مقصد ملک میں افراتفری، انارکی اور فساد پھیلانا تھا۔وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کا ان مظاہرین کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکن نہیں ہیں، یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے، جس کے اندر نفرت، عناد، گھیراؤ جلاؤ، میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو اور میں ماردوں گا کا کلچر ہے، اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ صاف نظر آرہی ہے، شہدا کی یادگاروں کو آگ لگانا کون سی سیاست ہے، دفاعی تنصیبات کے اوپر حملہ کرنا، آگ لگانا، اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا ہمارا سیاسی کلچر نہیں ۔پاکستان میں سیاست میں کتنی تلخی رہی ہے، کسی زمانے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اختلاف رہا لیکن لوگ کبھی ایک دوسرے کے گھروں پر نہ پہنچے۔ یہ کون ہیں جو ایمبولینس سے مریضوں کو نکال کر ایمبولینس کو آگ لگا دیں، اسکولوں اور ریڈیو پاکستان کو آگ لگادیں۔یہاں تک کہ مویشی منڈی میں لوٹ مار کے بعد مویشیوں کو آگ لگا دی گئی۔ 9 مئی کو اسلام آباد میں 12 مقامات پر احتجاج ہوا۔ جن میں 600 سے 700 تک لوگ شریک ہوئے۔ پنجاب میں 221 جگہ پر تقریباً 15 ہزار سے 18 ہزار افراد نے احتجاج کیا۔ خیبرپختونخوا میں 126 مقامات پر احتجاج ہوا جہاں 19 ہزار سے 22 ہزار مظاہرین تھے۔ 10 مئی کو اسلام آباد میں 11 مقامات، پنجاب میں 33 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 85 مقامات پر مظاہرے ہوئے، جہاں بالترتیب 1900، 2200 اور 13 ہزار کے درمیان لوگ شریک تھے۔ 11 مئی کو اسلام آبادمیں 4 مقامات، پنجاب میں 12 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 39 مقامات پر احتجاج ہوا اور تینوں مقامات میں مجموعی تعداد بالترتیب 515 اسلام آباد، 800 سے ایک ہزار پنجاب اور 5 سے 6 ہزار خیبرپختونخوا میں مظاہرین تھے۔ 9 مئی کو پورے پاکستان میں مجموعی طور پر 40 ہزار سے 45 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا۔ادھروفاقی وزیر داخلہ نے پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج کے حوالے سے الزام عائد کیاکہ یہ تربیت یافتہ دہشت گرد اور فسادی تھے، جن کی تربیت عمران خان پورے ایک سال سے کر رہا تھا، ان کی فہرستیں بن رہی تھی، ان کو تربیت دی جا رہی تھی، ان کو پڑھایا، سمجھایا جا رہا تھا، ان کو پیٹرول بم بنانے کے طریقے سمجھائے جا رہے تھے، جگہ جگہ پر آگ لگائی گئی تھی وہ پیٹرول بم بنانے کے طریقے ہیں۔ ان کو غلیلیں دی گئیں اور پنجاب، گلگت بلتستان، کراچی، اسلام آباد اور ہر جگہ مخصوص غلیلیں ہیں۔مظاہرین کی تعداد 9 مئی کو 40 سے 45 ہزار تھی، 10 مئی کو 19 ہزار 880 سے 22 ہزار 730 تک اور11 مئی کو 6 ہزار 125 سے لے کر 6910 تک تھی، 23 کروڑ کی آبادی سے یہ عوامی ردعمل تھا۔ یہ احتجاج نہیں ، لوٹ مار کی گئی، مویشی منڈی لوٹ لی گئی، اسلحے کی دکان لوٹ لی گئی، کئی جگہوں پر بینکوں کو لوٹنے کی کوشش کی گئی، جن گھروں خاص طور پر جناح ہاؤس لاہور سے سوئی اور کپڑے تک لوٹ لیا گیا اور اس کے بعد آگ لگائی گئی۔وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ بات پوری قوم کے لیے پریشانی اور دکھ کا باعث ہے کہ عمران خان پرالزام ہے کہ اس نے قوم کا 60 ارب روپے لوٹا ہے، اس کا دستاویزی ثبوت ہے اور وہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ نہیں لوٹا، وہ یہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ ایک پراپرٹی تائیکون کے پیسے پکڑے گئے تھے، ان کا نام ملک ریاض ہے۔ پراپرٹی تائیکون کے پیسے غیرقانونی طور پر وہاں منتقل ہوئے ۔ سارے پیسے پاکستان کے خزانے میں آنے تھے لیکن خزانے کے بجائے عمران خان کے اکاؤنٹ میں منتقل کرائے اور قومی خزانے کو 60 ارب کا ٹیکا لگا۔ 6، 7 ارب روپے کی پراپرٹی 458 کنال زمین سہاوہ میں القادر ٹرسٹ کے نام سے رجسٹر کروائی۔ 240 کنال بنی گالا میں فرح گوگی کے ذریعے رجسٹری کروائی۔جب پکڑے گئے تو ملک میں عوام کو گمراہ کیا اور جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے جلاؤ گھیراؤ کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے اور حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ دشمن عناصر مسلح افواج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ وہ عوام کے تعاون سے سازش کو ناکام بنانے کا عزم دہرارہے ہیں ۔عوام سمجھتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو نیب اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا۔ اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سے فوج کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔یہ درست ہے کہ جو کام ملک کے دشمن 75 سال نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اور گمراہ کئے گئے گروہ نے کر دکھایا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ فوج نے انتہائی تحمل، بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائی صبر اور برداشت سے کام لیا۔حکومت کہتی ہے کہ ان کارروائیوں میں ملوث سہولت کار، منصوبہ ساز اور سیاسی بلوائیوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی دشمن کی خوہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حکم دیا ہے کہ تشدد کے تمام مجرم، منصوبہ ساز، اکسانے والے اور حملہ آور گرفتارکئے جائیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج ہوں۔ اپریل 2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف ہونے کے بعد خان نے جرنیلوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان پر اور ان کی سیاسی تحریک کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا۔کئی مہینوں تک پاکستانی ملٹری انٹیلیجنس کے ایک سینئر جنرل کو نام لے کر پکارا، اور الزام لگایا کہ کمانڈر نومبر میں ہونے والی فائرنگ کے پیچھے ہے جس میں وہ زخمی ہوا تھا۔فوج کی تذلیل کرنے اور اس پر جمہوریت کو پامال کرنے کا الزام لگانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیاگیا۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ ''یہ ایک مکمل سیاسی طوفان بن گیا ہے جس کے بہت ہی غیر متوقع نتائج ہوں گے۔'' ماضی میں فوج سیاسی تنازعات کے ثالث کے طور پر کام کرتی تھی۔ آج ملک میں کوئی ادارہ نہیں ہے جو یہ کردار ادا کر سکے۔ خان پر بطور وزیر اعظم اپنے دور میں غیر قانونی طور پر سرکاری تحائف فروخت کرنے کے ایک مختلف مقدمے میں بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

جھڑپوں میں کم از کم آٹھ پاکستانی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو ئے۔ ہلاکتوں میں سے پانچ خیبر پختونخوا میں، دو لاہور میں اور ایک شخص کوئٹہ میں ہلاک ہوا۔ 200 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مظاہرین نے اسلام آباد کے مضافات میں ایک ریلوے سٹیشن کو نذر آتش کر دیا۔پولیس نے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے الزام میں سیکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ہجوم کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں خان اور ان کی پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے نئے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ حکام کہتے ہیں کہ مشتعل ہجوم کا فوجی تنصیبات پر حملہ، عوامی املاک کو نقصان پہنچانا، پولیس کی درجنوں گاڑیوں کو جلانا، پولیس افسران پر حملہ اور اہم سڑکوں وشاہراہوں کو بلاک کرکے زندگی کو درہم برہم کرنا نظر انداز نہیں کای جا سکتا ہے۔ تشدد کے بعد مشرقی پنجاب اور شمال مغربی خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں ۔انٹر نیٹ سروسز معطل کی گئیں ۔ راولپنڈی کے گیریژن شہر میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ ، شمال مغرب میں سیکیورٹی پوسٹوں پر حملہ، افغانستان کی سرحد پر واقع چکدرہ قلعہ کو نذر آتش کرنا، لاہور میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی اور پھر اسے نذر آتش کر نا معمول کے احتجاج کا حصہ نہیں بلکہ اس سے ملک دشمنوں کے کردار کا پتہ چلتا ہے۔ جو سیاست کی آڑ میں ملک کو کمزور کرنے اور اس کے دفاع کونقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔یہ محض امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش نہیں بلکہ ملک کے خلاف جنگ ہے۔ اس میں یہاں کے ہی لوگ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان محرکات کے اصل دشمن کی شناخت کرنا ایک کھلا چیلنج ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو سکتا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555323 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More