پاکستان لٹریچر فیسٹیول کی کشمیر کے موضوع پہ اہم تقریب

پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام آزاد کشمیر حکومت کے تعاون سے مظفر آباد میںپاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا ہے۔دو روزہ لٹریچر فیسٹیول میںکشمیر کلچرل ہیری ٹیج،کشمیرز لٹریچر آف ریزسٹینس،کشمیر ٹورسٹ ہیون،جرنی آف کشمیری ویمن،ہائو آرٹیکل 35A اینڈ 370افیکٹس پیوپل آف کشمیر،دبستان کشمیر کے نقوش،کشمیر اشو پہ میڈیا کا کردار کے موضوعات پہ تقریبات کے علاوہ مشاعرہ، کتابوں کی رونمائی ، آرٹس اینڈ کرافٹس ، میوزک و ڈانس اور فوڈ فیسٹیول بھی شامل ہے۔ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے سینئر رہنما چودھری لطیف اکبر، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر منظور حسین گیلانی اور پاکستان کے سابق سینئر بیوروکریٹ فواد حسن فواد شامل ہوئے۔

کشمیر اشو پہ میڈیا کا کردار کے موضوع پہ منعقدہ تقریب معروف صحافی عاصمہ شیرازی کی نظامت میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے معروف صحافی وسعت اللہ خان، حامد میر ، مظہر عباس اور کشمیر کے معروف صحافی طارق نقاش، عارف بہار اور واحد بٹ شریک ہوئے۔اس موقع پہ حامد میر نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے میڈیا کا کردار انتہائی قابل شرم ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو سیاسی اور غیر سیاسی حکومتیں آئیں ان کا کردار بہت شرمناک تھا،ہر کسی نے کشمیر کو ایک پلاٹ کی طرح ٹریٹ کیا کہ یہ کوئی زمین کا ٹکڑا ہے جو بڑا ایکسپینسیو ہے اور پلاٹ کا جھگڑا ہے انڈیا کے ساتھ،کشمیر کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا،مسئلہ کشمیر کا تعلق کشمیریوں سے ہے، یہ انڈیا اور پاکستان کی لڑائی نہیں ہے،میڈیا میں ایسے ایسے سلوشن پیش کئے گئے کہ ہر سلوشن انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت ہی ہے اس میںآج تک کشمیریوں کو شامل ہی نہیں کیا،جب تک آپ کشمیریوں کو شامل نہیں کریں گے تو آپ مسئلہ کیسے حل کرسکتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ جب تک ریاست ایک آزاد پارلیمنٹ نہیں چلائے گی تو نہ پاکستان کے مسئلے حل ہوں گے نہ کشمیر کے مسئلے حل ہوں گے،ہندوستان جو کرتا ہے وہ الگ کہانی ہے۔ انہوں نے5اگست2019کے بھارتی اقدام کے حوالے سے کہا کہ کئی لوگ جانتے ہیں کہ کون کون سے پاکستان کے طاقتور لوگ کشمیر کو بیچنے کے چکر میں تھے، اس وقت ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے یہ میڈیا نے حل کرنے نہیں دیا،اس وقت عمران خان صاحب وزیر اعظم تھے۔ حامد میر نے کہا کہ کرتار پوری راہدری کھولی گئی، بیک چینل سے بات چیت شروع کر دی،اس کے نتیجے میں یہ ہونا چاہئے تھا کہ کشمیریوں کو ریلیف ملتا،پھر انہوں نے سیز فائر کر دیافروری 2021میں لیکن کشمیریوں کو اس کا کوئی ریلیف نہیں ملا،دس پندرہ صحافیو ں کو جمع کر کے کہا گیا کہ ہندوستان کے پاس جو کشمیر ہے وہ ہندوستان کے پاس رہے جو پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کے پاس رہے،یہ کوئی سلوشن ہے یا دھوکہ ؟ حامد میر نے کہا کہ وہ صاحب جنرل باجوہ صاحب تھے،یہ ساری باتیں انہوں نے ّآرمی چیف کی حیثیت سے کیں، کشمیر پہ میڈیا کا کردار شرمناک ہے لیکن حکومت پاکستان کا کردار شرمناک ترین ہے۔



