اس کائنات عالم میں چاہے کوئی کتنا ہی نیک بزرگ پرہیز گار
ہو وہ حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک صحبت میں چند لمحے ہی رہنے والی ایک صحابی
کی شان کو نہیں پہنچ سکتارسول ا للہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ
وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ایک حدیث پاک میں ہے، میرے صحابہ ؓستاروں کی
مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا ءکروگے، ہدایت پاؤ گے۔ان بزرگ
شخصیات کی شان یہ ہے کہ رب ان سے راضی ہونے کا اعلان فرماتا ہے سورۃ التوبہ
میں ارشاد ہے:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر
رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ،یہی بڑی
کامیابی ہے۔انہی عظیم الشان شخصیات میں ایک عظمت و رفعت والی شخصیت حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہے۔
محترم قارئینِ کرام : خلیفۂ دوم ، ناطق حق وصواب ابو حفص سیدنا عمر بن خطاب
رضی اللہ تعالی عنہ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوصف خصوصی بشارت سے بھی
سرفراز فرمائے گئے ۔ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ پیام اسلام کو عام کیا ،آپ
کی زبان مبارک پر حق کو جاری فرمایااور آپ کوحق وباطل کے درمیان وجہ امتیاز
بنادیا۔
ولادت مبارک
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت سے متعلق امام نووی
رحمۃ اللہ علیہ نے رقم فرمایا کہ آپ کی ولادت شریف عام الفیل کے تیرہ سال
بعد ہوئی ۔ وَقَالَ النَّوَوِیُ وُلِدَ عُمَرُ بَعْدَ الْفِیْلِ بِثَلَاثَ
عَشَرَةَ سَنَةً ۔ (تاریخ الخلفاء :ج1،ص43)
نام مبارک وکنیت
آپ کا نام مبارک "عمر" اور کنیت شریفہ "ابو حفص" اور لقب مبارک "فاروق " ہے
۔
آپ کا نسب مبارک اس طرح ہے:سیدناعمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح
بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی ۔
قبولیت اسلام
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لا نے کے بعد6 نبوی میں سیدنا
فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا ،اس وقت آپ کی عمر مبارک
ستائیس (27) سال تھی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ عمر (رضی اللہ عنہ)
اللہ کے نزدیک محبوب ترین تھے۔
(سنن الترمذی: 3681 وسندہ حسن، وقال الترمذی: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح
غریب‘‘)( تثبیت الامامۃ وترتیب الخلافۃ لابی نعیم الاصبہانیؒ،باب:ذِكْرُ
دَعْوَةِ النَّبِيِّ (ﷺ)
((اَللّٰھُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ
إلَیْکَ: بِأَبِيْ جَھْلٍ أَوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ))
اے اللہ! ان دو آدمیوں: ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک
محبوب ہے، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے یعنی اسے مسلمان کر دے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عمر (رضی اللہ عنہ)
نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔ (صحیح
بخاری: 3684)
حضور علیہ الصلوۃوالسلام کی مبارک دعا کے نتیجے میں مرادِ رسول امیر
المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔
اَمِیْرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی عظمت و شان
کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ان خوش نصیب صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان میں شامل ہیں ، جن کی فضیلت اور شان پر کئی فَرامینِ رسول
مَوجُود ہیں۔ آپ کو بارگاہِ رسالت سے بے شمار ایسے فضائل عطا ہوئے جن میں
آپ لاشریک ہیں ۔
* نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کو خود علم
عطا فرمایا۔
(بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب مناقب عمر۔ ۔ ۔ الخ ، ۲ / ۵۲۵ ،
حدیث : ۳۶۸۱ملخصا)
* نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کے قبولِ
اسلام کی دعا فرمائی۔
