فرقانِ حمید میں متعدد بار عدل وانصاف کا حکم دیا گیا
ہے۔ سورۃ النساء آیت 58 میں ارشاد ہوا ’’اور جب لوگوں کا تصفیہ کیا کرو تو
عدل سے تصفیہ کیا کرو‘‘۔ اِس آیت میں ربِ لم یزل نے یہ نہیں فرمایا کہ
مسلمانوں میں تصفیہ کیا کروبلکہ اشارہ دے دیا گیا کہ مسلم ہوں یا غیرمسلم،
دوست ہوں یا دشمن، عزیز ہوں یا رشتہ دار، فیصلہ کرتے وقت سب مساوی ہیں۔
فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ سارے تعلقات سے الگ ہو کر وہی فیصلہ کریں جو
حق وانصاف پر مبنی ہو۔ یہی حکم سورۃ المائدہ آیت 8 میں یوں ہوا ’’اے ایمان
والو! اﷲ تعالیٰ کے لیے پوری پابندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا
کرنے والے رہواور کسی خاص قوم کی عداوت تمہارے لیے اِس کا باعث نہ بنے کہ
تم عدل سے پھر جاؤ‘‘۔ ہم جس دھرتی کے باسی ہیں وہ دینِ اسلام کی بنیاد پر
حاصل کی گئی اور قائدِ اعظم نے اِسے ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ قرار دیا۔ اِس
لیے ضروری ہے کہ اہلِ عدل اِن احکاماتِ ربی کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیا
کریں۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’اگر عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت
کے خوف سے اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر قیصر وکسریٰ کی حکومتوں اور اسلامی
ریاست میں کیا فرق ہوا‘‘۔ مگرہمارے ہاں عدل زورآوروں کے گھر کی لونڈی، دَر
کی باندی بن کے رہ گیا ہے۔
ہمیں حیرت کے شدید جھٹکے اُس وقت لگے جب عدل کے اونچے ایوانوں کے سب سے بڑے
مسند نشیں نے ایک ملزم کو کہا ’’ویلکم خاں صاحب! آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی،
ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا
بندیال کے تھے اور مخاطب وہ شخص جس کے پیروکاروں نے 9 اور 10 مئی کو دھرتی
ماں کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اُن دہشت گردوں کا نشانہ براہِ
راست پاک فوج تھی۔ اُنہیں پہلے ہی ٹارگٹ بتا دیئے گئے تھے۔ ایک وڈیو میں
ڈاکٹر یاسمین راشد دہشت گردوں کو کہتے ہوئے پائی گئی کہ کور کمانڈر ہاؤس
لاہورپر حملہ آور ہونے کے لیے اکٹھے مل کر جانا۔ دہشت گردوں نے کور کمانڈر
ہاؤس لاہور کو پٹرول بموں کے ذریعے نذرِ آتش کیا اور جس کے جو ہاتھ لگا وہ
لوٹ کر چلتا بنا۔ اِس وحشیانہ فعل کے بعد تحریکِ انصاف کا خوشی سے نہال
سینیٹر اعجاز چودھری ایک آڈیو میں اپنے بیٹے کو کال کرکے دہشت گردوں کا یہ
کارنامہ سناتے ہوئے پایا گیا۔ پھر دہشت گردوں نے پلٹ کر سی ایس ڈی لاہور پر
حملہ کیا اور اُسے لوٹ کر چلتے بنے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 4
دسمبر 2009ء کو دہشت گردوں نے جی ایچ کیو کی پریڈ لین مسجد پر حملہ کیا اور
دوسری بار یہ قبیح فعل تحریکِ انصاف کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سرانجام پایا۔
وہ جی ایچ کیو کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور توڑپھوڑ کرتے رہے۔ شرپسند
کورکمانڈر ملتان کے گھر پر بھی حملہ آور ہوئے۔ اُن کا ٹارگٹ خصوصی طور پر
افواجِ پاکستان کی تنصیبات تھیں جنہیں میڈیا پر دیکھ کر بھارتی بغلیں بجاتے
رہے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے سیبرطیارے نے بھارت کے ہلواڑہ
ایئربیس کو تباہ کرکے بھارتی سورماؤں کے سَر شرم سے جھکا دیئے، آج ظالموں
نے ہماری عظمتوں کی نشانی اُسی سیبر کو نذرِآتش کر دیا۔
10 مئی کو آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا ’’9 مئی کا دن ایک سیاہ باب کی
طرح یاد رکھا جائے گا۔ عمران خاں کو قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا لیکن
اُس کی گرفتاری کے بعد فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ دشمن جو 75 سال میں
نہ کر سکا وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلاء ایک سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر
دکھایا‘‘۔ اُنہوں نے کہا ’’ایک طرف تو یہ شر پسند عناصر عوامی جذبات کو
اپنے محدود اور خودغرض مقاصد کی تکمیل کے لیے بھرپور طور پر اُبھارتے رہے
اور دوسری طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ملک کے لیے فوج کی
اہمیت کو بھی اجاگر کرتے نہیں تھکتے جو کہ دوغلے پَن کی مثال ہے‘‘۔ اِس
اعلامیے کے مطابق مذموم منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی گئی اِس صورتِ حال سے
یہ گھناؤنی کوشش کی گئی کہ آرمی اپنا فوری ردِعمل دے جس کو اپنے مذموم
سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے لیکن آرمی کے سنجیدہ ردِعمل نے اِس
سازش کو ناکام بنا دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ’’ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ اِس
کے پیچھے پارٹی کی شرپسند لیڈرشپ کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشگی منصوبہ
بندی تھی اور ہے۔ اُن کی شناخت کر لی گئی ہے اور اُن کے خلاف قانون کے
مطابق سخت کارروائی کی جائے گی‘‘۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کی لیڈر شپ کی
منصوبہ بندی کا سوال ہے تو اِس معاملے میں سوشل میڈیا پر کئی آڈیوز اور
ویڈیوز گردش کر رہی ہیں۔
دہشت گردوں نے حساس ریاستی اداروں، عمارتوں اور جناح ہاؤس کو نشانہ بنایا۔
شُہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی۔ ریڈیو پاکستان پشاور کو
نذرِآتش کیا۔ وہ سوات موٹر وے، سرکاری ونجی املاک، موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں
کو جلاتے رہے۔ شَرپسند عناصرسرکاری اہلکاروں خصوصاََ پولیس اور عام شہریوں
پر تشدد کرتے رہے، مریضوں کو اُتار کر ایمبولینسز کو جلاتے رہے۔ یہ سب کچھ
اُس لاڈلے کی وجہ سے ہوا جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے ویلکم کرتے
ہوئے نہ صرف 2 دن بعد رہائی کا پروانہ تھمایا بلکہ پولیس اہلکاروں کو حکم
بھی دیا کہ لاڈلے کو پولیس لائنز کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا کر اُس کی ہر
ضرورت کا خیال رکھا جائے۔ یہ حکم بھی صادر ہوا کہ لاڈلے کو 12 مئی کو پورے
پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے۔ 12 مئی کو ایک
دفعہ پھر حیرتیں منتظر تھیں۔ 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس
صاحب نے القادر یونیورسٹی کیس میں عمران خاں کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا
جسے محبتوں کے پھوٹتے سوتوں کے درمیان چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم عطا
بندیال کے بنچ نے غیرقانونی قرار دے دیا اور 12 مئی کو ہائیکورٹ کے جج
صاحبان نے اُسی کیس میں ضمانت بھی منظور کی۔
طُرفہ تماشہ یہ کہ عمران خاں کی اُن کیسز میں بھی ضمانت ہو گئی جو ابھی تک
منصۂ شہود پر نہیں آئے یا جن کا لاڈلے کو علم نہیں تھا۔ قوم تو ابھی تک
نظریۂ ضرورت کو بھی ہضم نہیں کر پا رہی تھی کہ ہماری عدالتِ عظمیٰ اور
عدالتِ عالیہ نے اُلفت ومحبت کی ایسی مثالیں قائم کر دیں جن کی نظیر اقوامِ
عالم کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری محترم
عدلیہ نے اُس وقت اَزخود نوٹس کیوں نہیں لیا جب محترم آصف زرداری کی بہن
فریال تال پور کو چاند رات کو ہسپتال کے بستر سے گھسیٹ کر جیل لیجایا گیا،
جب باپ کی ملاقات کو گئی مریم نواز کو میاں نوازشریف کے سامنے گرفتار کیا
گیا، جب بار بار درخواست کے باوجود آخری سانسیں لیتی ہوئی بیگم کلثوم نواز
کا حال پوچھنے کے لیے میاں نوازشریف کو فون کال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی
گئی۔ آج ایک ملزم 15 گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ مرسیڈیز گا ڑی میں شاہانہ
انداز کے ساتھ سپریم کورٹ میں داخل ہوتا ہے جہاں جسٹس صاحبان بے تابی سے
اُس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری عدلیہ اُس وقت کہاں تھی جب 2
بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو ہوائی جہاز میں بھی ہتھکڑی لگا کر
بٹھایا گیا۔ شاید اُس وقت ہماری محترم عدلیہ آمر پرویز مشرف کو 3 سالوں کے
لیے بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنے اور آئین میں مَن مرضی کی ترمیم کرنے کا
پروانہ عطا کرنے میں مصروف ہوگی۔ تلخ حقیقت یہی کہ ہماری عدلیہ اُس شخص کے
لیے آہنی دیوار ثابت ہوئی جو توشہ خانہ، القادر یونیورسٹی اور ممنوعہ فنڈنگ
جیسے کیسز کا ملزم ہے۔ یہ ایسے کیسز ہیں جن کے مکمل ثبوت متعلقہ اداروں کے
پاس موجود ہیں لیکن وہ اسی عدلیہ کی شہ پر کسی عدالت میں پیش ہونا پسند ہی
نہیں کرتا۔ اگر غلطی سے کسی عدالت میں پیش ہو جائے تو اُسے فوری ضمانت مل
جاتی ہے۔ یہ ایسا دوہرامعیار ہے جس کی وجہ سے قوم کا عدلیہ پر اعتماد اُٹھ
چکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عالمی معیار میں پاکستان کی عدلیہ آخری نمبروں پر
ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے
5 1مئی کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر دیاہے اور
پیپلزپارٹی بھی دھرنے میں شامل ہوگی۔ شاید اُن کے ذہن میں ہو کہ اگر سپریم
کورٹ کی دیواروں پر پوتڑے لٹکانے والوں کو ویلکم کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ
بھی دھرنا دے کر دیکھتے ہیں۔
|