شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف - (بارہویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ لودھی صاحب ۔ قبولہ شریف کے بعد آپ اور آپ کے پیرو مرشد ؒ پاکپتن شریف بھی گئے تھے۔ یا وہیں سے آپ لاہور واپس آگئے ؟ ہمارے قارئین اس روحانی سفر کی مزید تفصیلات کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد چودھری صاحب ۔ان تمام بزرگوں کی روحانیت اور مشاہدات دیکھ کر میرا ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہوگیا ہے کہ اﷲ کے نیک بندے جسمانی طور پر موت کی شکل میں تو اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن ان کا روحانی فیض ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ہم عارف والا سے لاہور جانے کی بجائے ایک بار پھر حاجی شریف صاحب کی فرمائش پر پاکپتن شریف جا پہنچے ۔پاکپتن شریف میں ہم نے کن کن مزارات پر حاضری دی اور وہاں ہم نے کیا دیکھا اس کا تذکرہ اس قسط میں آئے گا ۔ان شاء اﷲ
..................
قبولہ شریف سے جب ہم پاک پتن شریف پہنچے تو گرمی عروج پر تھی‘ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ پیرومرشدؒ نے تانگہ لینے کی بجائے پیدل ہی چلنے کا حکم دیا۔ پیر بھائی شاہد اور محمد منشا کے پاس چونکہ بیگ اور بریف کیس تھا، اس لیے ان کو سامان سمیت چلنے میں خاصی دشوار ی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ہدایت خاں بھی ان کی مدد کر رہا تھا۔ جب ہم حضرت عبدالعزیز مکی رحمتہ اﷲ علیہ کے دربار عالیہ پر پہنچے تو پیاس کی شدت کی وجہ سے ہماری زبانیں حلق سے باہر آ چکی تھیں۔ صبح کا ہلکا سا ناشتہ کب کا ہضم ہو چکا تھا اور خالی پیٹ پیدل چلنا محال ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن کسے ہمت تھی کہ وہ پیرو مرشدؒ کے فیصلے سے اختلاف کرتا۔ چنانچہ سب خاموشی سے پیرومرشد ؒ کے پیچھے پیچھے پیدل ہی چلتے جا رہے تھے۔ اس دربار پر بھی ’’صحابی رسولﷺ‘‘ کا لفظ لکھا ہوا تھا اور یہاں ایک بڑی قبر کے ساتھ چھوٹی قبر بھی موجود تھی ۔جن کے بارے میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ صحابی رسول ﷺ کا جسم بڑی قبر میں اور سر مبارک چھوٹی قبر میں دفن ہے۔ ان کے مزار پر کوئی خاص رونق دکھائی نہیں دی اور ہر جانب سکوت ہی طاری تھا۔ باہر احاطے میں ایک قوال صبح سے قوالی کر کے دیوانہ ہوتا جا رہا تھا۔ جسے پیرومرشدؒ نے کچھ پیسے دے کر مطمئن کیا اور یہاں سے ایک بار پھر نئے جذبے کے ساتھ پیدل ہی حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار شریف کی جانب چل پڑے۔ راستے میں ایک دو مزار اور بھی آئے لیکن چلتے چلتے ان بزرگوں کے لیے بھی دعائے مغفرت کر کے اور اپنی حاضری لگوا لی۔ پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد بلندی پر حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ کا مزار دکھائی دیا۔ تھکاوٹ کو بھول کر ہم نے اپنے روحانی جذبے کو تازہ کیا اور ہوش و حواس بحال کیے اور دربار شریف پر پہنچنے کے لیے چڑھائی چڑھنے لگے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اونچائی کی جانب جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن بابا فرید گنج شکرؒ کو ملنے کی چاہت نے تھکاوٹ کو آڑے نہ آنے دیا اور ہم لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے بلندی پر جاپہنچے۔ اب ہماری نظروں کے سامنے مزارحضرت بابا فرید شکر گنج ؒ تھا۔ ہمای آنکھیں گنبد پر جم گئیں۔ اﷲ والوں کی قدر و منزلت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اب بھی اﷲ اور اﷲ کے نیک بندوں کو چاہنے والے اس سر زمین پر کثرت سے موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے ہم مزار شریف کے اندر داخل ہوگئے اور تمام دوست ایک قطار بنا کر حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کو خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ لیکن آج وہ لطف نہیں آ رہا تھا جو اس سے پہلے مجھے یہاں آیا کرتا تھا۔ شاید حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ کی خصوصی محبت اور شفقت کا یہ اثر تھا۔ ہمارے پیرومرشدؒ نے بہت خوب فرمایا ہے کہ ’’ جس طرح ہر پھول کا الگ رنگ اور الگ خوشبو ہوتی ہے۔ تیز خوشبو والا پھول سونگھنے کے بعد انسان کی سونگھنے کی حس ختم ہو جاتی ہے اسی طرح ہر بزرگ کی اپنی اپنی روحانی خوشبو ہوتی ہے۔‘‘ چونکہ حضرت حاجی شیرمحمد دیوان چاولی ؒ کا مرتبہ بابا فرید گنج شکر ؒ سے بہت بلند ہے اور ان کا زمانہ بھی ابتداء اسلام کا ہے۔ پھر بابا فرید گنج شکرؒ نے ان کے ہاں چلہ کشی بھی کی تھی۔ اس لیے ان بزرگوں کے رنگ پر کوئی اور رنگ نہ چڑھ سکا۔ ہمیں اس بات کا مکمل احساس تھا کہ حضرت حاجی شیر محمد دیوان چاولی ؒ نے ہمیں ہر طرح سے بے نیاز کر دیا ہے اور روحانی طور پر ہمیں اتنا کچھ دے دیا ہے جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے تھے۔پیرومرشد ؒ نے یہاں پر بھی ہر جگہ کی طرح توصیف خاں‘ خالد نظام‘ سیدگلزارالحسن شاہ صاحب‘ ہارون‘ ملک نوازش علی اور دیگر ساتھیوں کا نام لے کر دعا مانگی۔ یہاں سے فراغت کے بعد تھوڑا سا لنگر کھایا۔ پھر دوپہر کا کھانا کھا کر نماز ظہر اداکی اور پیدل ہی چلتے ہوئے ویگنوں کے اڈے پر جا پہنچے۔ یہاں سے براستہ اوکاڑہ شام سات بجے لاہور کی

(2)
مدینہ مسجد بالمقابل ریلوے اسٹیشن میں نماز مغرب ادا کر کے اس تاریخی اور روحانی سفر کا اختتام کیا۔ اس دوران ہمیں جو روحانی نظارے نظر آئے اور اتنی قلبی تسکین میسر آئی کہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔
انتہائی اطمینان اور پرسکون طریقے سے سفر تمام ہوا۔ بے شک یہ سب کچھ ہمارے بزرگ ، اور پیرومرشدحضرت مولانا محمد عنایت احمد ؒ نقشبندی مجددی ہی کی طفیل ممکن ہوا ۔وگرنہ اتنی گرمی میں سفر کی صعوبتوں کا تصور کر کے ہی انسان کانپ اٹھتا ہے اور اتنا لمبا سفر کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں دوران سفر نہ موسم نے پریشان کیا‘ نہ سواری نے‘ نہ ہمیں اس بات کا خوف تھا کہ رات کہاں بسر کریں گے اور نہ ہمیں اس بات کی پریشانی تھی کہ کھانا کہاں سے کھائیں گے۔ ہر کام خودبخود احسن طریقے سے انجام پذیر ہوتا رہا اور ہم بخیر وعافیت جہاں سے چلے تھے ،وہیں آن پہنچے۔
..............
