سوال ۔لودھی صاحب آپ نے پچھلی قسط میں گگو منڈی کے عظیم
فرزند اور پاک فوج کے بہادر افسر میجر طفیل محمد شہید( نشان حیدر) کے بارے
میں گفتگو شروع کی تھی ۔ جو حقیقی معنوں مجھے اور ہمارے قارئین کو بہت اچھی
لگی ۔ چونکہ مشرقی پاکستان کے لکشمی پور گاؤں کا واقع ابھی نامکمل ہے ، اس
لیے میں یہی چاہوں گا کہ آپ ہمیں میجر طفیل محمد شہید کے عظیم کارنامے سے
آگاہ کریں کہ انہیں پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر کس عظیم کارنامے
کی وجہ سے دیا گیا تھا ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد چودھری ۔اﷲ نے چاہا تو اس قسط میں میجر طفیل محمدشہید
نشان حیدر کے عسکری کارنامے پر گفتگو ہو گی ۔ان شاء اﷲ ۔
.....................
قصہ کچھ یوں ہوا کہ مشرقی پاکستان ( جو آجکل بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے
نقشے پر موجود ہے) وہ 1971ء سے پہلے پاکستان کے وجود کا حصہ ہوا کرتا تھا ۔
قائد اعظم ؒ کی عظیم جدو جہد کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء میں دنیا کے نقشے
میں پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا ۔کہا تو
یہ گیا کہ برصغیر پاک و ہند کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ
علاقے ،پاکستان میں شامل کردیئے جائیں گے لیکن اس کے باوجود کہ وادی کشمیر
، جونا گڑھ ، فیروز پور شہر ، فرید کوٹ اور گرداس پور کے شہروں میں جہاں
مسلمان اکثریت میں تھے ، جواہر لال نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت
سے یہ علاقے جان بوجھ کر ہندوستان کا حصہ بنادیئے گئے ۔اس تاریخی غلطی اور
حماقت کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کو اپنا گھر بار ، زمین جائیداد اور
اپنے بزرگوں کی وارثت کو چھوڑ پاکستان کی جانب کچھ اس طرح نقل مکانی کرنی
پڑی کہ انسانیت کے دشمن سکھوں اور ہندووں نے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا اس
قدر قتل عام کیا کہ دریائے راوی ، دریائے بیاس اور دریائے ستلج کا پانی
مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گیا ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان دنیا کی
عظیم ہجرت کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا جس میں 9 لاکھ سے زائد مسلمان
عورتوں ، مردوں ، بچے اور بوڑھوں کی جانی و مالی قربانی شامل ہے۔یہ بھی کہا
جاسکتا ہے کہ ان علاقوں کے آدھے مسلمان پاک سرزمین پر پہنچنے سے پہلے ہی
بیدردی سے شہید کردیء گئے جبکہ آدھے مسلمان آگ اور خون کا دریا عبور کرکے
پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے جن کی آبادکاری ایک نوآزاد ملک کے لیے بہت
بڑا مسئلہ تھا ۔جبکہ پاکستان کے حصے کے 100 کروڑ روپے دینے سے بھی بھارتی
حکمرانوں انکار کردیا ۔ اس طرح دو حصوں میں معرض وجود میں آیا ایک حصہ
مغربی پاکستان اور دوسرا حصہ مشرقی پاکستان نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔
ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ درمیان میں بھارت کی
وسیع وعریض مملکت حائل تھی جو مسائل کی اصل جڑ تھی۔
مشرقی پاکستان میں اکثریت بنگالیوں کی تھی جبکہ مغربی پاکستان میں پٹھان ،
پنجابی ، بلوچی اور سندھی نسل کے لوگ آباد تھے ۔کشمیر کا جتنا حصہ بھارتی
