شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف - (تیرہویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔لودھی صاحب یہ بتائیں ۔ آپ نے اپنی اس خالہ کا ذکر تو کردیا ہے جو کہروڑ پکا میں رہتی تھیں لیکن یہ بتائیں آپ کا کبھی کہروڑپکا شہر جانا بھی ہوا کہ نہیں ۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ بہت پراسرار قسم کا شہر ہے ۔حقیقت کیا ہے ۔؟ہمارے قارئین جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں۔؟
اسلم لودھی ۔شہزاد صاحب زندگی میں دو تین مرتبہ ہی میرا اپنی والدہ کے ساتھ بہت مختصرعرصے کے لیے کہروڑ پکا جانا ہوا تھا ۔جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ وہ بہت پراسرار شہر ہے ، حقیقت بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔جس کا تذکرہ اس قسط میں آئے گا۔
...............
جب میں پہلی مرتبہ اپنی والدہ کے ہمراہ کہروڑ پکا گیا ۔ حیر ت کی بات تو یہ ہے کہ کہروڑ پکا شہر ، اس وقت ریلوے اسٹیشن سے خاصا فاصلے پر واقع تھا ۔ بذریعہ ریل جب ہم ریلوے اسٹیشن پر اترتے تو وہاں سے تانگے پر سوار ہو کر خالہ کے گھر جانا پڑا ۔ مقامی لوگوں نے یہ بتا کر ہمیں خوفزدہ کردیا کہ جنات کا شہرہے ۔ اس میں بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں خالی پڑی ہوئی ہیں ،جن میں جنات کا بسیرا ہے ۔انسان اس میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ بلی کی شکل میں بھی جنات گھروں میں کھاتے پھرتے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے خالو مرزا تقی بیگ اپنے گھر میں گرمیوں کی دوپہر چارپائیاں پر آرام کررہے تھے کہ ایک بلی نے ان کے پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں لے کر کچھ اتنے زور سے کھینچا کہ خالو کی چیخیں نکل گئیں ۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے تو اردو گرد کوئی دکھا ئی نہ دیا بلکہ ایک بلی اس کمرے سے نکل کر باہر جاتے ہوئے دکھائی دی ۔خالو سمجھ گئے کہ اس بلی کے روپ میں کوئی جن گھر میں داخل ہوا تھا اور اسی نے میرے پاؤں کا انگوٹھا دبایا ہے ۔ کافی دنوں تک دردکو ختم کرنے والا ٹیکہ لگوانے اور ادویات کا باقاعدگی سے استعمال کرنے کے بعد کہیں جا کر انہیں سکون ملا ۔جب مجھے اس واقعے کا علم ہو اتو میرے بھی پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی ۔ میں تو پہلے ہی ڈرپوک تھا۔ ادھر جنات کی موجودگی نے مجھے اور بھی خوفزدہ کردیا ۔ پہلی رات گھر کی پہلی منزل کی کھلی چھت پر سونے کا ہمار ے لیے انتظام کیا گیا ۔گھر کے سارے افراد سکون سے سو رہے تھے لیکن خوف کے مارے مجھے نیند نہیں آئی ۔ میں جب بھی آنکھیں کھول کر دیکھتا تو ان خالی عمارتوں میں روشنیاں ادھر ادھر بھاگتی دکھائی دیتیں ۔جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ان گھروں میں جنات کے بیوی بچے رہتے ہیں ۔دن کے اجالے میں تو کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن رات کو ٹمٹاتی ہوئی روشنیاں جنات کی موجود گی کا مکمل احساس کروا رہی تھیں ۔
وہ ساری رات آنکھوں میں گزارگئی ۔میں تو ضد کرکے اپنی والدہ کے ساتھ کہروڑ پکا اس لیے گیا تھا کہ خالہ زبیدہ بیگم کو ملنے کے ساتھ ساتھ کہروڑ پکا شہر بھی دیکھوں گا ۔جس کے بارے میں خالو مرزا تقی بیگ جب بھی لاہور ہمارے گھر تشریف لاتے تو کوئی نہ کوئی جنات کی نئی سے نئی کہانی سنا کر ہماری حیرتوں کا سامان کرجاتے ۔اگلی صبح میں نے اپنی خالہ کو صاف کہہ دیا کہ میں چھت پر نہیں سوؤں گا۔ میرا بستر کسی کمرے میں لگادیا جائے ۔یادرہے کہ میں اس کمرے میں اکیلا بھی نہیں سو ؤں گا۔ میری اس خالہ کے دو بیٹے مرزا سخی بیگ اور مرزا توفیق بیگ مجھ سے کچھ چھوٹے تھے لیکن وہ بھی مجھ سے خاصے مانوس تھے ،جب وہ ہمارے گھر لاہور میں آتے تو میں لاہور شہرکے بارے میں کچھ جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر ان کا دل بہلایا کرتا تھا ۔ایک مرتبہ جب وہ ہمارے گھر لاہور چھاؤنی آئے ہوئے تھے تومرزا توفیق بیگ نے بڑے پیار سے مجھے کہا اسلم بھائی مجھے ایئرپورٹ دکھا دو ۔ جہاں سے جہاز اڑتے ہیں اور اترتے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ ہم نے دونوں چار چار آنے کی قلفیاں خریدیں اور انہیں کھاتے کھاتے ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم کو عبور کرکے مال روڈ کے فٹ پاتھ پر پیدل ہی چلنے لگے ۔مجھے اس بات کا احساس تھا کہ مرزا توفیق بیگ میری ہر بات پر پختہ یقین کررہا ہے ، اس لیے میں کوئی نہ کوئی نئی سے نئی کہانی اسے سناتا رہا اور قلفیاں کھاتے ہوئے سفربھی کٹتا رہا ۔ ہمیں اس وقت پتہ چلا جب ہم راحت بیکری جا پہنچے ۔جہاں سے پرانا ایئرپورٹ کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔جب ہم دونوں ایئرپورٹ پہنچے تو سٹیل کی تاروں کا ایک جال لگا ہوا دکھائی دیا جس کے قریب کھڑے ہوکر اور بھی کافی لوگ جہازکو ایئر پورٹ پر اترتا اور چڑھتا دیکھ رہے تھے

(2)
۔میرے خالہ زاد بھائی مرزا توفیق بیگ نے جب بھاری بھرکم جہاز زمین پر کھڑا ہو ا دیکھا تو اس کی حیرت گم ہو گئی ۔آنکھیں ملتے ہوئے مجھے کہنے لگا اسلم بھائی کیا یہ بھاری بھرکم جہازہوا میں کیسے اڑ جاتا ہے ۔ میں نے خود کو فلسفی ثابت کرنے کے لیے کہا توفیق بھائی تم یہیں کھڑے رہو ۔ ابھی آپ کے سامنے اس جہاز میں سواریاں بیٹھ رہی ہیں ،جب جہاز مکمل طورپر بھرجائے گا تو پھر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھنا وہ پہلے بھاگنا شروع کرے گا پھر وہ جب اس کی رفتار خاصی تیز ہو جائے گی تو پھر وہ اپنے اگلے پہیؤں کو زمین سے کیس مہارت سے اٹھائے گا کہ پچھلے پہئے خود بخود اگلے پہیؤں کی طرح ہوا میں جا پہنچیں گے ۔میری اس بات پر یقین کرکے میرا خالہ زاد بھائی جہاز کو گھور گھور کر دیکھنے لگا ۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب میں خود پہلی مرتبہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ لاہور جارہا تھا تو پہلے ہماری ٹرین والٹن ریلوے اسٹیشن پر رکی تھی تو اسی لمحے اسٹیشن کے بالکل سامنے مغرب کی جانب والٹن ایئرپورٹ کا رن وے دکھائی دے رہا تھا ، میں نے زندگی میں پہلی بار جب اپنی آنکھوں سے والٹن ایئر پورٹ کے اس رن وے پر فلائنگ کلب کے جہاز کو دوڑتے ہوئے اور پھر زمین سے فضا میں بلند ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت میری بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور میں بھی حیرتوں کے سمند ر میں بہت دیر تک غوطہ زن رہا اور یہ سوچتا رہا کہ یہ جہاز دوڑتے دوڑتے یکدم فضا میں کیسے اڑنے لگتا ہے ۔لیکن مجھ پر قدرت کی مہربانی دیکھیں ،جب والدین کے گھر کو خیر باد کہہ کرمیں1984ء کو اپنا گھر بنانے کے جنون میں مبتلا ہوکر مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ پہنچا تو اسی والٹن ایئرپورٹ کی دیوار ہمارے گھر سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی اور یہ دیوار اتنی چھوٹی تھی کہ جہاں سے دن میں کتنی بار فلائنگ کلب کے جہازوں کو ہم اڑتا ہو شوق سے ا دیکھاکرتے تھے ، جبکہ ہمارے مکان کی چھت سے تو پورا والٹن ایئرپورٹ دکھائی دیتا تھا اور وہ بہت بڑا شیڈ بھی جس میں کتنے ہی جہاز ہر لمحے کھڑے رہتے تھے ۔
مجھے یاد ہے کہ 1965 سے لیکر 1980ء تک والٹن فلائنگ کلب کے انہی جہازوں میں مختلف کمپنیاں اور ادارے اپنی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے چھوٹے چھوٹے کاغذوں پر پہلے اپنے اشتہار چھاپتے پھر ہزاروں کی تعداد میں وہ پرچیاں فلائنگ کلب کے جہازوں کے ذریعے پورے لاہور شہر کی فضا میں پرواز کرتے ہوئے کچھ اس طرح پھینک دی جاتیں کہ وہ پرچیاں دور دور تک زمین پر جا گرتیں اور ہم جیسے پینڈو بچے ان پرچیوں کو بڑ ے شوق اور فخرسے اٹھایا کرتے تھے ۔ ان دنوں جو سنیماؤں میں نئی فلم لگتی تو اس کے مختلف مناظر بھی کاغذ وں پر چھاپ کر پر چیوں کی شکل میں جہازوں کے ذریعے لاہور کی فضا میں پھینکوا دی جاتی تھیں ۔ہمارے جیسے بیشمار بچے اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کب فلائنگ کلب کا جہاز فضا میں دکھائی دے اورجہاز سے پھینکی ہوئی پرچیوں کو اٹھانا ہمارے لیے ایک چیلنج بنا جایا کرتا تھا ۔