فرد کیلیے راہنمائی کے ذرائع

انسان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے تین ذرائع علم انسان کو بنیاد فراہم کرتے ہیں جس بنائے پر وہ حیوانی سطحِ زندگی سے بلند انسانی زندگی کی ابتداء کرتا ہے آج خیال ،عقل سے حاصل شدہ و ذاتی تجربے وقربانی کا علم انسان کو کائناتی تسخیرکیلے کافی ہوتا نظر آتا ہے مگر فرد کی حیوانی ضرورت کی تکمیل انسان کی تسکین کا سبب نہ ہوتی ہو تو وہ الکلام کی طرف رجوع کرسکتا ہے جو دعویٰ کرتا ہے اس طرح کا کلام انسان تحریر نہیں کرسکتا کیونکہ انسان مخلوق ہے

انسان اگر تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو تمام عقلی و مذہبی مکاتیب سے یہ بات کو تسلیم کروائی جاسکتی ہے کہ ابتدائی اکائی سے زندگی شکل ِ انسانی میں کرہِ ارض پر اپنی شروعات دورِ ثانی کے تین گروہ سے کرتی ہے

تقریبا تمام بڑے مذاہب میں عالمگیرطوفان کا تذکرہ ہے عقلی طور پر یہ کوئی ناممکن بات نہیں کرہ ارض پر خشکی و تری کا ردوبدل ہوسکتا ہے عقلی ومذہبی پیرو کار تین گروہ میں انسان کو تقسم کرتے ہیں سامی حامی یافث یا سرخ زرد سیاہ ایک چھوٹے سے معاشرے کی ابتداء چند گروہ کا فطری حالات میں مل جل کر رہنا کوئی بڑی بات نہیں مگر تکلیف دہ امر انسان کا انسان کی آزادی نظر آتا ہے جو انسانیت کیلے تکلیف کا باعث ہوتا ہے یوں انسان اور اس کی آزادی مختلف سردوگرم ماحول میں نشونما پاتی رہی

عقل کے پاس مادہ و خیال میں ابتدائی کون کیلیے دلیل کی کمی خارجی علم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے خارج سے علم کیسے حاصل ہو تا اس کے ذریعہِ علم کی وضاحت واضح نہیں جو عقل کو غوروفکر کی دعوت ہے

شکار کرتا ہوا انسان جب جانورں کو رام کرگیا تو کائنات پریہ اختیار کاپہلا قدم ضرورت کی بناتھاضرورت سے ضرورت کاتبادلہ کی بناپر خیال کائنات پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا انسانی خیال کی سب سے بڑی روکاوٹ بھی انسان ہی بنا تجرباتی وقربانی سے حاصل علم کے ساتھ عقلی وخیالی علم کی ابتداء بھی انسان کی بہتری کیلیے تھی

اسلام مذاہب کی دنیا میں سب سے کم عمر ہوتے ہو ئے تمام مذاہب کی خارجی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے عقل والوں کوغور و فکرکی دعوت بھی دیتا ہے اور دلیل پیش کرتا یہ کتاب اللہ ہے اور اپنی کتاب کو بے مثل ا ور الکلام بیان کرتا ہے


عالمگیر طوفان کے بعد جو معاشرے تاریخ میں محفوظ ہیں وہ مذہبی و عقلی حلقے میں تسلیم شدہ ہونے کے ساتھ خارجی علوم کے کتب بیان بھی کرتے ہیں

دنیا میں بنی اسرائیل کے عروج وزوال کی تاریخی ابتداء حضرت ابراہیم سے شروع ہوئی کرہ ارض پر عقلی علوم پر قائم دنیا کی نامور سلطنت مصر کے حضرت یوسف علیہ سلام کی خارجی علم سے قائم حکومت اورحضرت موسیٰ علیہ سلام کے دور میں بنی اسرائیل کا غلامی تک آ جانااور پھر اس غلامی سے نجات کے لیے حضرت موسیٰ علیہ سلام کا کردار عقلی علوم کے مکاتیب فکر میں تسلیم شدہ ہے محلوں میں پرورش پانے والے حضرت موسیٰ علیہ سلام کا کردار انسانی غلامی کے خلا ف انسانوں کی راہنمائی اور سلطانِ وقت کے سامنے انسانیت کیلے سرگرمیِ عملی۔ مذہبی اور عقلی فکر میں پوشیدہ نہیں