کشمیری صحافی طارق نقاش نے کہا کہ پاکستانی میڈیا اور ہمارے درمیان دوریوں کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس ہمارا تعارف بھی نہیں تھا اور یہاں ہمارے نام بھی غلط لئے گئے جبکہ ہم تین تین دھائیوں سے کام کر رہے ہیں۔پاکستان کے میڈیا کاکشمیر پہ کردار نہ ہونے کے برابر ہے،کشمیر ہمیں پاکستانی میڈیا میں5فروری اور اب 5اگست کو نظر آتا ہے اور یہ میڈیا کی کمٹمنٹ کی وجہ سے نظر نہیں آتا بلکہ یہ انہی لوگوں کے ڈنڈے کی وجہ سے نظر آتا ہے، وہ جب کہتے ہیں تو خبر نظر آتی ہے ورنہ کوئی توجہ نہیں ہوتی،میڈیا کی مقبوضہ کشمیر سے دلچسپی کو جاننے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا کی آزاد کشمیر سے دلچسپی دیکھ لیں،کتنے پاکستانی میڈیا اداروں کے آزاد کشمیر میں ویل پیڈ کارسپونڈنٹس ہیں؟ کتنے پاکستانی میڈیا ادارے ہیں جنہوں نے یہاں بیورو آفس قائم کئے ہیں؟کئی بڑے پاکستانی اخبارات ہیں جو آزاد کشمیر کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے اشتہار بھی لیتے ہیں ،کشمیر کی آپ کے نزدیک یہ حیثیت ہے۔طارق نقاش نے کہا کہ میرا اپنا تعلق سرینگر ڈائون ٹائون سے ہے، میرے والد وہاں سے ہجرت کر کے آئے، میں ایک مرتبہ سیفما کے ساتھ اور ایک مرتبہ بس سروس سے بھی وہاں گیا، مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایسے انڈین اخبارات جن کو وہاں سے اشتہار بھی نہیں ملتے، ان کے بھی وہاں ویل پیڈ کارسپوڈنٹ موجود ہیں،انڈیا کے ہر اشاعتی ،نشریاتی ادارے کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں کارسپونڈنٹ موجود ہے،دوسری طرف یہاں یہ صورتحا ل ہے کہ آپ مظفر آباد کو اہمیت ہی نہیں دیتے، ہمارے ایک وزیر اعظم کہتے رہے کہ پاکستانی میڈیا کے پاس ہمارے لئے ایئر سپیس ہی نہیں ہے،کشمیری کیا سوچتے ہیں،یہ وے فاروڈ کیا دیکھتے ہیں، ان کے احساسات کیا ہیں، اس کو کبھی جگہ نہیں ملتی ،پاکستانی میڈیا آزاد کشمیر میں قدرتی آفات کی خبر تو دیتا ہے لیکن کشمیریوں کی سوچ ، ان کے احساسات کی خبر نہیں دیتا کہ اس خطے کی کیا مرضی ہے،یہ کیاچاہتا ہے اپنا حل،پاکستان کے آئین کا آرٹیکل257کہتا ہے کہ کشمیری ہی یہ طے کریں گے کہ ان کے پاکستان سے تعلقات کس طرح کے ہوں گے لیکن ہمیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے یہاں، آپ کے میڈیا میں ریٹننگ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،آپ کے لئے اہم یہ ہے کہ مطیرہ نے چنٹ والی شلوار پہنی ہے یا سادہ شلوار، فلاں اداکار کا افیئر کس سے چلا، کراچی میں بلی پائپ میں پھنس گئی یہ آپ کے لئے اہم ہے یہ آپ کی بریکنگ نیوز ہے اور مقبوضہ کشمیر میں5بچے محاصرے میں آ جاتے ہیں، ایک بچہ باپ کو فون کرتا ہے،باپ بیٹے کو کہتا ہے کہ بیٹا میں آپ پہ قربان جائوںبیٹے سرینڈر نہیں کرنا اور بیٹا باپ سے پوچھتا ہے کہ ابو مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو گی، اس نے کہا نہیں تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ، اس نے کہا نہیں تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور اگلی صبح وہ پانچ بچے مارے گئے، آپ کے میڈیا کے پاس جگہ تھی ان کی خبر دینے کی؟وہ کشمیری جو آپ کے لئے مرتے ہیں، میں سرینگر گیا تو کشمیریوں کو شکوہ تھا کہ ہم نے دس دس لاکھ کے جلوس نکالے اور پاکستان کے میڈیا نے ہمیں کوریج نہیں دی،انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارا شکوہ پہنچا دیں، میں نے کہا کہ ہم بہت چھوٹی سے جگہ پہ ہیں ہماری اتنی شنوائی وہاں نہیں ہے،کتنا ان کا دل دکھتا ہے، میں نے ان سے وہاں سرینگر سے اپنے دوست بی بی سی کے کارسپوڈنٹ سے پوچھا کہ یہ جو پاکستان کا میڈیا آپ کے ساتھ کر رہا ہے اس کے بعد تو کشمیریوں کا دل پاکستان سے بھر گیا ہوگا، تو اس نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے دل سے نہیں نکلتا ،وہ آپ کے لئے کیا کرتے ہیں اور آپ ان کے لئے کیا کرتے ہیں۔



