سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا امتی ہونا ہماری خوش قسمتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے معزز یاروں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ اس عارضی دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت تصور کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے آپ کو بدقسمت مانتے ہیں لیکن ایک اہل ایمان مسلمان ہونے کے ناطے ان تمام لوگوں کی یعنی ہماری اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی کہ اللہ رب الکائنات نے ہمیں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بنا کر اس عارضی دنیا میں بھیجا یہ اس رب العزت کی اتنی بڑی کرم نوازی ہے اور خوش نصیبی ہے ہم لوگوں پر کہ ہم جتنا بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کریں وہ کم ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ زرا سوچیئے کہ اگر وہ رب ہمیں اپنے پچھلے آنے والے کسی نبی کی امت میں پیدا کردیتا تو اس میں اس کو کیا فرق پڑتا لیکن اس مالک و مولا نے ہمیں اس امت میں شامل کیا جس میں شامل ہونے کے لئے پچھلے آنے والے نبیوں نے بھی دعا کی امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکہتم العلیہ کی کتاب " حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کی خصوصیات " میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت موسی علی نبینا علیہ السلام کو علم ہوا کہ اللہ تعالی کے حبیب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو اتنے فضائل و برکات سے نوازہ ہوا ہے تو آپ علیہ السلام نے اپنے رب سے درخواست کی کہ اس امت کو میری امت بنادیا جائے لیکن اجازت نہ ملی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب حضرت موسی علیہ السلام کو اس بات کی اجازت نہیں ملی تو آپ علیہ السلام نے اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ " کاش میں حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہوتا" یہ ایک نبی کی دعا تھی میرے معزز یاروں اللہ کریم کا احسان کہ اس نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں ہیدا کیا اور اس سے بڑھکر یہ ہے کہ اس نے اپنے حبیب کریم رئوف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرماکر ہم پر اتنا بڑا کرم اور احسان کیا کہ اگر ہم ساری زندگی اس کا شکر ادا کریں تو بھی کم ہوگا اور اس کا شکر ادا نہیں کرسکیں گے امیر اہل سنت کا ایک شعر ہے کہ
شکر تیرا کہ ان کی امت میں
مجھکو اے ذوالجلال رکھا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار مدینہ علیہ وآلیہ وسلم کی شان و مرتبہ کا یہ حال ہے کہ اس عارضی دنیا میں بھیجے گئے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں سے آپ علیہ وآلیہ وسلم کی امت کی تعداد سب سے زیادہ ہے یعنی زیادہ امتی و غلام ہونا بھی آقا علیہ وسلم کے عظیم ہونے کی دلیل ہے ایک حدیث کے مطابق سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
" قیامت کے روز سب نبیوں کی امت میں سے سب سے زیادہ تعداد میری امت کی ہوگی "مطلب یہ کہ قیامت کے روز اپ علیہ وآلیہ وسلم کی امت کی ایک کثیر تعداد کا ظہور ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتیوں کی خود تعریف کرتے ہوئے قران مجید کی سورہ العمران کی آیت نمبر 110 میں ارشاد فرمایا کہ ترجمعہ کنزالایمان
" تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں
میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو
اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر
ایمان رکھتے ہو "۔
میرے یاروں تفسیر خازن کے تحت اس آیت مبارکہ میں اس امت کے افضل ہونے کی دلیل کے طور پر اللہ باری تعالی نے فرمایا کہ بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے سبب اس امت کو دوسری امتوں پر فوقیت دی ہے اور اسی آیت کی تفسیر پر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیف " تفسیر نعیمی " میں اس امت کے 6 فضائل بیان کئے ہیں ۔
1 ۔گزشتہ امتوں کے عیوب قران مجید میں بیان کئے گئے ہیں جس سے وہ ساری دنیا میں بدنام ہوگئیں مگر اس امت کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا نہ آسمانی کتاب جس میں ان کے عیوب بیان ہوں غرض یہ کہ اس امت کی پردہ پوشی کی گئی ہے 2 ۔آنے والی پچھلی کتابوں میں اس امت کے اوصاف کا ذکر تو تھا لیکن عیوب کا تذکرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ لوگ اس امت میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے تھے ۔
3 ۔جس طرح دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں کو اللہ تعالی نے پکارا یعنہ ( یا بنی اسرائیل ، یاایھاالذین ھادو )وغیرہ لیکن اس امت کو ( یاایھاالذین آمنو) جیسے پیارے اور دلکش القابات سے نوازہ ۔
4 ۔ پچھلی امتیں اپنے نبیوں کے بعد ساری گمراہ ہوجاتی تھیں مگر اس امت میں قیامت تک ایک گروہ حق پر کرآمد رہے گا ۔
5 ۔جس طرح درخت کی جڑ رہنے سے اس میں پھل پھول آتے رہیں گے اسی طرح اس امت میں قیامت تک اولیاء اللہ وعلمائے ربانی پیدا ہوتے رہیں گے ۔
6 ۔ یہ ہی امت بروز قیامت بارگاہ الہی میں پچھلے نبیوں کی گواہی دے گی کہ اے خدایا انہوں نےاپنی قوم کو تیرے دین کی تبلیغ کی تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امت سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے فضائل سے روشناس کرنے اور ہمیں آگاہی فراہم کرنے کے لئے ہمارے مفسرین نے کئی کتابیں اور کئی تحریریں ہمیں تحفے کے طور پر دی ہوئی ہیں جنہیں پڑھکر ہمیں اپنی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے اور کیوں نہ ہو جو نبی ہر وقت اپنی امت کے بخشش کے لئے اپنی آنکھ سے آنسو بہاتا ہو کیا اس ہستی کی امت ہونا ہمارے لئے باعث فخر بات نہیں ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث جس کومختلف امام نے اپنی اپنی کتابوں میں مختلف راویوں کے ذریعے تحریر کیا ہے امام ابن ابی شیبہ ، ہناد اور دیلمی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ
" میں نے اللہ تعالی سے اپنی امت کی شفاعت کے لئے سوال کیا تو اس نے فرمایا آپ کی خاطر ( آپ کی امت میں سے ) ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے میں نے عرض کیا میرے لئے اضافہ فرمائیں فرمایا: آپ کی خاطر ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار مزید داخل ہوں گے میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور اضافہ فرمائیں : فرمایا پس آپ کی خاطر اتنے اتنے اور بھی ( بغیر حساب چلو بھر کر جنت میں داخل کروں گا )۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مذکورہ حدیث کے اس حصے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس عارضی دنیا میں اور خاص طور پر قیامت والے دن اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک جو فضیلت اور مرتبہ اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتوں کو حاصل ہوگا اسے دیکھکر ساری امتیں رشک کریں گی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے قلب اطہر میں پیدا ہونے والی شفقت اور رحمت کا اثر یہ تھا کہ صرف نیک اور پرہیزگار لوگ ہی آپ علیہ وسلم کے پیش نظر نہیں تھے بلکہ گناہگاروں پر بھی آپ کی نظر کرم بڑی خاص تھی تاکہ وہ بھی رحمت اور مغفرت سے محروم نہ رہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابن ماجہ کی ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ " مجھے اختیار دیا گیا اللہ رب العزت کی طرف سے کہ یا تو اپنی آدھی امت کو بخشوالوں یا پھر ان کے لئے شفاعت کرنے کا اختیار لے لوں بس میں نے شفاعت کرنے کا اختیار لےلیا تو اے غلاموں تم کیا سمجھتے ہو یہ صرف متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ہے نہیں یہ گناہوں اور خطائوں کی گندگی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے لئے ہے "۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے امت محمدیہ کو سب سے افضل قرار دیا ہے مسند امام احمد اور مسند ابن ابی طالب کی ایک حدیث کے مطابق حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیاہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟ تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئی میرا نام احمد رکھا گیا میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیا گیا اور میری امت کو بہترین امت بنادیا گیا ۔( اب اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوگی ہم جیسے گناہ گاروں کی ) ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے اپنی امت کی بخشش کی سفارش اپنے رب تعالی کے حضور بار بار کی ہے اور اس سے انکار کرنے والا کوئی اہل ایمان مسلمان ہو ہی نہیں سکتا لیکن میرے یاروں یہ سب دعائیں یہ سب سفارشیں اور یہ سب معاملات سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنی امت کے ان لوگوں کے لئے کی ہیں جو اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل پیرا ہیں جو آپ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں اور جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے سرشار ہوکر آپ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر کاربند ہیں نہ کہ وہ جو اللہ رب العزت کی نافرمانی کرتے ہوئے گناہوں کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالی کا دست شفقت جماعت پر ہوگا لیکن جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں جائے گا یعنی اللہ تعالی کی فرمانبرداری اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے والے کے لئے ہی یہ بخشش اور شفاعت کی دعائیں ہیں اور امت کے وہ ہی لوگ اپنے آپ کو خوش قسمت کہ سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت اور عشق کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھ لینا چاہیئے آپ علیہ وآلیہ وسلم کی سیرت و کردار کو اپنا کر آپ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ہی آپ علیہ وسلم سے وفا کی ضمانت ہے وہ ہستی جو دنیا میں آنے سے لیکر قیامت تک کے تمام مراحل میں امت کے لئے فکر مند رہے اور ہر لمحہ ہر گھڑی یاد رکھا بلکہ جب بھی اللہ رب العزت سے مکالمہ ہوا تو اپنے امت کی بخشش اور شفاعت کی شفارش کی لہذہ وفا کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ذکر گلی گلی قریہ قریہ اور محلہ محلہ پھیلائیں اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں اپنی زندگی گزارنے کا صدق دل سے عہد کریں تاکہ ہم ثابت کرسکیں کہ واقعی ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتی ہیں اور امتی بھی وہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے امتی ہونے پر اپنے آپ کو خوش قسمت کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
یاد اس کی اپنی عادت کیجیئے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہمیں اپنے آپ کو خوش قسمت لوگوں میں شامل کرنا ہے تو ہمیں بھی انبیاء کرام صحابہ کرام اولیاء کرام بزرگان دین اور اللہ رب العزت کے تمام محبوب بندوں کی زندگیوں سے سبق حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہونا ہوگا تاکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شفاعت کے حقدار بن سکیں ورنہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتے ہیں ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا (اللہ نہ کرے )۔
میرے معزز یاروں آج کی اس تحریر میں میں نے کوشش کی کہ آپ لوگوں کو آپ کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کی ان نشانیوں کی طرف توجہ دلا سکوں جس طرف ہم لوگ بہت کم سوچتے اور دیکھتے ہیں اگر ہم کوشش کریں تو اپنے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے وہ راستہ چن سکتے ہیں جو ہمیں اپنی خوش قسمتی کی طرف لیکر جاتا ہے اور امت سرکار ہونے ہر فخر کرنے والوں میں شامل ہوجائیں میں اس معاملے میں کتنا کامیاب رہا اور کتنا ناکام یہ اس تحریر کو پڑھکر آپ فیصلہ کریں گے بس مجھے دعائوں میں یاد رکہیئے گا اور اپنا بہت خیال رکھیئے گا ۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 134196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.