رجی علم کی راہنمائی نے انسانی آزادی کو راستے فراہم کیے ہیں چاہیے عقل خارجی علم کو تسلیم نہ کرے مگر وہ خیال کے وجود کو تسلیم کرتی ہے

حضرت ابراہیم کے ساتھ ہی حضرتِ انسان کائنات پر حکمرانی کے خواب کی تعبیرکی تکمیل کیلے خدائی دعوےٰ تک آچکا تھا انسانی ضرورتوں پر قابض ہوکر انسان کی آزادی کو غلا می میں تبدیل کرکے آ ج بھی کرہِ ارض پر انسان باختیار انسان کو حیوانوں کی طرح رام کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے فرد افراد خاندان قبیلے قوم سے آج انسان اقوام متحدہ تک آچکا ہے فرد کے خاندان سے مختلف اقوام وجود میں آچکی ہیں مگر انسان کو انسان تسلیم کرنے کیلے انسان تیار نہیں معاشرے اور ماحول سے تربیت پاکر ماضی کے انسانوں کی قربانی سے حاصل علم کی بنیاد کو فراموش کرکے عقل کی رائے کو پس پشت ڈال کر جذبات کی تسکین کیلے جان تک تو دے سکتا ہے مگر حکمرانی سے دستبردار نہیں ہوتا

انسانی قربانی اور تجربے کے بعد حاصل شدہ عقلی و خیالی علم سے انسان کائنات کے اصول سمجھ کر کائناتی قوتوں کو ضرورت کیلے استعمال کرتا تو کائنات میں کوئی کمی بیشی واقع نہ ہوتی مگر آج بھی انسان انسان پر حکومت کرکے اپنی برتری تسلیم کروانا چاہتاہے فرد فرد بات کی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اگر خارجی علم سے اصلاح کی کوشش کی جائے تو اس پر ایمان کا تقاضہ ذات کی نفی ہے خاندان قبیلے قوم کیسے خاندان قبیلے قوم کو تسلیم کریں

قوموں کیلے عیسٰی علیہ سلام کی کوشش انسانی تاریخ میں موجودہے یہ انسانیت کے لے افسوس کا مقام ہے کہ انسان نے کائنات میں شکاری طرزعمل سے جوحیوانی طرزسے زندگی کی ابتداء کی وہ اس مادی وخیالی تسکین سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں انسان اگر کائنات سے اعلیٰ ہو کر کائنات کا استعمال کرتا ہوا اپنے سفر کو جاری رکھ سکاتو کامیابی ممکن ہوسکتی ہے ور نہ اس کا اس کائنات میں اضافے کا سبب بنناناممکن ہے

انسانی عقلی علم کی ابتداء اگریونان سے شروع کریں تو ایک طرف انسان نے زمین کے قطعہ کی حدبندی کرتے ہوئے ریاست کے ابتدائی دور سے عظیم رومن امپائرجیسی حکومت اور دوسری طرف عرب کے صحرائی زبانی علم کی ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں کے آج بھی دنیا میں عربی زبان کا کوئی مقابل نہیںیہ نسبی صحرائی عرب باقی دنیا والوں کو عجمی پکارتے ہیں

یورپ کی اقوام نے اپنے زوال کے اسباب کو تسلیم کرکے اندلس سے اسلامی خار جی وعربی خیالی علوم کے علماء اور درس گاہوں سے استفاد ہ کیا اور عروج کی طرف پیشقدمی شروع کردی کیسے عرب جو صدیوں سے صحرائی زندگی میں کبھی قصروکسریٰ کی طرف رخ نہ کرتے تھے وہ اچانک دنیا کی سب سے بڑی اعتقاد ی ریاست کا سبب بن گئے یورپ اور افریقہ تک حکومتیں قائم کرگئے وہی عرب آج عقیدے کی تبدیلی سے ایک قوم میں تبدیل ہوگئے اور آج پھر سے یورپ دنیا کی راہنمائی کرتا نظر آتا ہے

دنیا کی اس تاریخی تبدیلی کے اثرات آج بھی تمام دنیا پر اثرانداز ہورہے ہیں وہ کیا معاشرتی و اعتقادی تبدیلی تھی جو صحرائی عرب قوم کو دنیا کا امام بناگئی