قبضے کے دوران مجاہدین اور پاک فوج کے بچے کھچے جوانوں نے آزاد کروایا وہ
آزاد کشمیر کے نام سے پاکستان کے نقشے میں اب بھی موجود ہے۔اس حصے میں رہنے
والوں کو کشمیری کہا جاتا ہے ۔ یہ یکم اگست 1958ء کی بات ہے کہ بھارتی فوج
چپکے سے مشرقی پاکستان کے شمال مشرقی علاقے میں گھس آئی ۔اس نے پتھار یا
جنگل اور اکھوڑا کے قریب لکشمی پور گاؤں کے آدھے حصے پر قبضہ کرلیا ۔ میجر
دیو برہمن کی قیادت میں بھارتی فوج کی جانب سے یہ بین الاقوامی سرحد کی
کھلم کھلا خلاف ورزی تھی ۔ آدھے گاؤں پر قبضے کے بعد بھارتی فوج نے وہاں
رہنے والے مسلمانوں کو شدید زود کوب کیا ،اور کئی مسلمان بھارتی فوج کے
ہاتھوں جام شہادت بھی نوش کرگئے ۔لکشمی پور گاؤں کے اہم ترین راستوں پر
اپنے مورچے قائم کرکے بھارتی فوج نے خیمے گاڑ کر اپنے قبضے کو مضبوط
بنالیا۔مسلمانوں کو تالاب کا پانی استعمال کرنے سے بھی روک دیاگیااور جگہ
جگہ بھارتی پرچم لہرا دیئے ۔اس صورت حال سے
(2)
گاؤں کے مسلمان سخت پریشان تھے ۔انہوں نے پاکستانی حکام سے بھارتی فوج کے
قبضے اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بدترین سلوک کی شکایت کی
۔جونہی مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل محمد امراؤ خاں کو لکشمی پور گاؤں پر
بھارتی فوج کے قبضے کی خبر ملی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔انہوں نے
اسی وقت ایسٹ پاکستان رائفل کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئر صاحب داد خان کو
اپنے دفتر میں بلایا اور ہدایت دی کہ فوری طور پر لکشمی پور گاؤں پر بھارتی
فوج کا قبضہ ختم کرایا جائے اورمقامی مسلمانوں کی داد رسی کی جائے ۔5اگست
1958ء کو بریگیڈئر صاحب داد خاں نے میجر طفیل محمد کو اپنے دفتر میں بلایا
اور یہ مشکل ترین مشن ان کے سپرد کردیا ۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ یہ گاؤں
تین اطراف سے بھارتی فوج کے قبضے میں تھا صرف ایک طرف کا راستہ مشرقی
پاکستان کی جانب تھا جس پر بھارتی فوجی سٹین گنیں لگا کر بیٹھے ہوئے تھے
اور پاک فوج کی جانب سے نقل وحرکت پر مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے ۔کیونکہ
انہیں اس بات کا یقین تھا کہ پاک فوج کی جانب سے لکشمی پور گاؤں پر قبضہ
چھڑانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی ۔
حملے کی رات بہت زیادہ تاریک ، گھناؤنی اور خطرناک بھی تھی ۔ہر جانب ہو کا
عالم تھا ۔پچھلی رات کے تین بج چکے تھے ۔نمبر ون کی اے کمپنی سر پر کفن
باندھے حملے کے لیے تیا ر کھڑی تھی ۔جبکہ پلاٹون نمبر 3میجر طفیل محمد کی
قیادت میں بھارتی فوج کی پچھلی جانب جا پہنچی ۔ پاک فوج کا ہرافسر اور جوان
پھونک پھونک کر آگے بڑھ رہا تھا ۔البتہ بھارتی فوجیوں کے کھانسنے کی آوازیں
سنائی دے رہی تھیں ۔ہوا کے چلنے سے بانس کے درختوں کی شاخوں اور پتوں کی
سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی ۔ ہر طرف موت اپنے پر پھیلائے کھڑی تھی ۔ان
پرسکوت ماحول میں پاک فوج کے مٹھی بھر سرفروش شوق شہادت سے سرشار ہو کر
دیوانہ وار آگے بڑھ رہے تھے ۔
یوں محسوس ہورہا تھا کہ دشمن کو حملے کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی ۔ کیونکہ
جیسے ہی میجر طفیل محمد نے اپنی فوج کے جمعدار اعظم خان کو حملہ آور ہونے