(ترمذی ، کتاب المناقب ، باب فی مناقب ابی حفص۔ ۔ ۔ الخ ، ۵ / ۳۸۳ ، حدیث :
۳۷۰۳)
* آپ کے قبولِ اسلام پر آسمان والوں نے بھی خوشیاں منائیں۔
(ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ، فضل عمر ، ۱ / ۷۶ ، حدیث : ۱۰۳)
فاروقِ اعظم(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) کی محبت ایمان کی ضمانت ہے۔
(کنزالعمال ، کتاب الفضائل ، فضل الشیخین۔ ۔ ۔ الخ ، ۷ / ۸ ، حدیث : ۳۶۱۱)
بے شک اگلی امتوں میں محدثون (جنھیں الہام و کشف حاصل تھا) ہوتے تھے اور
اگر اس اُمت میں اُن میں سے کوئی (محدث) ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔
(بخاری کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار برقم: ۳۴۶۵، وکتاب فضائل الصحابۃ باب
مناقب عمر رضی اللہ عنہ )
اے عمر! بے شک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔
(سنن الترمذی: 3690 وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘ اس کی سند حسن ہے)
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان اور انسانوں کے شیطان سب (سیدنا) عمر
(رضی اللہ عنہ) سے بھاگ گئے ہیں۔
(الترمذی: 3691، وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘ وسندہ حسن)
آپ ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے (عمر) ابن الخطاب! تُو جس
راستے پر چل رہا ہو تو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگ جاتا
ہے۔
(صحیحُ البخاری: 3683 وصحیح مُسلم: 22/2396 وأضواء المصابیح: 6027)
ایک حدیث نبوی ﷺمیں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بے شک اللہ نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔
(صحیح ابن حبان، موارد: 2184 وسندہ صحیح)
ایک اور حدیث میں ہے:
اِنَّ اللہَ ضَرَبَالْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلبِہ وَفِیْہِ
لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْلَکَانَ عُمَرُ۔
(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عمر بن الخطاب، رقم: ۳۶۸۲،۳۶۸۶۔حدیث حسن)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ہم اس امر کو بعید نہیں
سمجھتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے سکینت برس رہی ہے۔‘‘
(مسند احمد۱۰۶/۱) شرح السنہ البغوی برقم: ۳۸۷۷۔)
بعض اوقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں (آپ کی رائے کے مطابق)قرآن
مجید کی آیات نازل ہوئیں جنھیں موافقاتِ عمر کہتے ہیں۔ دیکھئے صحیح البخاری
(402، 4483 وصحیح مسلم (24/3391)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
(سنن الترمذی: 3686 وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن غریب‘‘ اس کی سند حسن ہے)
نبی کریم ﷺ نے جنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔
(صحیح ُالبخاری: 5226، 7024 وصحیح مسلم: 20/2394)
آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنتی کہا۔
(الترمذی: 3747 وسندہ صحیح)
: حضرت فضل بن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)
نے ارشاد فرمایا:
( المعجم الاوسط للطبرانی، بَابُ مَنِ اسْمُهُ إِبْرَاهِيمُ)’’عُمَرُ مَعِي
وَأَنَا مَعَ عُمَرَ وَالْحَقُّ مَعَ عُمَرَ حَيْثُ كَانَ‘‘
’’عمر میرے ساتھ ہیں اورمیں عمرکے ساتھ ہوں اور حق عمر کے ساتھ ہوگاجہاں
کہیں بھی ہو ‘‘
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے
ارشادفرمایا
’’اہل ِ جنت کے چراغ عمربن خطاب ہیں‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں بے شمار آیات قرآنی اور احآدیث
مقدسہ ﷺ موجود ہیں اللہ ان شخصیات کے طفیل ہمارے اور ہمارے پیارے ملک کے
حال پہ رحم فرمائے ملک پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
فرمائے اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر پہرہ دینے والوں کی حفاظت فرمائے
آمین
اس مضمون اگر کہیں بھی کوئی کمی کوتاہی یا غلطی ہو گئی ہو تو اللہ رب العزت
کی بارگاہ میں معافی کا طلبگار ہوں۔
|