کشمیری صحافی عارف بہار نے کہا کہ ہم علی گیلانی صاحب کی اگر علامتی حیثیت کی بات کر رہے ہیں، ان کی شخصیت کی بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب پوری تحریک ہے،تو پوری طرح بلیک آئوٹ رہاان کی شخصیت کا ، ان کے خیالات کا، اس لئے کہ وقت کا دھارا بدل گیا تھااور ہماری ترجیحات بدل گئی تھیں،سچ یہی ہے جو اس وقت یہاں بولا جا رہا ہے،المیہ یہ ہے کہ ہماری ریاست ڈول رہی ہے،ڈگمگا رہی ہے،ہماری ریاست مضبوط بنیادوں پہ کھڑی نہیں ہے اور کشمیری جس ریاست پہ تکیہ لگائے بیٹھے ہیںاس ریاست کا اپنا حلیہ بگڑ گیا ہے کہ اس کا سر پیر ہی نظر نہیں آ رہاتو کشمیر شکوہ کرے تو کس سے کرے، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن،وہ اپنا ہی نہیں ہے تو کشمیری کا جو شکوہ ہے وہ بے جا ہے، کشمیری نے شکوہ کرنا چھوڑ دیا ہے، میں دیوائیڈڈ فیملی کا یک رکن ہوں، میرے والد بھی 1947میں آئے اور ہم نے یہاں بڑی مشکل صورتحال میںزندگی کا آغاز کیا ، وہاں کی نئی نسل نے پاکستان سے شکوہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ آج جو پاکستان کی تصویر نظر آ رہی ہے، یوں بھی کشمیری بڑی باوقار قوم ہے،بڑی جرات مند قوم ہے،خود انحصاری پہ یقین رکھتی ہے اور چھ چھ مہینے وہ محاصرہ برداشت کرتی ہے تو وہ اس کی خود انحصاری ہوتی ہے،اس میں مزاحمت کی طاقت ہوتی ہے،خود انحصاری کی طاقت ہوتی ہے، اب رفتہ رفتہ، گرد و پیش کی جو کہانیاں تھیں، افسانے تھے ، جو رومانس تھاجو گلیمیرائیزکیا گیا تھا تمام صورتحال کو،ہماری بزرگوں کی نسل کو جس صورتحا ل میں یہاں آئی ، تو وہ اس سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اب اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے مرحلے میں اور اس راہ پہ ا ب چل رہی ہے نسل ، اس کو اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کو جو نقشہ بن رہا ہے جو حلیہ بگڑ رہا ہے، جو پاکستان کی آج تصویر بن رہی ہے وہ حوصلہ افزا نہیں ہے اس سے وہاں کے لوگوں کی بھی دل آزاری ہوتی ہے، لوگ ہم سے پوچھتے ہیںکہ یہ کیا ہورہا ہے پاکستان میں،کشمیر میں پہلے ہی مایوسی ہے جو 5اگست2019کے بعد جو بساط لپیٹ دی گئی اس نے کشمیر کے مسئلے کی ڈائینیمکس کو تبدیل کر دیا ہے،یعنی آپ کے قدموں تلے سے پوری قالین ہی کھینچ دی گئی ہے،آج جو ہم چار سال کے بعد بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ میڈیا پالیسی کیا ہونی چاہئے، میڈیاپالیسی کیا ہے توآج ہمیں یہ مرحلہ درپیش ہے کہ کرتا ہوں جمع جگر لخت لخت کو ، کہ آج ہم نے صفر سے اپنے سفر کا اآغاز کیا ہے۔



واحد اقبال بٹ نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب ریڈیو کی دنیا تھی،ریڈیو کو بڑا سنا جاتا تھااوراس کے بڑے اثرات ہوا کرتے تھے،سوشل میڈیا نے ہمارے پاکستان کے میڈیا کو بے نقاب کر دیا ہے،جو چیزیں یہ ہمیں دکھا رہے ہوتے ہیں بتا رہے ہوتے ہیں لیکن سوشل میڈیا ہمیں بتا دیتا ہے کہ کشمیر کے حوالے میڈیا کا کردار شرمناک ہے،آج آپ چیزیں چھپا نہیں سکتے،ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی پیٹرن دیا گیا ہو کہ جس پہ آپ نے بات کرنی ہے جس کے اندر ہی آپ نے رہنا ہے لیکن سوشل میڈیا نے آپ کی یہ چیزیں فارغ کر دی ہیں،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی غلط انفارمیشن دے کر لوگوں کو گمراہ کر دے گا تو میرا نہیں خیال کہ اب قوم گمراہ ہو گی،جو چیزیں آپ چھپانا بھی چاہتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کے سامنے آ جاتی ہیں،آزاد کشمیر، کشمیر کی خبریں پاکستانی اخبارات کی کشمیر ایڈیشن بھی ہی شائع ہوتی ہیں جو صرف ہم ہی پڑہتے ہیں، پاکستان کے لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں،پاکستان کے ایڈیشنز میں یہ خبریں شائع نہیں ہوتیں۔

