پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن کہہ رہے ہیں دل ہمارے سیاہ
اور ہم دن کو سیاہ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں 09 مئی کے واقعات پر جو ہوا
بہت ہی برا ہوا، پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما کہہ رہے ہیں عمران
کی گرفتاری کے عمل میں ان کا ردعمل ہے کیا رد عمل میں وہ لوگ ملک اور
انسانیت کو بھی بھلا چکے تھے جو آیا کچل دیا گیا 9مئی کے واقعات پر جس پر
پی ٹی آئی کا اعلامیہ جاری ہوا جو قارئین کی نظر کررہی ہوں۔ چیئرمین
پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں اسلام
آباد ہائی کورٹ میں نیم فوجی دستوں کی جانب سے عمران خان کو اٹھانے پر نیب
اور رینجرز کے خلاف مقدمے کے اندراج کا فیصلہ کیا گیا ہے۔9 مئی کیواقعات کو
بنیاد بناکر پی ٹی آئی کے خلاف ریاست کی سطح پر کیا جانے والا جھوٹا، لغو
اور بے بنیاد پراپیگنڈہ مسترد کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی مکمل طور پر پرامن،
جمہوری سیاسی جماعت اور قانون کے دائرے میں سیاست کی قائل ہے۔ تحریک انصاف
کی 27 سالہ تاریخ تشدد و اشتعال سے بالکل خالی ہے۔ مشکل سے مشکل ترین حالات
میں بھی تحریک انصاف اور چیئرمین عمران خان نے قانون کا دامن ہاتھ سے نہیں
چھوڑا۔اعلامیہ کے مطابق عمران خان پر 3 نومبر کے قاتلانہ حملے کے بعد تحریک
انصاف نے ملک بھر میں ہزاروں مقامات پر احتجاج کیا مگر ایک پتھر تک نہیں
اچھالا گیا۔ کنٹرولڈ میڈیا اور جھوٹے پراپیگنڈے کی آڑ میں ملک گیر فساد کی
منصوبہ بندی کرنے والوں کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں پی ٹی آئی کے
پرامن احتجاج کے دوران انتشار کی سوچی سمجھی کوششوں، شہریوں پر گولیاں
برسانے کے پورے منصوبے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔9مئی کے واقعات
کی تحقیقات کے لیے با اختیار کمیشن بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل
اعلیٰ سطحی بااختیار کمیشن 9 مئی کو معصوم شہریوں کی شہادتوں اور انتشار کی
کوششوں کی تحقیقات کرے۔ پرامن احتجاج کے دوران نہتے شہریوں کے قتل کے
مقدمات بھی درج کروائے جائیں گے جن میں وفاقی وزیرداخلہ، پنجاب اور
پختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ اور آئی جیز سمیت ملوث پولیس افسران کو
مقدمات میں نامزد کیا جائے گا۔ پرامن احتجاج کے دوران جامِ شہادت نوش کرنے
اور زخمی و گرفتار کارکنان کے اہلِ خانہ سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے
ہیں۔ پی ڈی ایم کی اپنے سربراہ فضل الرحمان کی سرکردگی میں مدارس کے بچوں
کے ذریعے سپریم کورٹ پر یلغار کی شدید مذمت بھی کی۔تحریک انصاف نے سپریم
کورٹ کو بلیک میل کرنے یا آئینی فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹیں ڈالنے کا
پوری عوامی قوت سے جواب دیے گی۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے بعد 14 مئی کے روز
پنجاب میں انتخاب نہ کروانا دستور کے بہیمانہ قتل کی کوشش ہے۔ پنجاب کی
نگران حکومت کے پاس اب برقرار رہنے کا کوئی قانونی و آئینی جواز باقی
نہیں۔القادر ٹرسٹ کیس چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کو بدترین سیاسی
انتقام کا نشانہ بنانے کی بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ آئین پامال کرکے
انتخابات کی مخالفت اور مزاحمت کرنے والا گروہ ملک کو انتشار اور خانہ جنگی
کی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ جناح ہاؤس کو آگ لگانا یقیناً سنگین جرم ہے
اور ملک دشمنوں کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں لیکن کیا عمران خان کے ساتھ
طاقت کے نشئے میں دھت سیاستدانوں نے جو کیا وہ صحیح تھا چند ماہ قبل عمران
خان وزیر اعظم تھا اور اب پاکستان کا پاپولر لیڈر ہے۔ عمران خان کا کرم یہی
ہے کہ وہ الیکشن کا کہتا ہیلیکن آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ الیکشن کے
راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کریں یا کسی بھی صورت میں عوام کو اسکے
ووٹ کے آئینی حق سے اپنی خواہشات کے مطابق محروم رکھیں۔ 9مئی کو کہاں تھے
وہ سب سے نظم وضبط قائم رکھنے والے لوگ، کدھر گئیں انکی دانائیاں کہ وہ وقت
پر سمجھ جاتے اور عوام کے احساسات کو بھانپ کر بات کو اس حد تک نہ آنے دیتے
اور اس جیسی صورتحال میں دشمن ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن یہ صبح دوپہر
شام کی خوراکیں دینے والے کبھی اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس بھرم کے
ٹوٹنے میں کس کس کا کتنا کردار ہے، کس نے عوام کو اتناانڈر اسٹیمیٹ کیا اور
کیوں کیا؟ چلو پی ڈی ایم کی سیاسی مخاصمت تو بنتی ہے کہ وہ اپنی حریف پارٹی
کو برداشت نہ کرے لیکن اداروں کو تو زمینی حقائق اور سیاسی درجہ حرارت کا
لمحہ بہ لمحہ کا ادراک ہوتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دن یہ سب
کچھ اچانک ہوا؟ تو ہر کوئی جواب جانتا ہے کہ نہیں ہر گز نہیں لیکن کسی نے
یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ عوام کیا چاہتے ہیں، عوام کا تو احتجاج کا
جمہوری حق ہے، لیکن کیا اداروں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ عوام کو اسی نفرت میں
کچل دیں۔ لیکن افسوس بحیثیت قوم ہم سب نے قومی وحدت کا اتنا بڑا نقصان کر
دیا ہے کہ یہ نفرت کی خلیج لگتا ہے اب بھرتے بھرتے شاید صدیاں بیت جائیں
کیو ں نہ سب سیاستدان،عدلیہ اور افواج ایسا نظام رائج کریں کہ اپنے مفاد کے
بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دی جائے تاکہ بابائے قوم کی روح کو تسکین پہنچے
اور عوام کے چہرے پر مسکان لوٹ آئے۔
|