حیرت انگیز معلومات

میرے واجب الآحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے معزز یاروں میں گزستہ ایک لمبے عرصہ سے سوشل میڈیا پر موجود اردو کی سب سے بڑی اس ویب سائٹ پر جسے دنیا " ہماری ویب " کے نام سے جانتی اور دیکھتی ہے اپنی مختلف اسلامی موضوعات پر تحریریں لیکر آرٹیکل کے شعبہ کے ذریعے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہوں میں جن موضوعات کو لیکر آتا ہوں ان موضوعات میں میری کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ ہمارے مذہب اور دین کے بارے میں لوگوں کی آگاہی میں اصافہ ہو اور میں یہ کام اللہ رب العزت کی رضا اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کی خاطر کرتا ہوں کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے کسی بھی تحریر کو پڑھکر اگر ایک بھی اہل ایمان مسلمان اپنی زندگی کو صرف اللہ تعالی کے حکم پر عمل پیرا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا کیوں کہ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ " زندگی میں کوئی کام ایسا نہ کرو جس کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو اور نہ ہی آخرت میں اور ایسا کام بھی نہ کرو جس کا دنیاوی فائدہ تو ہو لیکن آخرت میں نہ ہو کام وہ ہی کرو جس کا فائدہ دونوں جہاں میں ہو یا کم از کم آخرت میں ضرور ہو " بس اسی مقصد کو لیکر میں اس کام میں مصروف عمل ہوں آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اپ لوگ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالی مجھے حق بات لکھنے کی اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے اپنے اس نیک مقصد میں نہ صرف کامیابی عطا کرے بلکہ اس میں مجھے ثابت قدمی عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج میں کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز اسلامی معلومات لیکر حاضر خدمت ہوا ہوں جسے پرھکر نہ صرف آپ کی اسلامی معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے گا ۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کی ایک بینک میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے خلیفہ سوئم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کا کرنٹ اکائونٹ آج بھی موجود ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی میونسپل کمیٹی یعنی میونسپلٹی میں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے نام جائداد رجسٹرڈ ہیں اور آج بھی ان کے نام کے پانی اور بجلی کے بل آتے ہیں ؟ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ سارے معاملات کیسے ہوئے آیئے دیکھتے ہیں دراصل ہوا یوں کہ نبوت کے تیرہویں سال جب مسلمان حجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پانی کی بہت قلت تھی مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا اور وہ اپنے کنوے کا پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا اس کنوے کا نام " بئر رومہ " یعنی رومہ کا کنواں تھا ایسے حالت سے پریشان ہونے کی سبب لوگوں نے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی اس پریشانی کا احوال سنایا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں کی بات سن کر اللہ رب العزت کے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ" کون ہے جو یہ کنواں اس یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردے ؟ اللہ تبارک وتعالی اسے اس کے بدلے جنت میں ایک چشمہ عطا کرے گا " حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اس یہودی کے پاس پہنچے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا چونکہ یہ کنواں ایک منافہ بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لئے اس یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہودی کا منفی جواب سن کر حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ایک نئی تدبیر سے اسے راضی کرنے کی کوشش کرنے لگے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم پورا نہیں تو آدھا کنواں مجھے فروخت کردو اس طرح ایک دن پانی میں استعمال کروں گا اور دوسرے دن تم استعمال کرنا یہ سن کر یہودی لالچ میں اگیا اور سوچنے لگا کہ یہ اپنے دن میں پانی مہنگا بیچیں گے اور میرا منافہ بھی زیادہ ہوگا تو وہ مان گیا اور اپنا آدھا کنواں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو فروخت کردیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ کنواں مسلمانوں کے لئے وقف کردیا اور اپنے دن پر مسلمان اپنی ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرتے اور دوسرے دن کے لئے بھی ذخیرہ کرلیتے جس کی وجہ سے اس یہودی کے دن پانی اس سے کوئی خریدنے نہیں آتا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اس یہودی کو اپنے اس کاروبارمیں مندہ دکھائی دینے لگا تو اس نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو باقی آدھا کنواں خریدنے کی بھی پیشکش کردی اور یوں آپ رضی اللہ عنہ نے یہ پورا کنواں کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا اس وقت ایک مالدار آدمی نے حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو یہ کنواں دوگنا قیمت میں خریدنے کی پیش کش کر دی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کئی زیادہ کی پیشکش ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مالدار نے کہا کہ میں تین گنا زیادہ رقم دوں گا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس سے کئی زیادہ کی پیش کش ہے اس نے کہا کہ چار گنا دوں گا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ ہی فرمایا کہ مجھے اس سے زیادہ کی پیشکش ہے یوں وہ رقم بڑھاتا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ یہ ہی بات دہراتے کہ مجھے اس سے زیادہ کی پیشکش ہے اور بات دس گنا تک جا پہنچی تو اس مالدار شخص نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آخر وہ کون ہے جو آپ رضی اللہ عنہ کو دس گنا دے رہا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ " میرا رب ہے جو مجھے ایک نیکی کے بدلے دس گنا اجر کی پیشکش کرتا ہے " ۔

میرے واجب الحترام پڑھنے والوں وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ اس کنویں کے ارد گرد حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں ہی ایک بہت بڑا کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں اس کی دیکھ بھال ہوئی اور السعود کے عہد میں اس باغ میں موجود کھجوروں کے درختوں کی تعداد کم و بیش پندرہ سو پچاس ہوگئی حکومت وقت نے اس کے گرد چاردیواری بنادی اور حضرت سیدنا عثمان بن عفان کے نام اس کو رجسٹرڈ کرکے میونسپلٹی کے حوالے کردیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں محکمہ وزارت زراعت یہ کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت سیدنا عثمان بن عفان کے رضی اللہ تعالی عنہ کے بینک اکائونٹ میں جمع کروادیتی وقت کے ساتھ ساتھ اس اکائونٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا اور اس پر فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا اس ریائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع تھی اس میں آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت میں خرچ کیا جائے گا اور باقی آدھا حصہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے بینک اکائونٹ میں جمع ہوگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے اس عمل اور اپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلوص نیت کو اس طرح قبول فرمایا اور اس میں برکت عطا فرمائی کہ تا قیامت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے اس کو صدقہ جاریہ بنادیا یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تجارت تو کی لیکن اللہ تبارک و تعالی سے اور اللہ رب العزت نے ان کی جانیں اور مال و اسباب اپنی جنتوں کے عوض خرید لئے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے خلیفہ سوئم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کی شخصیت وہ شخصیت تھی کہ ایک حدیث میں آیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ " ایک دفعہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے اور (بستر ) پر لیٹے ہوئے تھے اس عالم میں کہ دونوں پنڈلیاں ظاہر ہورہی تھیں اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آنے کی اجات مانگی تو آپ علیہ وسلم نے دے دی اور گفتگو فرماتے رہے ہھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت مانگی تو آپ علیہ وسلم نے دے دی اور جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی نے اجازت طلب کی تو آپ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے کپڑے درست کئے اور پھر اجازت دی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کچھ دیر بیٹھے باتیں کیں اور ہھر رخصت ہوگئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے جانے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو آپ علیہ وسلم نے فکر واہتمام نہیں کیا لیکن جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو آپ علیہ وسلم اٹھکر بیٹھ گئے اور کپڑے بھی درست کرلئے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص سے کیسے حیا نہ کروں جس سے فرشتوں نے بھی حیا کی " ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عثمان بن عفان کی شان تو یہ تھی کہ اللہ رب العزت اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اگر وہ شخص بلکل پسند نہیں تھا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا ایک حدیث کے مطابق ایک دفعہ ایک جنازہ لایا گیا تو صحابہ کرام نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے عرض کیا کہ نماز پڑھا دیں تو آپ علیہ وسلم نے انکار کردیا صحابہ کرام نے عرض کی کہ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا اج انکار کی کیا وجہ ہے ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص میرے عثمان (بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ ) سے بغض رکھتا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و عظمت کا اندازہ تو لگالیا ہوگا کہنے کو تو بہت کچھ یے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصر تحریر میں جو جامع معلومات آپ تک پہنچا سکوں وہ پہنچائوں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں اس تحریر کو پڑھکر ہمیں معلومات بھی حاصل ہوئیں اور یہ سبق بھی ملا کہ اگر ہمیں اللہ تبارک تعالی نے مال و اسباب سے نوازا ہوا ہے تو ہمیں اس کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنا چاہیئے اس طرح ہمارے مال میں کمی نہیں ہوگی بلکہ وہ رب العزیز ہمیں وہاں سے رزق عطا کرے گا جہاں سے ہمارا گمان بھی نہیں ہوگا ۔
 
محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 133933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.