مظہر عباس نے کہا کہ کئی سال پہلے یاسین ملک نے اسلام آباد میں کہا تھا کہ پاکستان میں کشمیری کی کوریج اتنی ہی ہوتی ہے جتنی انڈین پیپرز میں ہوتی ہے،آپ کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں کشمیرکی کوریج نہیں ہوتی، پاکستانی میڈیا میں پاکستان کی کوریج نہیں ہوتی،جو صحافی خبر کا پتہ چلاتا ہے وہ لاپتہ ہو جاتا ہے،ایسے ہی نہیں 120صحافی مارے گئے،یہ آج کی ہی بات نہیں، قیام پاکستان کے فورا بعدپاکستان نے ان سارے قوانین کو اپنا لیاجن سے آزادی اظہار پہ پابندی لگتی ہو،سیکورٹی ایکٹ اٹھا لیں، آفیشل سیکورٹی ایکٹ اٹھا لیں،124Aاٹھا لیں،بغاوت کے قوانین اٹھا لیں، وہ سارے قوانین جو انگریزوں نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بنائے تھے وہ ہم نے اپنے ملک میں سیاسی اور صحافتی آزادی کو کچلنے کے لئے اپلائی کئے ہیں،کشمیر تو بہت بڑا اشو ہے،پاکستان میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پہ کیوں پابندی لگی تھی؟کیونکہ کشمیر کے حوالے سے اس نے ایک میپ چھاپ دیا تھااس نے،اس کے بعد اس نے اس پہ معذرت بھی کی، اپنے دہلی کے کارسپونڈنٹ کو برطرف بھی کیااس کے باوجود پاکستان کے سارے اخبارات نے ایک جائنٹ ایڈیٹوریل لکھاجس کے تحت اس اخبار پہ پابندی لگا دی گئی،اس زمانے میں ایک بہت بڑے صحافی راجہ اصغر صاحب نے اخبار میں کشمیر کے حوالے سے کوئی کوریج دی تھی،ان کو اٹھایا گیا، ا ن سے کہا کہ ہمیں اس کا سورس چاہئے،انہوں نے سورس بتانے سے انکار کیا،ان کو تین سال کی سزا ہوئی، ان کو سخت سردیوں میںٹھنڈے پانی کے ڈرم میں ڈال دیا گیا،پاکستان میں جو جرنلزم ہوئی ہے،میڈیا کا شرمناک کردار ایک جگہ ہے،یہ کشمیرکے صحافی بیٹھے ہیں یہ پاکستان کے صحافی بیٹھے ہیں دونوں کی بورڈ آف امپلائمنٹ ایک ہی طرح کی ہے،سچ صرف اتنا ہی بولوجتنا میں تمہیں بتائوں،وہی سچ ہے جو میں بتاتا ہوں، جو سچ میں جانتا ہوںوہ سچ نہیں لکھا جا سکتا،جو سچ میں جانتا ہوںوہ سچ نہیں بولا جا سکتا،جو بولتے ہیں وہ غائب ہو جاتے ہیں، وہ مارے جاتے ہیں، وہ حیات اللہ ہو، وہ سلیم شہزاد ہو، وہ ارشد شریف ہو،وہ ولی خان بابر ہو،ایک لمبی فہرست ہے،اشو کشمیر کی کوریج کا نہیں ہے،پاکستان کی جرنلزم مجموعی طور پر ہی سیڈ شی سیڈ کی جرنلزم رہی ہے،سوائے بیانات کے، اسی فیصد ،پچاسی فیصد، پاکستان کے ٹیلی وژن اٹھا لیں،اخبارات اٹھا لیں ،بیانات کے سوا صحافت ہوتی ہی نہیں ہے۔