کا حکم دیا تو بھارتی مورچوں کی جانب سے مشین گنوں نے موت کی آگ برسانی
شروع کردی ۔اب کسی حجاب اور پراسراریت کی گنجائش نہ رہی تھی ۔دونوں جانب سے
زبردست فائرنگ کا تبادلہ ہورہا تھا ۔جیسے ہی میجر طفیل محمد نے اپنے جوانوں
کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نعرہ حیدری بلند کیا ۔ تو یوں محسوس ہوا جیسے زمین
تھرتھرانے لگی ہے ۔اس نعرے نے پاک فوج کے جوانوں کے حوصلے بلند اوربھارتی
فوج کے حوصلے پست کردیئے۔میجر طفیل محمد کی قیادت میں پاک فوج کے جوان زمین
پر رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔جب دس قدم کا فاصلہ باقی رہ گیا تو بھارتی
فوج کی ایک گولی میجر طفیل محمد کے پیٹ میں جالگی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے
دو مزید گولیاں سینے میں اتر گئیں ۔اس کے باوجود آپ کے حوصلے پست نہ ہوئے
اور آپ نے پیش قدمی جاری رکھی ۔آپ نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر اس جگہ رکھا
جہاں خون بہا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے دستی بم نکال کر ایسا ناپ تول کر
پھینکا کہ دشمن کی مشین گنیں خاموش ہو گئیں ۔اسی اثناء میں دشمن کے دوسرے
مقام پر نصب مشین گنوں نے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردی ۔ایک گولی جمعدار
اعظم کے سینے میں اتر گئی اور زخم اتنا بڑا تھا کہ جمعدار اعظم خان اسی وقت
جام شہادت نوش کرگئے ۔بیشک میجر طفیل محمد کے جسم سے بھی کافی خون بہہ چکا
تھا لیکن اﷲ تعالی نے ان کا حوصلہ بلند رکھا ، شدید زخمی حالت میں بھی میجر
طفیل بھارتی فوج کے اس گنر پر جھپٹ پڑے اور ہینڈ گرنیڈ پھینک کراسے بھی
جہنم واصل کردیا ۔اس کے بعد بھارتی فوج سے دست بدست لڑائی شروع ہوگئی اور
بھارتی فوج کے جوان میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔اسی دوران تری پوربھارتی
پولیس فورس کا کمانڈر میجر دیوبرہمن پستول ہاتھ میں پکڑے اپنے خیمے سے باہر
نکلا اور فائرنگ شروع کردی ۔ دوسری جانب میجر طفیل محمد کے زخموں سے اتنا
خون بہہ چکا تھا کہ وہ نڈھال ہونے لگے۔میجر برہمن اپنے ہاتھ میں پستول لیے
میجر طفیل محمد کی جانب بڑھا رہا جبکہ میجر طفیل محمد اس کا مقابلہ کرنے کے
لیے زمین سے اٹھنے کی کوشش کررہے تھے لیکن وہ اٹھ نہ سکے ۔لیکن آپ نے نیم
بے ہوشی کی حالت ہی میں میجر دیو بر ہمن کو اپنی ٹانگ مار کر نیچے گرا لیا
اور اپنے سر پر پہنی ہوئی فولادی ٹوپی سے میجر برہمن پر ایسی کاری ضرب
لگائی کہ بھارتی فوج کا میجر زمین پر جا گرا ۔بھارتی فوج کے باقی جوان
لکشمی پور گاؤں کا قبضہ چھوڑ کر بین الاقوامی سرحد کے اند ر بھاگ گئے ۔پاک
فوج کے باقی جوانوں نے میجر برہمن کو قیدی بنا لیا ۔ اس جنگی معرکے میں
میجر طفیل محمد شدید زخمی ہوچکے تھے لیکن لکشمی پور گاؤں پر بھارتی ترنگے
کی بجائے پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا ۔یہ 7اگست 1958ء کی صبح کا وقت تھا
۔میجر طفیل محمد کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے ہی میں وہ زخموں کی
تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔حکومت پاکستان کی جانب سے میجر طفیل
محمد کی بے مثال بہادر ی اور جانثاری پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز
نشان حیدر دیا گیا ۔
..................