تاریخی حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے آپ کو حصولِ علم کے تین ذرائع تسلیم کرنے ہونگے

۱۔ ماضی کے تجربے وقربانی سے حاصل شدہ علم

۲۔انسانی خیال کے غوروفکرسے حاصل علم

۳۔القرآن ماضی ۔حال۔ مستقبل میں کلام کرتا ہے الہامی علم کی آخری کتاب ہے اور جس کا دعویٰ ہے اس جیسے کلام کی ایک آیت بھی انسان کے بس سے باہر ہے

سرزمینِ عرب میں حضرت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے معرفت ملنے والی کتاب اللہ جس کا دعویٰ ہے اس طرح کا کلام تمام انسان مل کر بھی تحریرنہیں کرسکتے نیز حضرت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم اور ان کے اعتقادی رفیقوں کی 49 سالہ معاشرتی زندگی کی کامیابیوں کی نظیر دنیا میں نہیں

حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولادوں میں الہامی علم کا عظیم سلسلہ تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہے حضرت ابراہیم علیہ سلام کی زوجہ اول سے حضرت اسحاق علیہ سلام اور زوجہ دوم سے حضرت اسماعیل علیہ سلام کے جنکا تاریخی نسبی سلسلہ کتب بیان کرتی ہیں

حضرت ابراہیم علیہ سلام آج بھی بڑے الہامی مذاہیب کے جدامجد مسلم ہیں اور قدیم عرب میں بھی دین ابراہیم کے ماننے والے تھے اسلام اپنی کتاب القران میں آج کے دور کے لے بہت خاص اندازِ کلام سے حضرت ابراہیم علیہ سلام سے پہلے کی تین اقوام کی مثال بیان کرتا پھر حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بعد کی تین اقوام کو مثا ل بیان کرتا ہے دورِ اول عالمگیرطوفان سے پہلے حضرت نوح علیہ سلام تا حضرت ابراہیم علیہ سلام تک و دورِ دوم حضرت ابراہیم علیہ سلام تا حضرت موسیٰ علیہ سلام تک

خارجی علم کی بنیاد پر طوفان سے محفوظ رہنے کیلے کشتی کی تیاری کررنے والے حضرت نوح علیہ سلام اپنی قوم کے لوگوں سے مخاطب ہیں اور قوم ان کے پیغام کی تکذیب کرتی ہے طوفانِ نوح میں قومِ نوح کی غرقابی اور نسلِ انسانی نئی زندگی کی ابتداء کے بعد دنیاِعرب کی قومِ عاد کا ذکر حضرت ہود علیہ سلام کی قوم کو وہ ہی پیغام دیا جاتا ہے ایک خالق کی غلامی اختیار کرؤ یہ قوم بھی پیغام کی تکذیب کی بناتباہی ا ورعبرت کا نشان بن گئی قومِ ثمود حضرت صالح علیہ سلام کی قوم جس نے سب سے پہلے کائنات کے استعمال کو اپنے لیے مخصوص کیا انسان کے ساتھ جانور اور زمینی ذرائع کو اپنے تصرف میں لا کر فساد کی شروعات کرکے خارجی۔عقلی۔انسانی تجرباتی علم پر طاقت کو فوقیت دے کر ہلاکت کے اسباب پیدا کیے یہاں تک انسان عقلی و تجرباتی علم کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ سلام کے ساتھ انسا ن رب کا دعوی کرتا ہے عقل کی راہنمائی کیلے القرآن حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بعدان تین اقوام کا بیان کرتا ہے جوانسانیت کیلے راہنمائی ہے آپ کے ہم عصرحضرت لوط علیہ سلام کی قوم قومِ لوط اپنی معاشرتی خرابیوں غیر اخلاقی افعال اور پیغام کی تکذیب کی بنا اپنی تباہی کا موجب بنی قومِ شعیب حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ناپ تول میں کمی بیشی اور پیغام کی تکذیب کی بنا ہلاک ہوئی