وسعت اللہ خان نے کہا کہ آپ نے کہا کہ یہاں کوئی کارسپوڈنٹ نہیں ہے کسی بھی بڑے اخبار کا،اسی لئے انہیں پتہ بھی نہیں چلتا یہاںکہ زندگی کی حقیقت کیا ہے اور ہم کیا سوچ رہے ہیں،دیکھیں ہمیں ضرورت نہیں ہے آپ کو جاننے کی ،اور آپ ہیں کون؟ہم کہتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑادشمن ہے انڈیا،مجھے کوئی یہ بتا دے کہ دلی میںپاکستانی میڈیا کے کتنے کارسپونڈنٹ کب تھے،آخری جو کارسپونڈنٹ تھاجنگ کا عبدالوحیدحسینی تھا ان کو بھی انتقال ہوئے پچیس سال ہو چکے ہیں،آپ کے سماج کی ایسی تیسی افغان خانہ جنگی نے کر دی،کابل میں آپ کے کس اخبار یا چینل کو کوئی کارسپونڈنٹ ہے؟چین آپ کا سب سے بڑا یار ہے کس چینل یا اخبار کا بیجنگ میں کارسپوڈنٹ ہے؟ایران آپ کا سٹریٹیجک ہمسایہ ہے،بنگلہ دیش میں کب کورسپونڈنٹ رہے؟ہمارے جو ہمسائے جو 75سال سے ہماری قسمت پہ اثر انداز ہو رہے ہیں،جب ان کے بارے میں ہمارا یہ روئیہ ہے تو آپ کون ہوتے ہیں ایک چھوٹی سے پٹی لیکرآپ بیٹھے ہوئے ہیں کشمیرکی،آپ ہیں انڈسٹری،اس انڈسٹری کے ساتھ کشمیرکمیٹی،فاروق عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور آزادکشمیر میں جتنی بھی پولیٹیکل کلاس ہے اس کا روزگارجڑا ہوا ہے،تو میرے پیٹ پہ میں خود لات کیوں ماروں گا،اس مسئلے کے بارے میں کوئی آئو ٹ آف باکس سلوشن، اپنے دماغ کو زحمت دینے کے لئے کہ یہ سلوش نہیں تو یہ کر کے دیکھ لو،کیوں؟ یہ تو میری روزی روٹی کا سوال ہے،پیٹ کا سوال ہے،میری گاڑیاں لگی ہوئی ہیں، میرے الائنسز لگے ہوئے ہیں،90فیصد مجھے مرکز سے بجٹ مل رہا ہے،اور مرکز جو ہے وہ بریڈ فورڈ میں جا کر کشمیریوںکو مسئلہ کشمیر سمجھا رہا ہے۔

اس موقع پر ہال میں موجود طلبہ نے تالیوں کے ساتھ نعرے بازی شروع کردی، یہ وطن ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے،کشمیر کافیصلہ ہم کریں گے، اس پار بھی لیں گے آزادی، اس پار بھی لیں گے آزادی۔عاصمہ شیرازی نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن طلبہ نے نعرے بازی جاری رکھی، ہے حق ہمارا آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی۔عاصمہ شیرازی نے درخواست کی کہ اسے جلسہ نہ بنائیں، یہ جلسہ نہیں ہے یہ گفتگو۔ مسلسل نعرے بازی پہ وسعت اللہ خان نے کہا کہ میں اٹھ جاتا ہوں اور جانے کے لئے کھڑے ہو گئے، ساتھ ہی حامد میر بھی جانے کے لئے اپنی نشست چھوڑ کر سٹیج سے جانے لگے، وسعت اللہ خان نے کھڑے ہو کر عاصمہ شیرازی سے مائک لیکر کہا کہ اگر آپ کسی سوچے سمجھے ایجنڈے کے ساتھ آئے ہیں اور ہمیں نہیں سننا چاہتے تو ہم چلے جاتے ہیں۔وسعت اللہ خان اور حامد میر جانے لگے تو طارق نقاش اور عارف بہار نے ان سے بیٹھنے کی درخواست کی۔وسعت اللہ خان کھڑے کھڑے مائک پہ کہا کہ آپ جذباتی ہو جائیں جیسا کہ آپ75سال سے جذباتی ہیں ہم آپ کے ۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے صرف نعرے لگائے ہیں عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ وسعت اللہ خان نے کہا کہ اور کوئی نعرے لگانے ہیں تو لگالیں۔ عاصمہ نے کہا کہ ہم نے نعرے نہیں لگانے ہم نے کام کرنا ہے تاکہ ہم کشمیر کی بات کو پوری دنیامیں پھیلا سکیں بات کر سکیں اور اپنی خامیاں بتا سکیں، نعرے تو آپ سارا دن لگاتے رہیں گے لیکن کشمیر کا مسئلہ اس سے حل نہیں ہو گا، آپ کے جذبات کی قدر ہے لیکن جب آپ کا پین بولتا ہے پھر آپ کے نعرے نہیں لگتے،یہ قلم کی جنگ ہے،اس میں آپ نعرے نہیں لگا سکتے اس میں آپ نے قلم سے جنگ لڑنا ہے۔ نعرے لگانے والوں کی تکرار پہ وسعت اللہ خان نے کہا کہ بیٹا اگر آپ نعرے لگا کر کشمیر آزادکرا سکتے ہیں تو پلیز اور نعرے لگا لیں،لگائو۔