اب ہم واپس عارف والا میں آتے ہیں ۔میری دوسری خالہ خورشید بیگم کا گھر بھی غریب محلے کی گلی نمبر تین کے آخری حصے میں تھا ۔وہ بھی دو اڑھائی مرلے کا ہی گھر ہو گا ۔ لیکن سارے کا سارا گھر کچی مٹی کا بنا ہوا تھا۔ پیچھے ایک بڑا کمرہ جس میں اوپر نیچے چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں ، ان کے ساتھ ہی پیٹیاں اور ٹرنک اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے۔ پچھلی دیوارپرلکڑی کے پھٹوں پر قطار در قطار پیتل کے چھوٹے بڑے برتن سجے ہوئے تھے ۔اس گھر میں جتنے بھی چھوٹے بڑے افراد رہتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے پیار کرنے والے تھے ۔ماشا اﷲ اس خالہ کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں بھی تھیں ۔ میں جب اس خالہ کے گھر پہنچتا تو خالہ خورشید مجھے اپنی آغوش میں لے کر پیار کرتی ،پھر اپنے پاس چارپائی پر بٹھا کر کافی دیر تک باتیں کرتی رہتیں ۔جب خالہ خورشید بیگم اور ان کے بیٹیاں مٹی کے چولہے کے پاس اکٹھی بیٹھ جاتیں تو ایک ڈھولکی( جو ان کے گھر میں ہمیشہ سے موجود ہوتی۔) درمیان میں رکھ کر ڈھولکی بجانا شروع کردیتے چونکہ میری آواز دوسروں سے زیادہ اچھی اور بلند تھی ،اس لیے گیت گانے کی باری ہمیشہ میری ہی آتی ۔ ان دنوں مسعود رانا کا گانا بہت مشہور تھا جس کے بول تھے ۔ رناں والیادے پکن پراٹھے ۔۔۔تے چھڑاں دی اگ نہ بلے ۔ٹانگے والا خیرمنگدا ...... ٹانگہ لاہور دا ہووئے تے پاویں جھنگ دا ... ٹانگے والا خیر منگدا ۔سجناں نے بوئے اگے چیخ تان لئی وغیرہ یہ تین گانے مجھے زبانی یاد تھے اور بے حد پسند بھی تھے ۔اس لیے ڈھولکی کے میوزک پر میں ہی یہ گانے گا کر سب کے دل بہلایا کرتا تھا ۔خالہ خورشید بیگم بھی ہمارے ہلے گلے میں شامل ہو کر خوب محظوظ ہوا کرتی تھیں۔خالو منیرخاں بہت اچھے انسان تھے، وہ بطور خاص مجھے اس لیے اچھے لگتے تھے وہ جب بھی لاہور چھاؤنی یا واں رادھا رام میں ہمارے گھر آتے تو ان کے ہاتھ میں مٹھائی سے بھرا ڈبہ ضرور ہوتا ۔یہ مٹھائی ہم کئی دن تک مزے لے کر کھاتے اور ان کے لیے دعابھی کرتے کہ ایک بار پھر ہمارے گھر آ ئیں لیکن کئی مہینے بلکہ سال گزر جاتے ،وہ اپنے کاموں میں مصروف رہتے اور ہمارے گھر کا راستہ بھول ہی جاتے ۔اب یہ پیار والے سارے رشتے قبروں میں جا کر سو چکے ہیں ۔اﷲ سے دعا ہے کہ میری محبتوں کے پیکر میرے ان عزیزوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔
..............