حضرت موسیٰ علیہ سلام کے بعد یہ قوم مسلسل عروج وزوال کا نشان ہے اس طرح انسانیت کی راہنمائی کسی اورالہامی کتاب بیان کرتی نظر نہیں آتی تاریخ میں اس قوم نے مختلف ادوار دیکھے مگر اس کے زوال کا اہم سبب تجرباتی۔ عقلی اور الہامی عالموں کا قتل اور عہد پر قائم نہ رہنا نظر آتا ہے دنیا میں معروف حضرت عیسیٰ علیہ سلام بھی سے اسی قوم کی سازش کا شکار ہوئے بنی اسرائیل الہامی علم کی حامل ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ سلام اور ان کے الہامی پیغام کی تکذیب کرتی رہی اور اپنے منضب سے معزول کردی گئی

جزیرہ نما عرب کی مقیم قوم میں حضرت اسماعیل علیہ سلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ سلام تک کوئی الہامی علم کا داعی نظر نہیں آتا اس طویل عرصہ میں اس قوم نے صحرائی زندگی سے کلام ۔شعروادب۔اصول قانون میں کمال حاصل کرلیا

ہزاروں سالوں سے آباد اس قوم میں ساتویں صدی عیسوی میں ایک انقلاب رونما ہوااور وہ صحراسے نکل کر دنیااور اس میں موجود انسانوں کے امام ہونے لگے

عربوں میں یہ تبدیلی صرف ایک شخص نے پیدا کی وہ تھے حضرت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم آخری خارجی و الہامی کتاب کے پیغام بر و خارجی و الہامی علم کے آخری رسول

عرب ان کے پیغام کو قبول کرنے لگے اورعقیدت و عقیدے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے دنیاکے امام ہو ئے عرب خود کلام میں مقام رکھتے تھے وہ باقی دنیا کو عجی پکارتے تھے حضرت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بہت سادہ تھی صرف نیکی اور اچھائی پر یقین رکھنا یہ اپنے قبائل کی۔ رسم ورواج ۔روایات بہادری۔شجاعت ۔مہمان نوا زی۔ میں بے مثل تھے ملکیت سے آزاد آن پر قربان ہونا اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان تمام خوبیوں کے ساتھ جزبہِ شہادت اطاعتِ امیران تمام خوبیوں نے صحرائی قبائل کو ایک قومی اور پھر اک عالمگیر امت کے عقیدے نے وہ مقام عطا کیا کے اب یہ شرف کسی کو نہ مل سکے

عرب جب تک مسلم امت تھے انھوں امامتِ دنیا کی مسلم امت وعدے کے سچے اور اپنے امیر کے امر پر متحدتھے مسلم عرب تا ایشیاو افریقہ ایک تھے اندلس کے مسلم فلسفی آج بھی یورپی فنون کے امام مانے جاتے ہیں تاریخ میں قدیم فنون کو نئی زندگی اورفلسفہِ جدید کیلے مسلم علماء کی تعلیم پل کا درجہ بیان ہوتی ہے اور آج انہی علوم کی بنا مغربی فلسفیوں نے اپنی زوال پزیر قوم کی راہنمائی کی اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے قائم کیے

حضرت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے انتیس سالہ دور میں جونظریاتی ریاست دنیا کے سامنے پیش کی وہ عظیم انقلاب تھا

دنیا میں صرف دو اقسام کے انسان ہیں ایک علم کو تسلیم کرنے والے ۔ دوم اپنی انا کی پیروی کرنے والے قطعہ زمین کی ملکیت یا کسی قسم کی نسبت سے اعلیٰ تمام انسانوں کے لے سادہ سی تعلیمات صرف نیکی اور اچھائی پر یقین سے پرجلال مستقبل و امامت کا سچا وعدہ دنیا کی تاریخ میں ایسا ہوچکا ہے یہ الکتاب وعدہ ہے

اگر آج بھی ہم خارجی الہامی علم کو تسلیم کرکے اس پر ایمان لے آئیں تو ایک شاندار مستقبل انسانیت کا منتظر نظر آتا ہے فرد۔افراد۔خاندان ۔قبائل ۔قوم۔ اقوام۔ صرف نیکی اور اچھائی کا سفرشروع کر لیں تو بنی نوع انسان بہت لمبے سفر کی مشقتوں سے محفوظ ہوسکتا ہے

نیکی اور اچھائی وہ ہے جس سے بنی نوع انسان کو فائدہ ہو
Asif shakhani
About the Author: Asif shakhani Read More Articles by Asif shakhani: 16 Articles with 14333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.