وسعت اللہ خان نے اپنی گفتگو دوبارہ بحال کرتے ہوئے کہا کہ میں وہاں تک پہنچا تھا کہ کشمیر ایک انڈسٹری ہے تو پھر انڈسٹری بیچ میں ہی ہائی جیک ہو گئی،ہم جو کہتے ہیں کہ کشمیر کا ہمارا بیانیہ بڑا سیدھا سیدھا ہے،ایک ریاست کی کشمیر پالیسی ہے،جو Prescribedہے،ہمیں اسے صرف ٹک کرتے چلے جانا ہے،اس میں متبادل بیانیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ان نوجوانوں کو جو اتنے جذباتی ہیں ، انہیں کے ایچ خورشید کے بارے میںکتنا معلوم ہے،کشمیر کے اس خطے کے جتنے بھی لیڈر ہیں،میرے خیال میں وہ سب سے جینوئن آدمی تھا،اس کے ساتھ کیا ہوا یہ بھی آپ جانتے ہوں گے،وہ آزاد کشمیر کا صدر رہا،اس نے ایک آئوٹ آف بکس سلوشن پیش کرنے کی کوشش کی کہ آپ کیوں تھک رہے ہیں، آپ ایکexile Governmentکے طور پرہم سے ڈیل کریں،ہم اپنا کیس انٹرنیشنل فورم پہ لے کر جاتے ہیں، آپ صرف ہماری اخلاقی مدد کریں، لیکن ہمیں چونکہ بچپن سے ہر مسئلے میںماما بننے کا شوق ہے،ہم نے کہا کہ نہیں،تمہیں کیا پتہ کہ تمہیں کیا چاہئے،ہم تمہیں بتائیں گے کہ تمہیں کیاچاہئے،یہ ہے پورے75سال کی کشمیر پالیسی، اور جب جب بھی ماما جی نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو کشمیر کا مسئلہ مزید بیس سال پیچھے چلتا چلا گیا،48-49دیکھ لیں،65دیکھ لیں،کرگل دیکھ لیں، اس سے پہلے90کی جدوجہد، اس میںجہادی عناصر کو جس طرح متعارف کرایا گیا،میں ان خوش قسمت صحافیوں میں سے ہوں جنہوںنے2009میںمقبوضہ کشمیر میں بیس دن گزارے،میں نے شہداء کا قبرستان دیکھا،مقبول بٹ یہیں سے تو گیا تھاکیوں گیا تھا یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے، اور آج بھی شہداء کے قبرستان میںایک خالی قبر ہے اور اس پہ لکھا ہوا ہے مقبول بٹ شہید،اس کی لاش کا انتظار ہے کہ کبھی تو آئے گی،کبھی وہ اپنی مٹی میں دفن ہو گی،میں نے دو دن لگائے اس شہداء قبرستان میں، ففٹی پرسنٹ قبریںپندرہ سال سے لے کر تیس سال کے جوانوں کی تھیں اور ان کے لوح مزار پہ کیا لکھا تھاقبر کے پتھر پہ،محمد ذیشان عمر انیس سال تعلق بہاولنگر پاکستان،تعلق لودھراں پاکستان، تعلق مظفر گڑھ پاکستان،تعلق کھاریاں پاکستان، مسئلہ یہ ہے کہ نتیجہ کیا نکلاکہ مشرف صاحب کو آئوٹ آف بکس چیزیں دینا پڑیں، اگر یہی آئو ٹ آف بکس چیزیں کوئی سویلین سیاستدان دے تو وہ تو سنگسار ہو جائے،جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ اگر ہندوستان میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوئی مجاز ہے تو وہ بی جے پی ہے اور اگر کوئی پاکستان میں مسئلہ کشمیر حل کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے اس کے علاوہ کوئی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا، وہاں کی جو صحافت ہے ظاہر ہے کہ پابہ زنجیر ہے اس میں کوئی شک نہیں اور بالخصوص5اگست2019کے بعد سے وہاں آپ چوں بھی نہیں کر سکتے بالکل، لیکن ہم لوگ زیادہ بڑے فنکار ہیں، ہم نے صحافت کو پابہ زنجیر نہیں کیا، ہم نے صرف ان کے سامنے سے زنجیر گزار دی،کافی تھا۔

اختتامی کلمات میں حامد میر نے کہا کہ گیلانی صاحب کے ساتھ آخری دنوں میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات جو خراب ہوئے تھے،اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے اس حل پہ ان کا ساتھ دینے کو تیارنہیں تھے جس کا مقصدیہ تھا کہ لائین آف کنٹرول کو مستقل بارڈر تسلیم کر لیا جائے لیکن اس میں علی گیلانی صاحب اکیلے نہیں ہیں،علی گیلانی صاحب، یاسین ملک صاحب، میر واعظ عمر فاروق اوران کے دیگر ساتھی ، ان کے آپس میں نظریات مختلف تھے لیکن وہ کشمیرکی آزادی کے نکتے پہ متفق ہو گئے،علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ کا اکٹھا ہوناانڈیا کے لئے ایک بہت بڑا سیٹ بیک تھا ، اور یہاں پہ جو لوگ آپس میں لڑتے ہیں یہ ان کے لئے ایک سبق بھی ہے کہ وہ اگر سارے کے سارے دلی میں بند ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ان کے ساتھ ظلم وستم ہو رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس تمام ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد پیدا کر لیا،ان تینوں کا اتحاد انڈیا کے لئے ایٹمی دھماکے سے بڑا مسئلہ بن گیا تھا،یہاں پہ بھی ایسا اتحاد بنانے کی ضرورت ہے، گیلانی صاحب کو جو آخری پیغام مجھے آیا تھا وہ یہی تھا کہ ڈونٹ ٹرسٹ باجوہ، لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پالیسی اب نہیں ہے،یہ نوجوان جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ صبح بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں، ان کو سیلفیاں کھچوانے کاشوق ہے میں ان سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا،میں نے ان سے کافی باتیں کی ہیں، یہ ہمارے پاکستان کے اس ایج گروپ کے بچوں سے بہت آگے ہیں، میں مطمئن ہوں کہ آپ کو دھوکا کوئی نہیں دے سکتا، آپ سے آپ کی کوئی چیز چھین نہیں سکتا کیونکہ آپ کے پاس شعور ہے لیکن اتحاد نہیں ہے آپ کے پاس،اس اتحاد کا آپ نے مظاہرہ کرنا ہے، یہاں پہ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر بیٹھے ہوتے،ان کے دائیں بائیں حکومت اور اپوزیشن بھی بیٹھی ہوتی اور ان پارٹیوں کے نمائندے بھی بیٹھے ہوتے جو آزاد کشمیر کی قانون اسمبلی میں نہیں ہے یا یہاں جو نعرے لگا رہے ہیں ان کے بھی نمائندے بیٹھے ہوتے تو یہ ایسی مثبت خبر ہوتی کہ پاکستانی میڈیا کی یہ جرات کہ وہ اس خبر کو نظر انداز کرے،تو آپ تھوڑا اتحاد کا مظاہرہ کریںپاکستانی میڈیا خود آپ کی خبریں نشر کرے گا۔



