پانچ جولائی1977 کیا پکچر ابھی باقی ہے۔

ملک میں آئینی ،سیاسی اور معاشی خطرات کے بادل ابھی تک چھائے ہوئے ہیں،خدا خدا کرکے پورے ملک میں انتخابات ایک دن کروانے کے لیے حکومت اور حزب اختلاف مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہوئے ہیں ، مذاکرات ہوتو رہے ہیں مگر مذاکرات کا ماحول بن نہیں پارہاہے ،ملک کی اعلیٰ عدلیہ ایک ہی روز انتخابات کرانے کے لیے اپنے ہی احکامات نہ ماننے والوں کے خلاف مسلسل تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن شاید حکومتی بینچوں پر بیٹھے لوگوں نے اس تحمل کو اعلیٰ عدلیہ کی کمزوری سمجھ لیاہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیاتھا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدامات کیوں نہیں اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کرسکتی۔دیکھا جائے تو یہ ایک درست بات ہے کیونکہ حکومت کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ حکومت پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے لیکن جب تک آئین موجود ہے پارلیمان بھی آئین کی پابند ہے۔ مگریہاں سب کچھ الٹ چل رہاہے اور ایسا لگتاہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جارہاہے۔عدالت کی کوئی خواہش نہیں عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سیاسی تناعے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہاہے ایسا لگتاہے کہ ایک بڑے تصادم کی گھڑی قریب آتی جارہی ہے۔ ڈر ہے تاریخ اپنے آپ کو دھرانے تو نہیں جارہی ہے ۔وہ ہی پانچ جولائی کی سیاہ رات ۔تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ 1977 میں بھی ایک طرف 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف کے اتحاد نے سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے بات چیت کی اور یہ ہی کچھ 2023 ء میں سیاسی جماعتوں کا حکمران اتحاد اپوزیشن کی جماعت کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے۔نتائج اس وقت بھی نہیں نکل پارہے تھے اور ماحول اب بھی کچھ ایسا ہی ہے ،ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کی آئینی میعاد مکمل ہونے سے ایک برس پہلے ہی عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا اور اس پر صدر مملکت نے نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کیا تھا۔ان وقتوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن نہیں ہوتے تھے، آج پی ڈی ایم کے نام سے تیرہ جماعتوں کا اتحاد موجود ہے اس وقت پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد جو نو ستاروں کے نام سے مشہور تھا، اس نے 3 دن بعد 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور دھاندلی کے الزام کو لیکر ایک تحریک شروع ہوگئی۔ آخرکار تقریباً 3 ماہ کے بعد جون میں حکومت اور حزبِ اختلاف مذاکرات کے لیے اکٹھے ہوئے اور بات چیت کی ایک درجن سے زائد نشستیں ہوئیں اور یہ تمام سلسلہ ایک ماہ تک کبھی خوشی کبھی غم کے حساب سے جاری رہا۔مذاکراتی ٹیم میں حکومت کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر نیازی اور عبدالحفیظ پیر زادہ شامل تھے جبکہ اپوزیشن کی ٹیم، مولانا مفتی محمود،نوابزادہ نصر اﷲ خان اور پروفیسر غفور پر مشتمل تھی۔ دیگر معاملات پر گفتگو کے ساتھ مذاکرات میں اصل نکتہ یہ تھا کتنی نشستوں پر انتخابات منعقد ہوں جس پر دونوں فریق راضی ہوگئے۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ان مذاکرات میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ اس نکتے پر بھی بات ہوئی کہ دوبارہ انتخابات کیا تاریخ کیا ہونی چاہیے ،اپوزیشن اور حکومت میں اس بات پر اتفاق نہیں ہورہا تھا اداروں میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹھنی ہوئی سیاستدان راستہ نکالنے میں ناکام تھے اپنا کام خود کرنے کی بجائے اداروں کا دروازہ کھٹکارہے تھے ۔اور پھربہت دیر ہوگئی اسی دوران 5 جولائی کی درمیانی رات کو ملک میں مارشل لا لگ گیا۔