حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ ( حصہ اول )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
جناب آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اللہ رب العزت کے حکم پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے دین اسلام کے احکام و مسائل کے بارے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو آگاہی بخشی پھر تابعین علیہ الرحمہ نے ان احکامات و مسائل کو سیکھا صحابہ کرام علیہم الرضوان سے پھر جیسے جیسے دین اسلام جزیرہ نما عرب کی سرحدوں سے باہر نکل کر پھیلتا گیا تو دین اسلام کے ان تمام مبلغین کی محنت نے رنگ لانا شروع کردیا اور تابعین کے بعد یہ ذمہ داری تبع تابعین نے احسن طریقے سے نبھائی پھر یہ کام آنے والے علماء ، مجتہدین ،آئمہ و محدثین ، اولیاء اللہ اور بزرگان دین علیہ الرحمہ کے کاندھوں پر آن پڑا اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کوئی کوتاہی نہیں بخشی اور لوگوں کی خدمت و مدد میں مصروف عمل رہے اور امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انہی اولیاء اللہ میں ایک معروف نام حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا بھی ہے جن کا نام اور اور کام دونوں اہل ایمان مسلمانوں کے لیئے آج تک تاریخ اسلام کی کتابوں کا زیوربنے ہوئے ہیں اور ان کے بعد آنے والے بیشمار لوگ ان کی زندگی اور ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں آج ہم اس عظیم ہستی کے بارے میں کچھ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے پوری زندگی امت مسلمہ کی رہنمائی میں گزاردی اور یہ فریضہ بخوبی نبھایا آپ علیہ الرحمہ کی صحبت میں رہکر راہ حق پر چلنے والے کئی لوگ اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سب سے پہلے المختصر ہم ان کا تعارف پڑھ لیتے ہیں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ جنیدیہ کے بانی بھی تھے اور اپنی ریاضت و عبادت کی بدولت ایک بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل کیا اور شہرت دوام پائی آپ علیہ الرحمہ نے اپنے ظاہری علوم اپنے ماموں حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہکر حاصل کی اور جب ظاہری علوم سے فارغ ہوئے تو اپنے ہی استاد و ماموں حضرت سری سقطی کے دست حق پر بیعت کی سعادت حاصل کرلی اور پھر سلوک کی ساری منازل طے کرنے کے بعد آپ علیہ الرحمہ خرقہ خلافت سے بھی سرفراز ہوگئے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے بلند مقام و مرتبہ کو دیکھکر ان کے مرشد و ماموں حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو یہ دیکھنا ہو کہ کسی مرید کا مقام اہنے مرشد کے مقام سے بلند ہے تو وہ جنید علیہ الرحمہ کو دیکھ لے آپ علیہ الرحمہ کا نام آپ علیہ الرحمہ کے والد اور والدہ نے ان کے پیرومرشد اور ماموں حضرت سری سقطی کے مشورہ سے ان کے دادا کے نام " جنید " کے نام سے رکھا۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جنید کا مطلب چھوٹے لشکر کے ہیں اور یہ نام آپ علیہ الرحمہ کے لیئے بڑا بابرکت ثابت ہوا آپ علیہ الرحمہ کا شمار ان جید علماء میں ہوا جنہوں نے دین اسلام کی ترقی اور ترویج کے لیئے بڑا کام کیا اور خداوند کی بارگاہ میں مقبول بندوں کی صف میں آگئے لوگوں میں " سید الطائفہ " کے لقب سے مشہور ہوئے جب اللہ رب العزت کا کوئی بندہ اپنا آپ یعنی اپنا سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کردیتا ہے تو پھر اس کا ہر عمل صرف اللہ تعالی کی ھکم کا تابع ہوتا ہے اور اس کے ہر عمل میں اللہ رب العزت کی منشاء اور مرضی شامل ہوتی ہے جیسے قران مجید میں رب الکائنات کا ارشاد ہے کہ جب بندہ میرا قرب حاصل کرلیتا ہے تو میں اس کی آنکھ بنجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے کان بنجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور زبان بنجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا بھی کچھ یہ ہی حال تھا شہر بغداد کے کافی مشائخ اور خود حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ نے کئی مرتبہ آپ علیہ الرحمہ سے کہا کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کریں لیکن وہ ادب مرشد کے پیش نظر ہمیشہ خاموش ہوجاتے لوگوں کا ایک وفد حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ نصیحت و وصیحت فرمایئے تو ہمارے دلوں کو قرار آجائے تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ جب تک میرے پیرومرشد حیات ہیں اور اپنے مقام پر رونق افروز ہیں میں نصیحت نہیں کروں گا لوگ وہاں سے اٹھکر چلے گئے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یوں ہی ایک رات آپ علیہ الرحمہ کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا اور آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اے جنید تم لوگوں کو نصیحت
کیوں نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل
تمہارے توسل سے ایک جہاں کی
مغفرت فرمائے گا "

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ جب بیدار ہوئےتو سوچنے لگے کہ میرا مقام میرے مرشد کے مقام میں پیوست ہوگیا ہے یعنی برابر جا پہنچا ہے جب ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے مجھے دعوت تبلیغ کا حکم دیا ہے جب صبح ہوئی تو حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ نے ایک مرید کو حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ وہ اس وقت نماز میں مصروف ہوں گے جب سلام پھیر لیں تو ان سے کہنا کہ تم نے اپنے مریدوں کے کہنے پر وعظ و تلقین کا کام نہیں کیا اور نہ ہی اس معاملے میں بغداد کے مشائخ کا کہا مانا جبکہ میرے حکم پر بھی تم نے کان نہ دھرے لیکن اب سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تو یہ فریضہ انجام دینا ہوگا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنے پیرومرشد کا پیغام پڑھکر آپ علیہ الرحمہ سمجھ گئے کہ میرے پیرومرشد میری قلبی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ میرے ظاہر و باطن سے بھی باخبر ہیں ان کا مقام مجھ سے بہت بلند یے وہ تو میرے حال سے بھی باخبر ہیں جبکہ میں ان کے حال سے بےخبر ہوں پھر آپ علیہ الرحمہ اپنے ماموں یعنی پیرومرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور سب سے پہلے توبہ کی اور عرض کیا کہ آپ علیہ الرحمہ کو کیسے علم ہوا کہ مجھے سرکار علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو انہوں نے فرمایاکہ جنید علیہ الرحمہ مجھے اللہ رب العزت نے خواب میں بتادیا تھا کہ میں نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنید علیہ الرحمہ کے پاس بھیجا ہے تاکہ وہ جنید علیہ الرحمہ سے کہیں کہ وہ لوگوں کو وعظ وتلقین کریں تاکہ اہل بغداد کے لوگوں کی قلبی مراد پوری ہوجائے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارے یہاں آجکل لوگوں نے اپنے آپ کو اس عارضی دنیا میں زندگی کی ہر آسائش کے حصول کی خاطر اتنا مصروف کرلیا ہے کہ اپنے رب الکائنات کو یاد کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور اگر کسی سے کہو کہ تھوڑا وقت اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیئے بھی نکال لیا کرو تو کہتے ہیں کہ رزق حلال کمانا اور اس کے لیئے کام کرنا بھی تو عبادت ہے تو میں اکثر ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا انبیاء کرام علیہم السلام یا ان کے بعد آنے والے اللہ رب العزت کے خاص اور محبوب بندوں نے حلال روزی نہیں کمائی ؟ کیا وہ اللہ کے ذکر سے غافل رہے ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ ریشمی کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور مصروف بازار میں آپ علیہ الرحمہ کی دوکان تھی لیکن اتنی مصروفیات کے باوجود کبھی یاد الہی سے غافل نہ رہے آپ علیہ الرحمہ روزانہ تین سو رکعت نوافل اور تیس ہزار مرتبہ "سبحان اللہ " کی تسبیح پڑھا کرتے تھے حضرت اسمعیل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ روزانہ آکر اپنی دوکان کھولتے اور پھر پردہ لٹکا کر چار سو نوافل پڑھتے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب کوئی انسان اپنی زندگی میں ریاضت ، عبادات اور اپنے خالق حقیقی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اس کا قرب حاصل کرلیتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اپنا خاص کرم فرماتا ہے اسے اپنے دیدار سے مشرف فرماتا ہے اور پھر وہ جب چاہے اپنے رب سے باتیں کرسکتا ہے حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا بھی بلکل یہ ہی سلسلہ تھا آپ علیہ الرحمہ کو جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو براہ راست اللہ تعالی سے رجوع کرتے اور انہیں جواب بھی مل جاتا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن سریج علیہ الرحمہ نے حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو آپ علیہ الرحمہ نے متعدد بار جواب دیئے تو انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الرحمہ اس کا مجھے املا کرواسکتے ہیں ؟ یعنی آپ علیہ الرحمہ فرمائیں اور وہ تحریر کریں تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ
" اگر جو جواب تمہیں ملا وہ میں دیتا تو ضرور لکھوادیتا یعنی جو کچھ میں نے تمہیں بتایا وہ اللہ تعالی نے میرے دل میں ڈال دیا تب میری زبان بولنا شروع ہوئی اس علم کا تعلق پڑھنے پڑھانے سے نہیں بلکہ یہ صرف خدا کی عطا ہے اس کا کرم خاص ہے وہ جو کچھ مجھے عطا کرتا ہے میری زبان سے وہی ادا ہوتا ہے میری اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی "

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت فارس بغدای علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اللہ تبارک وتعالی سے رجوع کرلیتے اور اگر کوئی سائل ایسا سوال کرجاتا کہ جواب میسر نہ ہو تو اسے توقف کرواکر آپ علیہ الرحمہ گھر کے اندر چلے جاتے اور اللہ تعالی سے رجوع کرتے جب جواب مل جاتا تو باہر آکر سائل کو جواب سے مطلعہ کردیتے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب انسان اپنا سب کچھ اپنے خالق حقیقی کے حوالے کردیتا یے تو اسے اللہ تعالی کی ذات پر اتنا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اسے ہر تکلیف ہر پریشانی اور ہر مسئلہ کا حل صرف اور صرف اپنے رب کے پاس نظر آتا ہے ایک دفعہ آپ علیہ الرحمہ کو آنکھوں کی تکلیف یعنی آشوب چشم کا مرض لاحق ہوگیا پہلے پہل تو آپ علیہ الرحمہ نے کوئی توجہ نہیں دی لیکن جب تکلیف کی شدد بڑھ گئی تو خدام نے عرض کیا کہ بغداد میں ایک ماہر امراض چشم ہے جو عیسائی ہے اگر ناگوار نہ گزرے تو اسے علاج کی غرض سے بلوایا جا سکتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے خدام سے فرمایا کہ جیسے تمہاری مرضی خدام اگلے روز اس عیسائی طبیب کو لے ائے اس نے آپ علیہ الرحمہ کی آنکھوں کا معائنہ کیا علاج تجویز کہا اور کہا کہ اگر آپ علیہ الرحمہ اپنی بینائی کو بچانا چاہتے ہیں تو ان انکھوں کو پانی سے بچاکر رکھئے گا تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں پانچ وقت وضو کرنے کا عادی ہوں ایسے میں ان آنکھوں کو پانی سے کیسے بچا سکتا ہوں ؟ یہ سن کر طبیب بولا کہ اگر آپ کو ان آنکھوں کی سلامتی عزیز ہے تو پانی سے بچانا ہی پڑے گا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے طبیب سے فرمایا کہ اگر میں ایسا نہ کرسکوں تو ؟ طبیب بولا کہ پھر بینائی جانے کا خطرہ ہے دراصل طبیب کا تجویز کردہ مشورہ اس کے تجربات اور تعلیمی مشاہدات کی روشنی میں تھا وہ جب جانے لگا تو خدام کو مشورہ دیتا گیا کہ اگر تم لوگ حضرت کی آنکھوں کی روشنی کے طلبگار ہو تو انہیں پانی سے بچنے کی تدبیر کرلینا عیسائی طبیب کے جانے کے بعد خدام آپ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت شریعت ہمیں رعایت دیتی ہے کہ ہم مجبوری میں وضو تیمم سے بھی کرسکتے ہیں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا " مجھے اس شرعی ریاعت کا بخوبی علم ہے " ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے پھر عشاء کی نماز کے لیئے وضو کیا اور نماز ادا کی نماز پڑھکر آپ علیہ الرحمہ سوگئے پھر تہجد کے وقت اٹھے اور نماز تہجد ادا کی جب آپ علیہ الرحمہ فجر کی نماز کے بعد دن کی روشنی میں خدام اور مریدوں کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ علیہ الرحمہ نے ایک حیران کن منظر دیکھا کہ آنکھوں کی سوزش اور سرخی جاتی رہی جبکہ آشوب چشم کا مرض رفع ہوگیا اور آپ علیہ الرحمہ بلکل صحت مند اور تندرست ہوگئے اگلے روز وہ عیسائی طبیب آپ علیہ الرحمہ کی آنکھوں کا معائنہ کرنے آیا کہ دیکھے اس کے کہنے پر کتنا عمل ہوا ہے اور کتنا نہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں عیسائی طبیب نے آکر سب سے پہلے آپ علیہ الرحمہ کا حال احوال پوچھا تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ
" مجھے میرے رب نے اس مرض سے شفاء بخش دی ہے اور میں بلکل ٹھیک ہوں "
اس عیسائی طبیب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ضرور آپ علیہ الرحمہ نے میرے بتائے ہوئے مشورہ پر عمل کیا ہوگا ؟ تو آپ علیہ الرحمہ مسکرائے اور فرمایا کہ میں نے تمہارے بتائے ہوئے علاج کا الٹ کیا اور میرے خالق کائنات کا کمال اور اس کی شان دیکھو کہ جو پانی تمہارے نزدیک میری آنکھوں کے لیئے مضر تھا میرے اللہ رب العزت نے اس پانی کو ہی میرے لیئے اکسیر بنادیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس عیسائی طبیب نے جب بغور آپ علیہ الرحمہ کی انکھون کا معائنہ کیا تو حیران رہ گیا کہ واقعی یہ تو بلکل ٹھیک ہوگئی ہیں پھر بے ساختہ پکار اٹھا کہ یہ کسی مخلوق کا علاج نہیں ہے بلکہ خالق کا علاج ہے حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا اپنے رب تعالی پر اتنا مظبوط یقین دیکھکر وہ عیسائی طبیب بہت متاثر ہوا اور اس نے آپ علیہ الرحمہ کے دست حق پر اسی وقت اسلام قبول کرلیا ۔ ( حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے سو واقعات سے اقتباس )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں میں نے اپنی کئی تحریروں اس بات کا ذکر کیا یے کہ جب کوئی بندہ اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے احکامات اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ل پیرا ہوکر گزارتا ہے تو اسے اللہ رب العزت اپنا قرب عطا کردیتا ہے اور اپنے خاص اور محبوب بندوں میں اس کو شامل کرلیتاہے حضرت جنید بغدادی کے متعلق ہم نے ابھی بہت مختصر پڑھا ایسی ہستی کے بارے ابھی بہت کچھ پڑھنا اور سمجھنا باقی ہے انشاءاللہ اس تحریر کا اگلہ حصہ لیکر جلد حاضر خدمت ہوں گا اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ میرا اس کی رضا اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے لکھنا اور ہم سب کا پڑھنا قبول فرمائے اور اس سے سبق سیکھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 165 Articles with 133549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.