طارق نقاش نے اختتامی کلمات میں کہا کہ کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کو شکست دے کر پاکستان کو مضبوط کریں گے ،بھلے ان کا الحاق ہو یانہ ہولیکن انڈیا اس سے کمزور ہو گا،یعنی وہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، تو جو مصائب اور مشکلات ان پہ پیش آتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھی شعبان وکیل سے شجاعت بخاری تک صحافیوں نے بھی جانیں دی ہیں،وہاںآج بھی چھوٹی چھوٹی سوشل میڈیا پوسٹ پہ تھانوں میں بلا کر انہیں ہراساں کیاجا تا ہے، دنیا ان کو بلاتی ہے ان کے کاموں پہ ایوارڈ دینے کے لئے لیکن ہندوستان ان کو جانے سے روک دیتا ہے،مقبوضہ کشمیر میں صحافی فہد شاہ،آصف سلطان بند ہیں، ہم ایک کشمیری کی حیثیت سے پاکستان کے میڈیا سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے پوپولر پروگرام ہیں ، سوشل میڈیا پہ آپ کے پروگرامز کی ملینز میںفالونگ ہے، اگر ٹی وی چینل آپ کو اجازت نہیں دیتا تو خدارا اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے اپنے کشمیری بھائیوں کو آپ یاد رکھیں،آزاد کشمیرمیں کم از کم ایک لاکھ یہاں ملازم ہیں، ہم چترال ضلع سے کم ہیں اور گجرات ضلع سے آبادی میں کم ہوں گے لیکن اتنی بڑی مشینری رکھنے کا ہمارے سیاستدان ہمیں ایک ہی مقصد بتاتے ہیں کہ یہ تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے،اس پہ کوئی کٹ لگنے کی بات آئے تو تحریک آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے،میڈیا کے لئے بھی ایک ایونٹ کریٹ کرنا پڑتاہے،مسلم لیگ ن والے اگر مریم نوا ز آ جائے تو د س ہزار افراد لے کر آ جائیںگے،دوڑ لگ جائے گی سب کی کہ ہم اپنے لیڈر کے سامنے اپنے نمبر بنائیں، بلاول بھٹو آئیں گے تو پیپلز پارٹی والوں کی دوڑ لگ جائے گی کہ بیس ہزار افراد ہونے چاہئیں،عمران خان آئیں گے تو پی ٹی آئی والوں کی دوڑ لگ جائے گی، لیکن جب کشمیر میں کوئی سانحہ ہوتا ہے تو پارٹیاں دس افراد نکال کر نہیں لاتی ہیں، اسی لئے انٹرنیشنل میڈیا ان کو کور نہیں کرتا،5اگست2019کا واقعہ ہوا ،یہاں کی حکومت اگرچاہتی تو ایک لاکھ لوگوں کو جمع کرتی، اس وقت الجزیرہ کے پاکستان میں کمال صاحب ہیں،ان کو اپنے چینل نے ہیلی کاپٹر اتھارائیز کر دیا کہ مظفر آباد میں بہت بڑا مظاہرہ ہو گا،ہیلی کاپٹر سے کور کرنا،ہم یہاں دس بندے نہیں نکال سکے، ہمارے سیاستدان تحریک آزادی کشمیر کی خیرات کھا رہے ہیں، تو مہربانی کر کے آپ اس کا خیال کریں، اپنے حصے کا کردار ادا کریں ، اس کے بعد کسی اور پر الزام لگائیں۔مظہر عباس نے کہا کہ اب ضرورت ہے ذہنی انقلاب کی ،پاکستان میں بھی اور آزاد کشمیر میں بھی ،جس دن آپ ذہنی انقلاب لے آئے آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے اور کشمیر آزاد ہو جائے گا۔

ایک گھنٹہ جاری رہنے والی اس تقریب میں کشمیر، مسئلہ کشمیر، پاکستان اور آزاد کشمیر کے کردار و صورتحال کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی اور شرکاء نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔طارق نقاش ، عارف بہار اور واحد بٹ نے کشمیری صحافیوں کی بہترین نمائندگی کی بالخصوص طارق نقاش نے کھل کر کشمیر کے مختلف پہلوئوں سمیت آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے کردار اور صورتحال کا احاطہ کیا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ کشمیریوں کی نمائندوں آوازوں کو نظر انداز کرنے، پس پشت ڈالنے میںآزاد کشمیر حکومت کا بھی بڑا کردار ہے جو اپنے مفادات میں محدود اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں چراتی چلی آ رہی ہے۔ فیسٹیول کی انتظامیہ اور آزاد کشمیر حکومت نے اس اہم تقریب میں شرکاء کی شمولیت کا کوئی احساس ، خیال نہیں کیا، صرف پہلی صف میں مناسب شخصیات موجود تھیں جبکہ باقی سب جذباتی انداز رکھنے والے افراد موجود تھے۔ اگر اس تقریب میں شرکاء کے معیار کا احساس و ادراک کیا جاتا تو یہ تقریب مزید بہتر، پر وقار اور موثر ہو سکتی تھی۔

یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ جو تنقید کرتا ہے اس میں تنقید برداشت کرنے کا بھی حوصلہ ہونا چاہئے، حامد میر صاحب، وسعت اللہ خان صاحب ، مظہر عباس صاحب ، عاصمہ شیرازی صاحبہ نے اپنے پروگراموں میں کب کشمیریوں کی آواز کو نمائندگی دینے کی کوشش کی ہے؟ اگر کبھی کبھار اپنے پروگراموں میں آزاد کشمیر کی کسی سیاسی شخصیت کو بلایا بھی تو وہ اپنی سیاسی مجبوریوں میں محدود رہنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ہمارے پاکستانی صحافی کشمیر سے متعلق پروگراموں میں خود کو ہی کشمیریوں کی نمائدگی کے لئے کافی سمجھتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ معروف کشمیری صحافیوں سے ہی بے خبر، لاتعلق ہیں۔

تقریب کی وڈیو کا ویب لنک https://www.youtube.com/watch?v=Z6bc3TEu8BI

اطہر مسعود وانی
03335176429
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699347 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More