چند ہفتے پہلے عمران خان نے
متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین سے فون پر رابطہ کیا۔ اس پر کئی
حلقوں نے اور خصوصاً جماعت اسلامی کے متفقین یا کارکنان نے اس فورم پر کئی
آرٹیکلز لکھے جس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی عمران خان سے مایوسی اور
جماعت اسلامی کی طرف مراجعت کی خوش کن صورتحال بیان کی گئی۔ انہوں نے
کارکنوں کو کچھ اسطرح کا جواب دیا کہ آپ جماعت چھوڑ کر گئے تھے اب نتیجہ
دیکھ لیجئے۔ مگر اب وہ بیچارے واپس آنے والے کارکن کیا کریں کہ جس عمران
خان کو وہ الطاف حسین سے رابطے کے جرم میں چھوڑ کر آئے تھے جماعت اسلامی کے
امیر سید منور حسن صاحب کے اس کے بارے میں خیالات ذرا مختلف ہیں۔
سید منور حسن صاحب کا انٹرویو سلیم بخاری نے وقت ٹی وی کے لئے کیا اور یہ
١۷ ستمبر ۲۰١١ کو نشر کیا گیا۔
سید منور حسن ۔ ویسے تو زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی ذہن رکھنے والے
ایک جگہ اکٹھے ہوں اور میں تو اس حوالے سے عمران خان کو بھی الگ نہیں
سمجھتا اس لیے کہ وہ پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں، یہاں کی عوام کے بارے
میں سوچتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں۔ تواس لیے وہ سارے لوگ جو حب
الوطنی کی بنیاد پر، پاکستان سے محبت کی بنیاد پر، نظریہ پاکستان کے حوالے
سے ایک یکجائی پیدا کر سکتے ہیں ان سب کو جمع ہونا چاہیے۔ ہمارا ایجنڈا بہت
بڑا ہے۔ انتخابات تو ایک ضمنی چیز ہے۔ اصلاً تو سیاسی دائرے میں بھی اور
خالص مذہبی بھی کیوں کہ سیکولر لابیز جو کہ ملک کے اندر یہاں موجود ہیں وہ
کھل کھیل کر حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔
سلیم بخاری ۔ عمران خان کے حوالے سے جس طرح کی گفتگو ہو رہی ہے وہ آپ کے
سامنے ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں اس کو۔ کچھ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کچھ
اپریہینسیوز﴿تحفظات﴾ ہیں، کچھ ایسی گفتگو کرتے ہیں جس سے ڈسکریج ﴿حوصلہ
شکنی﴾ ہو۔ آپ عمران خان کو بحیثیت فینومینا ﴿مظاہر﴾ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا
آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یوتھ ﴿نوجوان﴾ جو کبھی آپ کی جماعت کا بھی مختلف
حوالوں سے حسن ہوتا تھا، قوت ہوتی تھی، وہ اس یوتھ ﴿نوجوانوں﴾ کو ایک پلیٹ
فارم پر اکٹھا کر سکیں گے اور آپ کی جماعت کیا ان کے ساتھ جائے گی؟
سید منور حسن ۔ دیکھیے عمران خان پر جو پرانے یا نئے سیاستدان تنقید کرتے
ہیں ان کو بطور ریمائنڈر ﴿یاد دہانی﴾ کے طور پر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں
کہ ایک آدمی جس کا کہ سیاست سے زیرو تعلق تھا۔ اور وہ جس فیلڈ کا آدمی تھا
اس فیلڈ میں اس نے کچھ کر کے دکھایا۔ اچھا وہ فیلڈ بھی ایسی فیلڈ نہیں ہے
جس سے ہم بہت مغائرت برت سکیں وہ بھی ہماری فیلڈ ہے۔ کھیل کا میدان جو ہے
وہ ہمارا ہی میدان ہے دراصل۔ تو جس شخص کا پورا کیرئیر کرکٹ کے حوالے سے
جانا پہچانا جاتا ہو اور اس نے اس میدان میں کچھ کر کے دکھایا ہو تو اس پہ
تنقید کرنے میں کچھ احتیاط برتنی چاہیے۔ وہ خود اپنے تجربوں سے، ایسا نہیں
ہے کہ وہ پولیٹیکل پارٹیز میں رہا ہو، اس لیے اس نے تو اپنی پارٹی بنائی
ہے، اپنے تجربات سےگذر رہا ہے، اپنے تجربات سے سیکھ رہا ہے۔ اور جو ایشوز
ہیں ان پر ایک دو تین کر کے بات کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لب و لہجہ میرا
کچھ اور ہو اور ان کا کچھ اور ہو۔ اور الفاظ کے انتخاب میں کوئی احتیاط
برتتا ہو اور کوئی احتیاط نہ برتتا رہا ہو۔ یا جملوں کی ساخت کسی کو زک
پہنچاتی ہو یا کسی کو فائدہ پہنچاتی ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان
کا نیشنل پولیٹکیس میں ایک رول ہے۔ اور ایک کردار ہے۔ اور وہ کردار اگر
میٹیریالائز ہو سکے انتخابی فینومینا کے ذریعے تو اس کا فائدہ پاکستان کو
بھی پہنچے گا اور بجا طور پر عمران خان کو بھی پہنچے گا۔ ہم اس کو قریب سے
دیکھ رہے ہیں۔ اور بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں،
کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے انشاءاللہ۔ اور اگر کوئی غلط فہمی ہوئی تو
اس کو رفع بھی کریں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اور
جو ہماری پارٹی ہے اس کے حوالے سے کوئی مس انڈراسٹینڈنگ یا تحفظات وغیرہ
نہیں ہیں۔
اب کی خیال ہے عمران خان کی پارٹی کے سابقہ کارکنوں یا ہمدردوں کا؟
اور اب کیا کہیں گے جماعت اسلامی کے کارکنان ایک ایسی پارٹی کے سربراہ کی
تعریف پر جو کہ الطاف حسین سے رابطے کو جائز سمجھتا ہو اور الطاف حسین کی
تعریف کرتے ہوئے خود رابطے میں پہل کرتا ہو؟
کیا عمران خان کو غدار کہنے والے اپنے آرٹیکلز اور تبصروں کے بارے میں کچھ
وضاحت کریں گے؟
مکمل انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=TGf68gHcDXQ |