پرچی میں کچھ تو تبدیلی کرلیں۔۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والی رہنما سے دلچسپ سوال کی وائرل ویڈیو

image
 
’جی یہ ہمیں یاد ہوگیا ہے۔۔۔‘ یہ وہ تبصرہ تھا جو پارٹی اور سیاست سے بریک لینے کے ملتے جلتے اعلانات پر ایک صحافی نے دوران پریس کانفرنس کیا۔
 
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دو درجن سے زیادہ رہنماؤں نے اپنی پریس کانفرنسز میں کم و پیش ایک ہی قسم کے الفاظ استعمال کیے جس میں یہ افراد پہلے سیاست اور پھر پی ٹی آئی سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہیں۔
 
بعض پریس کانفرنس کرنے والوں نے سیاست یا عمران خان سے الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن صرف یہ کہا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کچھ عرصے بعد کریں گے۔
 
پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل اسد عمر کی وہ واحد پریس کانفرنس تھی جس میں انھوں نے پارٹی کے عہدوں سے تو مستعفی ہونے کا اعلان کیا لیکن سیاست یا پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔
 
نو مئی کو فوجی تبصیبات اور املاک پر حملوں کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی سے علیحدگی ظاہر کرنے کے لیے جتنا استعمال نیشنل پریس کلب کا ہوا، اتنا ملک میں کسی اور جگہ کا نہیں ہوا، چاہے پارٹی چھوڑنے والوں کا تعلق صوبہ پنجاب یا خیبر پختونخوا سے ہی کیوں نہ ہو۔
 
image
 
باون سیکنڈ میں پی ٹی آئی سے الگ۔۔۔
نیشنل پریس کلب میں اب تک 30 پریس کانفرنسز ہوچکی ہیں جس میں پی ٹی آئی سے وابسطہ لوگ پارٹی سے علحیدگی کا اعلان کرتے ہیں۔ ان میں سینیٹر سیف اللہ نیازی، ملیکہ بخاری، فیاض الاحسن چوہان، مسرت جمشید چیمہ اور دیگر رہنما شامل ہیں۔
 
نیشنل پریس کلب کے ریکارڈ کے مطابق پریس کانفرنس کا سب سے کم دورانیہ سابق سینیٹر سیف اللہ نیازی کی پریس کانفرنس کا تھا جو کہ صرف باون سیکنڈ پر مشتمل تھا جبکہ اب تک سب سے لمبی پریس کانفرنس کا دورانیہ ایک گھنٹہ دس منٹ ہے جو کہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الاحسن چوہان نے کی تھی۔
 
نیشنل پریس کلب میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی اپنی جماعت سے لاتعلقی کے اعلان سے متعلق اتنی زیادہ پریس کانفرنسز ہو چکی ہیں کہ ان پریس کانفرسز کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو یہاں تک یاد ہوگیا ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والا اگلا فقرہ کیا بولنے جا رہا ہے۔
 
ایسے ہی صحافیوں میں ایک مقامی صحافی مدثر چوہدری بھی شامل ہیں جنھوں نے اس بارے میں متعدد پریس کانفرسز کور کی ہیں۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی رہنماؤں نے نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کی ہے ان کے پاس کوئی لکھا ہوا مواد نہیں ہوتا تھا بلکہ پریس کلب کی انتظامیہ کی طرف سے انھیں سادہ کاغذ فراہم کیے جاتے تھے۔
 
انھوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی پی ٹی ائی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی ہے، ان میں سے اکثریت اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے بعد نیشنل پریس کلب میں آتے تھے۔
 
 
’جی یہ ہمیں یاد ہو گیا ہے‘
مدثر چوہدری کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل سے پریس کلب آنے تک اگر کوئی انھیں راستے میں پریس کانفرنس میں بولنے کا سکرپٹ یاد کرواتا ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن پریس کانفرنس کے دوران کسی نے انھیں سکرپٹ نہیں دیا۔
 
انھوں نے کہا کہ یا اتفاقیہ امر ہے یا پھر اڈیالہ جیل سے نیشنل پریس کلب تک آتے ہوئے کوئی پریس کانفرنس کرنے والے کو سکرپٹ یاد کرواتا ہے کہ ہر پریس کانفرنس کرنے والا اپنی پریس کانفرنس کا آغاز نو مئی والے واقعے سے کرتا تھا اور پھر اس کی مذمت اور آخر میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا جاتا تھا۔
 
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما کنیز فاطمہ پریس کانفرنس کر رہی اور بتا رہی ہیں کہ ان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اس پر ایک صحافی نے دوران اعلان تبصرہ کیا ’جی یاد ہوگیا ہمیں‘ اور ہال میں موجود شرکا نے قہقہہ لگایا۔
 
ساتھ ہی پریس کانفرنس میں موجود مقامی صحافی زاہد فاروق ملک نے بے تکلف انداز میں سوال کیا ’یہ جو آپ کو پرچی دیتے ہیں، اس میں آپ سپیلنگ سپولنگ کا فرق نہیں کرتے؟ کہ کوئی سپیلنگ کا ہی فرق آجائے۔ سب کے پاس کیا ایک ہی فوٹو کاپی کر کے دیتے ہیں؟
 
انھوں نے تجویز دی کہ ’تھوڑا بہت تو اونچ نیچ اپنے پاس سے کر لیا کریں۔‘
 
اس سوال کے جواب میں کنیز فاطمہ کا کہنا تھا کہ انھیں ’کوئی سکرپٹ نہیں دیا گیا‘ اور یہ کہ بس وہ سیاست سے بریک لینا چاہتی ہیں اور اس کے بعد وہ پریس کانفرنس ختم کرکے چلی گئیں۔
 
image
 
پریس کانفرنس کی فیس کتنی؟
نیشنل پریس کلب کے سیکریٹری خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک دن پہلے بُکنگ کروانا پڑتی ہے کیونکہ پریس کانفرنس کس بارے میں کی جا رہی ہے، اس کا ایک دعوت نامہ تیار کر کے مقامی میڈیا کو بھجوایا جاتا ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی فیس 35 ہزار روپے ہے جو کہ پریس کانفرنس کرنے والے کو یک مشت یا کچھ رقم ایڈوانس میں دینے کے بعد باقی رقم بعد میں ادا کرنا ہوتی ہے۔
 
خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ اس رقم میں صحافیوں اور پریس کانفرنس کرنے والوں کو ریفریشمنٹ (یعنی کھانا پینا) دیا جاتا ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ جو کوئی بھی نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کا خواہشمند ہو تو پہلے اس سے اس پریس کانفرنس کا مقصد پوچھا جاتا ہے۔
 
خلیل راجہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص جو پاکستانی ہے اور ملک کے کسی بھی حصے میں رہائش پذیر ہے وہ یہاں آ کر پریس کانفرنس کرنے کا مجاذ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: