ہندوستان کے تاناشاہ وزراء میں
سے ایک نریندر مودی کو اپنے کئے پر شاید شرمندگی ہو رہی ہو ، جس کا وہ
برملا تو اظہار نہیں کر سکتے ۔البتہ عدالت عالیہ سے ملی مہلت کو وہ دوسرا
رنگ دے کر اسی بہانے ”اپواس “کر رہے ہیں جو کہ شاید گجرات سانحہ پر اظہار
شرمندگی ہے۔معاملہ چاہے کچھ بھی ہو ، وہ عوام کی آواز کو تو دباسکتے ہیں ،
پارٹی کارکنان ان کا مرتے دم ساتھ دے سکتے ہیں ،ان کی ہر ہاں ِمیں ہاں
ملاسکتے ہیں ،ممکن ہے عدلیہ بھی جانبدار ہوجائے ،لیکن ایک آواز جو ضمیر کی
آواز ہے ،جسے نہ تو پھٹکار سکتے ہیں ،نہ ڈرادھمکا سکتے ہیں ، بلکہ اس کے
الٹ ان کا ضمیر انہیں لعنت ملامت کرے گا، تنہائی میں انہیں کوسے گا۔ ہاں !
اگر ضمیر کی عدالت بھی مردہ ہوگئی ہوتو پھر مودی جی کے تعلق سے کچھ بھی حسن
ظن رکھنا حماقت ہی ہے ۔ اب دیکھئے ! گجرات فساد سانحہ ہو ا، مودی کے ایک
اشارے پر ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقے کی نسل کشی کی گئی ، ان کی معیشت کو
تباہ کیا گیا ،عبادت گاہیں پھونک دی گئیں ،اور عوام کے دل میں خوف و دہشت
اس قدر بھر دیا گیا کہ 10 سال بعد بھی عوام اسی خوف اور کشمکش والی حالت
میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی مودی جی کو احساس ندامت نہیں ، اور وہ خود کو صاف
شفاف بتلاتے ہیں ، اور چوٹ کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ ”سپریم کورٹ کے اس فیصلے
سے اتنا تو خلا صہ ہو گیا کہ مجھ پر لگائے گئے الز امات بے بنیاد ہیں
،10برس سے مجھے اور گجرات کو بدنام کرنے کا فیشن چل پڑا ہے ، دشمنی کو
دشمنی کے ذریعہ ختم نہیں کیا جاسکتا ،امن بھائی چارے کیلئے 3دن کا فاقہ
کرنا ہے،’سد بھاﺅنا مشن‘میں نے شروع کیا ہے “۔ یہ قول سپریم کورٹ کے آئے
فیصلہ کے بعد نریندر مودی کے ہیں ۔جاری کئے گئے ان کے ان بیانات کو پڑھ کر
ہر کوئی انگشت بدنداں ہے ،اور سبھوں کو حیر ت صرف اسی با ت پر ہے کہ مودی
نے امن وبھائی چارہ کیلئے ”سد بھاﺅ مشن “شروع کریاہے اور اس ضمن میں وہ 3دن
کا ’اپواس ‘ بھی شروع کرچکے ہیں ۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ”سد بھاﺅ مشن
“ کی بات کرنے والے اس شخص کی زبان یا تحریر سے گجرات سانحہ میں مارے گئے
مظلوم کی ہمدردی میں ایک لفظ بھی ادانہ ہوئے ، بلکہ پوری تحریر اور آج کی
پوری تقریر میں وہ خود کو بے قصور ، انسانیت نواز ، امن وبھائی چارہ
کاپیامبر ہی ثابت کرتے نظر آئے ۔ ان کی تقریر سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ شاید
عدالت کے فیصلے پر انہیں بھی یقین نہیں آرہا ہے ۔ اسلئے باوجود عدالت عالیہ
سے راحت مل جانے کے انہیں اپنی گردن پھنسنے کا ڈرسالگاہواہے۔ اپنے مختلف
بیانات اور چکنی چپڑی باتوں کے ذریعہ سچائی کو ڈھکنے کی ناکام کو شش میں
لگے ہوئے ہیں ۔ باربار امن وامان اور بھائی چارے کی بات کہہ کر گویا وہ
جتلانا چاہتے ہوں کہ ”گجرات فساد میں مسلم قوم کے ساتھ جو کچھ بھی ہو ا اسے
ہی تو بھائی چارہ کہتے ہیں ،اوریہ بھی کوئی بھائی چارہ ہے کہ ایک بھائی
دوسرے بھائی کے حوالے اپنی جان نہ کردے ، ان کی ناجائز خواہش کا احترام
کرتے ہوئے اپنی بہن اوربہو بیٹیوں کی عزت تارتار نہ کروائے ، اپنے معابد کو
پامال نہ ہونے دے“۔اس زاویے سے دیکھیں تو مودی آف گجرات اپنے طور پر حق
بجانب ہیں اور انہوں نے وہی کیا جو ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی بےچارگی
کافائدہ اٹھاتے ہوئے کرنا چاہئے تھا۔ اسی لئے تو مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی
، معابد کوپامال کیاگیا ، بہو بیٹی کی عزت تارتار ہوئی اور معیشت کی کمر
توڑ کر اس موڑ پر لاکھڑاکیا گیا کہ تاحیات اپنی بدحالی کا روناروتارہے
مسلمان۔
سننے میں یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کسی ملزم
کے معاملے کو نچلی سطح کی عدالت کو سونپ دے ۔ ابتداتو ایسے ہوتی ہے کہ پہلے
فردجرم نچلی عدالت میں داخل کیا جاتاہے ۔ پھر جب اس سے فیصلہ نہیں
بنتایادشوار نظر آتاہے تو نچلی عدالت کارروائی کو عدالت عالیہ کے سپرد کرتی
ہے ، تاکہ معاملہ کی صحیح جانچ ہواور فریقین میں سے ہردو کیلئے انصاف کو
یقینی بنایا جاسکے۔ لیکن جب ملک کی سب سے بڑی عدالت ہی کسی مقدمے کی سماعت
سے خود کو الگ کرلے اور مصلحت کو بنیاد بنا کر کارروائی نچلی عدالت کے سپرد
کردے تو یہ یقینی طور پر فکر کامقام ہے ۔ یا تو ہماراملکی آئین فرسودہ
ہوچکاہے یا پھر قوانین کے ہاتھ بھی بعض موقعوں پر بندھ جاتے ہیں ۔ سپریم
کورٹ کے اس فیصلہ پر کوئی اعتراض بھلا کیاہوسکتاہے ۔یہ بڑی عدالت کافیصلہ
ہے اور ان کا ہر فیصلہ ہماری سر آنکھوں پر ۔پھربھی بحیثیت انسان افسوس ہونا
فطری بات ہے ۔ وہ اسلئے کہ ”ملزم کو مہلت ملی مگر وہ اپنے کئے پر شرمندہ
نہیں “، بلکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اپنی جیت قرار دے رہا ہے اور
پروپگینڈہ کر تا پھررہا ہے کہ ”وہ تو اس کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے جو بڑے
پلاننگ کے ساتھ رچی گئی ہے “۔
یہ تو مودی کی اپنی ذہنیت کا کھیل ہے ، مگر کب تک ۔ بکرے کی ماں کب تلک خیر
منائے گی ایک نہ ایک دن تو اسے قصاب کے حوالے ہوناہی ہے ، ٹھیک اسی طرح
مودی کو بھی اپنے کئے کا ہرجانہ بھرنا ہوگا۔ اسلئے کہ یہ قانونی کارروائی
ہے ،کوئی تاش کے پتوں والا کھیل نہیں ، جس کا ماہر ہر بار پھینکے گئے پتوں
کو دھوکے سے اپنے فیور میں کرلیتاہے اور بازی پلٹ جاتی ہے ۔ہاں ! اس مہلت
کومودی کیلئے سنبھلنے کا ایک موقع ضرور کہہ سکتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے اس
فیصلے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ نچلی عدالت ذکیہ جعفری کو کہاں تک انصاف
دلاسکتی ہے ، اور تیستاسیتلواڈ جن کے بوتے ہی ذکیہ جعفری مودی کے خلاف
عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاپائی تھیں ۔ ان کی محنت کیا رنگ لاتی ہے اور وہ
کہاں تک شاطر مودی کا پیچھا کرپاتی ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی کے اور
دیگر کیسیز کی طرح یہ بھی سرد خانہ میں چلاجائے اور تیستا جی دل برداشتہ
ہوکر کیس سے خود کو الگ کرلیں ۔اگر ایساہو اتو مودی کیلئے سپریم کورٹ کا یہ
فیصلہ نیک شگون ہوگا۔ خیر یہ تو وقت ہی بتلائے گاکہ مودی قانون کی آنکھ میں
دھول جھونکنے میں ہمیشہ کیلئے کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر یہ عدالت کی جانب
سے ڈھیل ہے ، جس کا مطلب یہ نہیں کہ مودی آزاد ہوگئے۔ نہیں ! بلکہ پتنگ کی
ڈور کی طرح قانون کی رسی ان جے گلے میں ہر وقت پڑی ہے ۔ بس انتظار ہے تو
وقت کا ، جس دن مودی ہرنی کی چوکریاں بھرتے تھکے شیر کی طرح عدالت کے آہنی
اور سخت پنجے میں دبوچ لئے جائیں گے ۔ پھر وہ لاکھ پھرپھرائیں بے سود ہوگا۔
اس سے قبل کے مودی کی زندگی میں وہ دن آئے وہ اقبال جرم کرلیں ، شاید
سزامیں کٹوتی ہوجائے اور انہیں رحم کی بھیک مل جائے ۔ اس پربھی نہیں مانتے
تو انتظار کریں ایسے وقت کاجب وہ اپنے برے حشر کو شاید نہ دیکھ پائیں ،لیکن
وہ دنیا کیلئے تازیانہ عبرت بن جائے۔ |