پھر انہی دنوں یہ خبر بھی ہمارے کانوں تک پہنچی تھی کہ فلائنگ کلب کا یہ جہاز 500 روپے میں پورے لاہور کی سیر کروا دیتا ہے ۔ جہاز میں بیٹھ کر اڑنے اور لاہور کی فضائی سیر کرنے کا تو مجھے بھی بہت شوق تھا لیکن 500روپے تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے ۔اس وقت میرے اباجان کی تنخواہ صرف 80روپے ہواکرتی تھی جو ایک بار ملتی اور سارا مہینہ انہی پیسوں میں پیٹ بھی بھرنا ہوتا اور تن بھی کپڑوں سے ڈھاپنا ہوتا ، اس لیے اتنے کم پیسوں میں جہاز کی سیر کا تصور کرنا ہی سب سے بڑی حماقت تصور کی جاتی تھی ۔آج ہمارے پاس پانچ سو روپے تو ہیں لیکن اب جہاز کا کرایہ شاید پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے ہو گیا ہوگا ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہنا درست لگتا ہے کہ ہم جو خواب دیکھا کرتے تھے ،ان خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ہماری جیب ہمیشہ خالی ہی ہوا کرتی تھی ۔
..............
بہرکیف 1964 ء میں جب ہم لاہور میں مکمل طورپر شفٹ ہوگئے تو پھر اڑتے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر مجھے حیرانی نہیں ہوتی تھی ۔ میرے خالہ زاد بھائی بھی پہلی بار جہاز کودیکھ کر اسی طرح حیران ہوئے جس طرح میں حیران ہوا تھا ۔بہرکیف جب جہاز سواریوں سے بھر گیا تو سبز لباس پہنے ایئر ہوسٹس نے جہاز کا دروازہ بند کردیا۔ ہمیں جہاز کے سامنے والے حصے میں دو پائلٹ ( یعنی ڈرائیور) بیٹھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔جونہی جہاز کے انجن سٹارٹ ہوئے تو ایک شور برپا ہوا تو ہم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں اپنے کانوں ڈال لیں پھر ہم ایک عجوبہ دیکھنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز رینگنے لگا ،پھر اس کی رفتار کچھ تیز ہوئی ۔ میں خود بھی جہاز کو غور سے دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے خالہ زاد بھائی کو بتا بھی رہا تھا کہ وہ اپنی نظریں جہاز پر جمائے رکھے ۔کیونکہ کسی بھی وقت وہ اپنے پہیئے زمین سے ہوا میں اٹھا سکتا ہے ۔ جیسے ہی پائلٹ نے جہاز کو زمین سے اٹھایا تو وہاں کھڑے ہوئے سب لوگوں کا مونہہ کھلے کا کھلارہ گیا ۔چونکہ ہم نے اس وقت تک جہاز میں سفرنہیں کیا تھا اس لیے لاہور جیسے بین الاقوامی شہر میں رہنے کے باوجود ہم بھی فضائی سفر سے لطف اندوز نہیں ہوئے تھے جو دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے بھی کرلیتا ہے ۔
...........
دوسری بار مجھے اس وقت کہروڑ پکا جانے کا موقع ملا جب والدہ میری نوکوی کی تلاش میں عارف والا آئی ہوئی تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ اب سبب سے عارف والا آئے ہوئے ہیں تو کروڑ پکا میں اپنی تیسری بہن کو بھی ملتے چلیں ۔ اس وقت بسوں پر سفر کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے بذریعہ ٹرین ہم عارف والا سے کہروڑ پکا کی جانب روانہ ہوئے تو عارف والا کے بعد پہلا ریلوے اسٹیشن جو آیا اس کا نام" فتنہ " تھا۔یہ وہ ریلوے اسٹیشن تھا جس میں 1965ء کی جنگ کے دوران پاک فضائیہ کے اکلوتے طیارے نے ایک بھارتی جنگی طیارے کو مار گرایا تھا اور اس کا آدھا حصہ نیچے کھڑے ہوئے ریل کے ڈبے پر جاگرا تھا ۔ اس کے بعد گگو منڈی کا ریلوے اسٹیشن آیا۔ یہ پاکستان کی عسکری تاریخ کا عظیم شہر ہے جہاں کے عظیم فرزند میجر طفیل محمد نے 1958ء میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں بعد از شہادت سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حید ر دیا گیا ۔ یہ پاک فوج کے دوسرے فوجی افسر ہیں جنہیں نشان حیدر ملا ۔ شہید کا جسد خاکی بھی مزار کی شکل میں گگو منڈی میں ہیموجود ہے جہاں ہر سال پاک فوج کا ایک چوق چوبند دستہ سلامی دے کر پاکستانی قوم کے اس عظیم فرزند کو خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔
( جاری )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.