1977ء کے بعد اب تک 9 عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں لیکن انتخابات کی تاریخ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ فروری1997ء میں پہلی مرتبہ الگ الگ دن انتخابات کروانے کی روایت کو تبدیل کیا گیا اور ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی نئی ریت ڈالی گئی۔ اس ریت کے آغاز کے بعد سے پہلی مرتبہ اب ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔موجودہ صورتحال میں حکومت کا اصرار ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے جبکہ اپوزیشن کا دو ٹوک موقف ہے کہ اسمبلی اگر وقت سے پہلے تحلیل ہوگی تو آئین کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات ہوں گے اور اس سے انحراف ممکن نہیں ہے،تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگااسقدر برے حالات تو شاید اس وقت بھی نہیں تھے آج تو ملک کا دیوالیہ نکل چکاہے حکومت کے اس ایک سال میں قیمتیں 87 فی صد سے 150 فی صد تک بڑھ گئی ہیں اور مہنگائی کا 59 سالہ ریکارڈ ریزہ ریزہ ہوچکاہے۔ معاشی تباہی کے نتیجے میں متوسط طبقہ بے اثر ہوتا جارہا ہے جو سماجی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔غضب خدا کا گیس کے میٹر کا کرایہ 40 روپے سے ایک دم 500 روپے کردیا گیا۔ دوسری طرف عوام کی نمائندگی کرنے والے ایوان ایک بے معنی جنگ اقتدار میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاسی بحران آئینی بحران میں بدل رہا ہے۔سیاسی حالات دن بہ دن خراب ہو تے جا رہے ہیں جس سے ملک کی معاشی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سال مارچ میں گزشتہ برس کی نسبت مہنگائی کی شرح میں 35.37 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ گزشتہ50 برس میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے‘ مارچ میں ریکارڈ کی گئی مہنگائی کی شرح نے فروری میں مہنگائی کی 31.5 فیصد بلند شرح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی مہنگائی پر قابو نہیں پا سکی، پاکستانی معیشت کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات زیرگردش ہیں کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بھی اب صرف 4 ہفتے تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے باقی بچے ہیں،برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی جانب سے 2024ء کی ابتدا میں پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کی رپورٹ دی گئی ہے یہ خبر انتہائی تشویشناک ہے، اس رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ مغربی ممالک میں پاکستان کے بارے میں دنیا کے کیا خیالات ہیں‘ دی اکانومسٹ کی رائے کو عالمی سطح پر بہت اہم اور مثبت سمجھا جاتا ہے، اس ادارے نے پاکستان کے بارے میں 43 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی ہے جو سیاستدانوں، عدلیہ اور اشرافیہ سمیت سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک نمایاں مقام ہے۔ حالیہ برسوں میں اس انڈسٹری نے ترقی کرنا شروع کی تھی لیکن ملک کے ابتر معاشی حالات کے سبب یہ بحران کا شکار ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تین ماہ کے دوران 15 سے 20 فی صد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں،سابق وزیراعظم اور رہنما ن لیگ شاہد خاقان عباسی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ مفت آٹے کی تقسیم میں بیس ارب کی کرپشن ہوئی ہے۔غربت بڑھنے سے فقیر اور جرائم بڑھ رہے ہیں اور اگر کوئی ڈاکو پکڑا جائے تو عوام اسے مار دیتے ہیں کیونکہ ملکی نظام پر سے ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، ان تمام باتوں پر یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے کہ حالات 1977سے بھئی کہیں زیادہ گھبیر ہیں اسی لیے ڈرلگتاہے کہ کہیں پانچ جولائی ایک بار پھر سے تو نہیں آنے والی

Naeem Qureshi
About the Author: Naeem Qureshi Read More Articles by Naeem Qureshi: 18 Articles with 16862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.