با ت کچھ طویل ہو گئی ۔میری تیسری خالہ زبیدہ بیگم کی شادی کہروڑپکا میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر کا نام مرزا تقی بیگ تھا ۔ان کا کہروڑ پکا میں جنرل سٹور تھا ، ان کا شمار خاصے کھاتے پیتے لوگوں میں تھا ،اس ِ لیے دونوں خالاؤں کی نسبت وہ ہم سے کچھ فاصلے پر رہتے ۔خالو مرزاتقی بیگ کو عارف والا آتے جاتے بہت کم ہی دیکھا گیا۔ وہ اپنے کاروبار میں ہی مصروف رہتے ۔ کبھی کبھار جب خالہ زبیدہ بیگم کو پتہ چلتا کہ لاہور سے ان کی بہن ہدایت بیگم عارف والا آئی ہوئی ہیں تو وہ بھی کسی نہ کسی بہانے عارف والا پہنچ جاتی ۔ پھر چاروں بہنیں اکٹھی ہو کر خوب گپیں مارتیں ۔میری نانی اور ممانیاں بھی اس گفتگومیں شریک ہو جاتیں ۔ اس طرح نانی کے گھر خوب رونق لگی رہتی ۔ خالہ زبیدہ بیگم مجھے اس لیے اچھی لگتی تھی کہ ایک صبح جب وہ ہمارے گھر لاہورچھاؤنی آئی ہوئی تھی تو میری والدہ نے گھر میں پالا ہوا اکلوتا دیسی مرغاان کی ضیافت کے لیے قربان کرکے پکایا ہواتھا ،عام طور پر میرے نصیب میں بہت کم ہی گوشت کی بوٹی آیا کرتی تھی کیونکہ والدہ کے پیش نظر سب سے پہلے مہمان ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد میرے والد صاحب کے حصے میں بوٹیاں آتیں۔ اگر ان سے بھی گوشت کا کوئی ٹکڑا بچ جاتا تو سب سے بڑے بھائی رمضان خاں کے سالن میں ڈال دیا جاتا تھا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھ تک پہنچتے پہنچتے ہمیشہ گوشت کی ساری بوٹیاں ختم ہو جایا کرتی تھیں اور مجھے شوربے سے ہی روٹی کھانی پڑتی ۔ اگر سالن نہ بچتا تو نمک اور پسی ہوئی مرچوں میں پانی ملا کر اس سے پیٹ بھرلیا کرتا تھا ۔کبھی کبھارجب یہ بھی میسر نہ ہوتا تو گڑ اور پیازکے ساتھ بھی روٹی تناول کر لی جاتی ، لیکن کبھی شکوے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ مجھے علم تھا کہ میرے والد کتنی محنت مزدوری کرکے اور ریلوے کی سخت ترین اور خطرناک ترین ڈیوٹی انجام دے کر ہمارے لیے کما کر کچھ پیسے لاتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بہت مشکل سے پورے ہوا کرتے تھے ۔جس دن صبح کا ناشتہ تقسیم کرنے کے لیے کہروڑ پکا کی خالہ زبیدہ بیگم بیٹھیں تو اس نے سب سے پہلے مجھے ایک بڑی سی گوشت کی بوٹی نکال کر دے دی اورآہستگی سے کہا بیٹا چپ کرکے یہ کھالو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔ وہ دن اور آج کا دن مجھے تمام خالاؤں سے وہ خالہ بہت پیاری لگتی تھیں ۔چونکہ وہ ہم سے بہت دور رہتی تھی اس لیے ان سے ملاقات کو سالہاسال گزر جاتے ۔
..............
جب ہم ابھی عارف والا ہی میں تھے تو وہ بھی بیٹیوں کواپنے ساتھ لے کر عارف والا میں پہنچ جاتیں ،ان کی بیٹیوں بھی بہت اچھے اخلاق کی مالک اور خاصی پڑھی لکھی تھیں ۔ اردو سپیکنگ گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ مجھ سے بھی اردو میں باتیں کیا کرتی تھیں اور میں اس وقت پنجابی میں بات کرتا تھا۔ دو تین خالہ زاد بہنیں تو مجھ سے خاصی بڑی تھی لیکن ایک میری ہم عمر تھی ۔ حسن اتفاق سے وہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی مانوس بھی ہو گئی ۔ جب اس کی جانب سے گرین سگنل ملا تو میر ے دل میں بھی نئی سے نئی امنگیں پیدا ہونے لگیں ۔ جب تک وہ نانی کے گھر موجود رہی، ہم دونوں خوب گپ شپ کیا کرتے رہے ۔کبھی ہم اکٹھے خالہ خورشید بیگم کے گھر چلے جاتے اور کبھی خالہ اقبال بیگم کے جا پہنچتے ۔ جب وہاں سے فارغ ہوتے تو ایک بار پھر نانی کے گھر واپس آجاتے، جہاں میری والدہ اور اس کی ماں موجود ہوتی ۔ اس باہمی قربت پر نہ میری والدہ کو کبھی اعتراض تھا اور نہ ہی اس کی ماں نے کبھی روکنے کی ضرورت محسوس کی ۔ یوں عارف والا میں ہمارا وقت اچھا گزرتا اور ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بنتے چلے گئے ۔
( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.