حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ ( حصہ سوئم )
(محمد یوسف برکاتی, Karachi)
|
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے معزز یاروں میں نے اب تک تاریخ اسلام کے ایک عظیم اولیاء بزرگ حضرت
جنید بغدادی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی زندگی اور ان کے خوبصورت اقوال سے
مزین واقعات و اعمال کے بارے میں جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کے دو حصے آپ تک
پہنچانے کی سعادت حاصل کی ہے آج الحمداللہ تیسرے حصے کو لیکر حاضر خدمت ہوں
امید ہے اسے پڑھکر آپ کے ایمان میں نہ صرف تازگی آگئی ہوگی بلکہ آپ لوگوں
کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جو اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرلیتا ہے تو
اللہ تعالی بھی اسے وہ مقام عطا کرتا ہے کہ اس کے ذریعے کتنے لوگوں کی بخشش
کردیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا شمار ان
جید اولیاء کرام میں ہوتا یے جنہیں اللہ رب العزت کی عطا سے وہ قدرت حصل
تھی کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں کسی کو بھی راہ راست پر لانے کا ہنر بخوبی
جانتے تھے بلکل اس طرح جیسے ایک دفعہ آپ علیہ الرحمہ ایک مسجد میں تشریف
فرما تھے کہ ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ آپ علیہ الرحمہ کا وعظ
کیا صرف شہروں کی حد تک ہی ہے یا اس کا اثر جنگل میں بھی ہوتا ہے وعظ یعنی
نصیت صرف یہیں تک ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تم کیا کہنا
چاہتے ہو زرا کھل کر کہو ؟ تو اس نے عرض کیا کہ جنگل میں کچھ لوگ بیٹھکر
شراب پینے میں مصروف ہیں لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے یہ بات سن کر
آپ علیہ الرحمہ جنگل کی طرف نکل گئے جب شرابیوں کو دور سے دیکھا تو منہ پر
کپڑا ڈال کر چہرے کو ڈھانپ لیا اور جیسے ہی شرابیوں کے نزدیک پہنچے تو وہ
فرار ہونے کی کوشش کیں بھاگ کھڑے ہوئے آپ علیہ الرحمہ نے انہیں آواز دے کر
روکا کہ تم لوگ کیوں بھاگ رہے ہو میں بھی تم میں سے ہوں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ شہر میں تو ہم
پی نہیں سکتے اس لئے یہاں چھپ کر پینے آئے ہیں تم میرے لئے بھی شراب لائو
یہ سن کر وہ لوگ رک گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس تو شراب ختم ہوگئی اگر
آپ علیہ الرحمہ کہیں تو ہم شہر سے منگوالیتے ہیں تواپ علیہ الرحمہ نے
فرمایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن کیا تم میں سے کوئی ایسا فن
جانتا ہے کہ شراب خودبخود تمہارے پاس پہنچ جائے تو کہنے لگے کہ نہیں ہم میں
سے کسی کے پاس یہ فن نہیں ہے ۔
میرےواجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں سکھاتا ہوں
تم لوگوں کو یہ فن جس کی وجہ سے شراب خودبخود تمہارے پاس آجائے گی اور تم
لوگ اس کا مزہ چکھ سکو گے تو انہوں نے کہا ضرور ہمیں ایسا فن آپ ضرور
سکھائیں تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ تم لوگ پہلے
غسل کرو پاک صاف کپڑے پہنو اور پھر میرے پاس آئو وہ لوگ اس شوق میں جلدی
جلدی غسل کرکے انتہائی پاک و صاف کپڑے پہن کر آپ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں
حاضر ہوگئے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا دیکھو اب تم سب
کھڑے ہوکر دو رکعت نماز نفل ادا کرو جیسے ہی وہ لوگ نفل کی ادائگی کے لئے
کھڑے ہوئے تو آپ علیہ الرحمہ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کرلئے اور اللہ تعالی
کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے کہ یااللہ تو بڑا غفور الرحیم ہے میرا کام یہی
تھا کہ میں انہیں تیرے سامنے کھڑا کردوں اب تیرا اختیار ہے کہ تو انہیں اسی
طرح گمراہ رکھتا ہے یا پھر ہدایت عطا فرماتا ہے ابھی آپ علیہ الرحمہ دعا
مانگنے میں مصروف تھے کہ ان لوگوں کی دلی کیفیت بدلنے لگی اور اللہ عزوجل
نے ان کی کایا پلٹ کر انہیں ہدایت عطا کردی اور وہ نماز سے فارغ ہوکر آپ
علیہ الرحمہ کے سامنے تائب ہوگئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے دیکھا کہ اللہ رب العزت اپنے خاص اور
محبوب بندوں کو کیسی قدرت عطا کرتا ہے اور وہ اس رب العزت کی عطا سے اپنے
طریقے سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ پر لے آتے ہیں حضرت جنید بغدادی
رحمتہ اللہ علیہ کا جب وقت وصال قریب آگیا تو آپ شدید بیمار ہوگئے اس حالت
میں بھی اپ علیہ الرحمہ نے نہ کبھی نماز ترک کی نہ قران کی تلاوت اور نہ ہی
اپنے رب الکائنات کی یاد سے کبھی غافل رہے بیماری کی اس حالت میں ایک دفعہ
آپ علیہ الرحمہ تکیے پر منہ رکھکر نماز ادا کررہے تھے عرض کیا گیا کہ
بیماری کی اس تکلیف میں کچھ رعایت ہے تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں
نے اسی نماز کی بدولت تو اپنے رب کو پایا ہے اسے میں کیسے چھوڑ دوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بلکل اسی طرح جب آخری وقت میں آپ علیہ
الرحمہ قران مجید کی تلاوت فرما رہے تھے تو فرمایا کہ مجھے تلاوت کرنے دو
مجھے میرے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہونے والا ہے اور یوں آپ علیہ الرحمہ
اپنی وصال سے کچھ دن قبل بھی اللہ رب العزت کے ذکرو اذکار میں مصروف رہے
اپنی پوری زندگی کی طرح زندگی کے اخری ایام میں بھی اللہ تعالی کے قرب اور
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حصول میں گزارے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یوں 27 رجب المرجب بروز جمعتہ المبارک 297ھ
بمطابق 11 اپریل 910ء اس دنیا سے یہ عظیم المرتبت ہستی سید الطائفہ ، طائوس
العلماء ، سلطان الاولیاء ، شیخ الاسلام حضرت جنید بغدادی بن شیخ محمد بن
جنید ابو القاسم رحمت اللہ علیہ ہم سے رخصت ہوئے اور آپ علیہ الرحمہ کا
مزار مبارک "شونیزیہ" بغداد معلی میں مرجع خلائق ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب آپ کسی بھی انبیاء کرام علیہم السلام ،
صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیاءکرام اور بزرگان دین کے بارے میں پڑھتے
ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جن کے بارے میں ہم پڑھ رہے ہیں ان کے ابتدائی
حلات کیا تھے اور کس طرح وہ اللہ رب العزت کے قرب سے روشناس ہوئے اور پھر
کس طرح اللہ تعالی نے انہیں وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ آج اہل ایمان
مسلمان ان کا تذکرہ کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں بلکل اسی طرح میں نے
شیخ حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کا وہ عمل جس کی وجہ سے آپ علیہ
الرحمہ کو اتنا بڑا مقام حاصل ہوا ابھی آپ تک نہیں پہنچایا ان شاءاللہ اس
تحریر کے چوتھے اور آخری حصے میں ہم پڑھیں گے کہ آپ علیہ الرحمہ کو یہ مقام
کیسے حاصل ہوا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی سے دعا یے کہ وہ مجھے
حق و سچ بات آپ تک پہنچانے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|
|