گگو منڈ ی سے جیسے ہی ٹرین چلی تو بورے والا آگیا اس کے بعد وہاڑی اور
میلسی سے گزرتے ہوئے ٹرین کہروڑ پکا جا پہنچی ۔ تانگے پر سوار ہوکر آدھے
گھنٹے کے بعد ہم خالہ زبیدہ بیگم کے گھر جا پہنچے ۔انہوں نے شربت وغیرہ
بناکر ہمیں پلا یا اور آرام دہ بستروں پر بیٹھ کر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو
گیا ۔ خالہ زبیدہ ہماری آمد پر بہت خوش تھیں ۔جبکہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی
جس رانی ہے وہ میری والدہ سے والہانہ محبت کا اظہار کررہی تھی ۔کچھ دیر
قیام کے بعد میں خالہ سے خالو تقی بیگ کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے مجھے
بتایاکہ وہ اپنی دوکان پر گئے ہیں ۔ میں نے کہا خالہ جی میں نے ان کے پاس
جانا ہے تو انہوں اپنے سخی کو میرے ساتھ بھیج دیا ۔ جیسے ہی سائیکل پرسوار
ہو کر ہم کہروڑ پکا کے بازار میں پہنچے تو خالو تقی منیاری کی دوکان پر
بیٹھے دکھائی دیئے ۔ میں نے انہیں سر جھکا کر سلام کیا تو انہوں نے میرے سر
پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بٹھا
لیا ۔ ابھی میں خالو تقی کی دکان پر بیٹھا ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے
میں اپنے ذہن میں تانے بانے بن رہا تھا کہ تصورات کی دنیا سے میں اس وقت
واپس آیا جب ایک بھینسا اپنے مالکوں سے بغاوت کرکے بھاگتا ہو ا بازار میں
پہنچ گیا۔ اس کی رفتار بہت تیز تھی ، وہ بھاگتا ہوا پہلے برتنوں کی دکان
میں جا گھسا ۔ اس کی اچھل کود سے دوکان کے سارے برتن زمین پر آگرے ۔ اس
لمحے اتنا شور برپا ہوا کہ سب لوگ خوف زدہ ہوگئے ۔ میرے خالو نے سمجھ داری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکان کا شٹر نیچے گرا دیا اس وجہ سے نہ صرف خالو کی
دوکان کا آرائشی اور شادی بیاہ کا نازک ترین سامان ٹوٹنے سے بچ گیا بلکہ
مجھ جیسا ڈرپوک بھی اس بھینسے کے شدید حملے سے محفوظ رہا ۔برتنوں کے شور نے
خود کٹے کو بھی خوفزدہ کردیا تھا، اس کی رفتار پہلے سے بھی دوگنا ہو گئی
تھی وہ برتنوں کی دوکان سے نکل کر مٹھائی دوکان میں جا گھسا اور مٹھائی کی
سجی ہوئی دوکان کو تہس نہس کردیا ۔ اتنے میں اس بھینسے کے مالک بھاگتے ہوئے
بازار میں آپہنچے اور بہت مشکل سے اس بھینسے کو قابو کیا۔ انہوں نے بھینسا
پکڑ تو لیا لیکن اس بھینسے نے بازار میں جو تباہی مچائی۔ اس کا ذکرالفاظ
میں نہیں کیا جاسکتا ۔میں نے خالو سے پوچھا یہ بھینسا کہاں سے آیا تھا تو
خالو نے مسکراتے ہوئے کہا تمہارا پیچھا کرتے ہوئے آیا ہے ۔میں نے کہا خالو
ایسے تو نہ کہیں۔
(جاری ہے)
|