|
|
18ویں صدی میں میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کی خواب گاہ
سے ملنے والی ان کی تلوار نے اس ہفتے لندن میں نیلامی کے تمام ریکارڈ توڑ
دیے ہیں۔ یہ تلوار ایک کروڑ چالیس لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوئی ہے۔ |
|
سنہ 1782 اور 1799 کے درمیان ٹیپو سلطان کے دور کی تلوار
سٹیل سے بنی ہے جس پر سونے کی کاریگری کی گئی ہے۔ اسے اس دور میں اقتدار کی
علامت سمجھا جاتا تھا۔ |
|
یہ تلوار ٹیپو سلطان کی خواب گاہ سے برآمد ہوئی تھی جسے
ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے میجر جنرل ڈیوڈ بیرڈ کو پیش کیا تھا۔ |
|
ٹیپو سلطان کو ’میسور کے ٹائیگر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ |
|
نجی بین الاقوامی آکشن ہاؤس بونہامس میں اسلامی اور انڈین آرٹ کے سربراہ
اولیور وائٹ نے منگل کو نیلامی سے قبل ایک بیان میں کہا ’یہ شاندار تلوار
ٹیپو سلطان سے منسلک تمام ہتھیاروں میں سب سے عظیم الشان کہی جاتی ہے جو اب
بھی کچھ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔‘ |
|
|
|
انھوں نے کہا کہ ’سلطان کے ساتھ اس کی ذاتی وابستگی، اس
کی بے عیب خوبصورتی اور اس پر کی جانے والی شاندار کاریگری اسے منفرد اور
انتہائی قیمتی و پُرکشش بناتی ہے اور یہ آج بھی ویسی ہی ہے جیسی اس زمانے
میں ہوا کرتی تھی۔‘ |
|
تلوار کی ابتدائی بولی کی قیمت پندرہ سے بیس لاکھ پاؤنڈز
کے درمیان تھی لیکن اس کی نیلامی 14 ملین پاؤنڈ میں ہوئی۔ |
|
نیلام گھر میں اسلامی اور انڈین آرٹ کی گروپ ہیڈ نیما
ساغرچی نے کہا کہ ’اس تلوار کی ایک غیر معمولی تاریخ ہے، اس میں ششدر کر
دینے والی حقیقت اور بے مثال کاریگری ہے۔ اس کی نیلامی میں اتنی گرما گرمی
کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہم نتیجے سے خوش ہیں۔‘ |
|
|
|
نیلام گھر نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ یہ ’ٹیپو سلطان
کی بیڈ چیمبر تلوار ہے جس میں سٹیل کے بلیڈ پر سونے کی کوفت گری موجود ہے۔‘ |
|
تلوار پر ’شمشیر مالک‘ کے علاوہ ’یا ناصر یا فتاح یا
نصیر یا معین یا ظہیر اللہ‘ درج ہے۔ |
|
|
|
مورخین کے مطابق مئی 1799 میں ٹیپو سلطان کے شاہی گڑھ
سرنگا پٹم پر قبضے کے بعد ان کے محل سے نکالے گئے بہت سے ہتھیاروں میں سے
بہت کم ایسے ہیں جو ٹیپو سلطان کی شان و شوکت یا ان سے اس قدر قریبی تعلق
رکھتے ہیں۔ |
|
یہ تلوار بلاشبہ ٹیپو سلطان کے ذاتی ہتھیاروں کا حصہ ہے۔
حکمران کے ساتھ ثابت شدہ ذاتی وابستگی کے ساتھ اسے بہترین اور اہم ترین
ہتھیاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ |
|
جیسا کہ فرانسس بکانن نے انڈیا میں اس وقت کی یادداشتوں
میں بیان کیا کہ ’ٹیپو سلطان کے سوتے وقت ایک تلوار ان کی پہنچ میں رہتی
تھی۔ حملے کے خلاف مسلسل الرٹ رہتے ہوئے ٹیپو سلطان اپنی بند خواب گاہ کی
چھت سے لٹکائے ہوئے جھولے میں سوتے تھے جس میں ایک پستول اور تلوار ان کے
پہلو میں تھی۔‘ |
|
یہ ہتھیار خود ’غیر معمولی‘ معیار کا ہے، جس کے بلیڈ
پر’حکمران کی تلوار‘ لکھا ہوا ہے۔ |
|
اسے 16ویں صدی میں انڈیا میں متعارف کرائے گئے جرمن بلیڈ
کے ماڈل کے بعد مغل کاریگروں نے تیار کیا تھا۔ |
|
یاد رہے کہ ٹیپو سلطان نے پڑوسی ریاستوں اور ایسٹ انڈین
کمپنی کے خلاف جنگوں میں راکٹ آرٹلری کے استعمال کا آغاز کیا تھا۔ |
|
|
|
نیلام گھر نے اس تلوار کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈینی
فاریسٹ کی کتاب ’دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ٹیپو سلطان‘ کا حوالہ دیا جس کے
مطابق شیرِ میسور کی موت ایسٹ انڈیا کمپنی کے میجر جنرل ڈیوڈ بیرڈ کی قیادت
میں کی گئی فوجی کارروائی کے دوران ہوئی۔ اس سے قبل بیرڈ چار سال یہیں قید
خانے میں گزار چکے تھے۔ |
|
ایک عینی شاہد کے مطابق ’ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور جسم
گرم تھا۔ ایک لمحے کے لیے کرنل ویلسلی اور میں شک میں تھے کہ وہ زندہ ہیں۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |