آئین پاکستان میں مذکور آئینی عہدیدران کے لئےاپنا عہدہ
سنبھالنے سے پہلے آئین پاکستان کے تیسرے شیڈول میں درج حلف کے مطابق حلف
اُٹھانا لازم ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکلز 178اور194کے تحت ہائیکورٹ
وسپریم کورٹ کے جج درج ذیل عبارت کیساتھ حلف اُٹھاتےہیں۔" اللہ کے نام سے
جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں پاکستان کے
ساتھ سچے ایمان اور وفادار رہوں گا۔اور یہ کہ بطور جج / چیف جسٹس آف
پاکستان/جج سپریم کورٹ/ ہائیکورٹ کے جج / چیف جسٹس ہائیکورٹ، میں ایمانداری
سے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں
اور فرائض ،اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق انجام دوں گا۔ اور یہ کہ میں سپریم
جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا۔اور یہ کہ میں
اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری طرز عمل یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز
نہیں ہونے دوں گا۔اور یہ کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حفاظت
اور دفاع کروں گا۔اور یہ کہ ہر حال میں، میں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ،بلا
خوف و خطر، پیار اور ناخوشگوار سلوک ، قانون کے مطابق سلوک کروں گا۔اللہ
تعالیٰ میری مدد فرمائے اور ہدایت دے (آمین)"۔ موضوع تحریر کے حوالہ سےکوڈ
آف کنڈکٹ کے دو آرٹیکلز قلمبند کئے جارہے ہیں۔آرٹیکل نمبر چہارم کے
مطابق۔ " ایک جج کو اپنے مفاد کے معاملے میں عدالتی کام کرنے کے لیے پختہ
طور پر انکار کرنا چاہیے۔بشمول اُن افراد کے معاملات جن کو وہ قریبی رشتہ
دار یا قریبی دوست سمجھتا ہے۔جج کے سامنے پیش ہونے والے کیس کے کسی بھی
فریق کے ساتھ سختی سے کسی بھی کاروباری لین دین میں داخل ہونے یا اسے جاری
رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔خواہ یہ کتنا ہی غیر اہم کیوں نہ ہو۔اگر
معاملہ/لین دین/کاروبار ناگزیر ہو تو اسے فوری طور پر کیس سے اپنا تعلق
منقطع کر دینا چاہیے۔جج کو کسی بھی ایسے کیس کو نمٹانے سے انکار کرنا چاہیے
جس میں اس کا ایک فریق یا اس کے وکیل سے دوسرے سے زیادہ تعلق ہو، یا حتیٰ
کہ فریقین اور ان کے وکلاء کے ساتھ بھی۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ نہ
صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا دیکھائی بھی دے؛جج کو چاہیے کہ وہ کسی بھی
معاملے میں اپنی رائے یا عمل کے تمام امکانات سے گریز کرے، چاہے وہ
بالواسطہ یا بلاواسطہ ذاتی فائدے کی وجہ سے متاثر ہو"۔اور آرٹیکل ششم کے
مطابق "ایک جج کو اپنی طرف سے یا دوسروں کی طرف سے، قانونی چارہ جوئی یا
صنعت، تجارت یا قیاس آرائی پر مبنی لین دین جیسی قانونی چارہ جوئی میں
ملوث ہونے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غیر مناسب فائدہ حاصل
کرنے کے لیے اپنے عہدے کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنا، چاہے فائدہ فوری ہو
یا مستقبل میں، ایک سنگین غلطی ہے۔ جج کو پرائیویٹ اداروں یا افراد پر مالی
یا دیگر ذمہ داریاں عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو اسے اپنے فرائض کی
انجام دہی میں شرمندہ کر سکتے ہیں"۔ اب آتے ہیں موضوع تحریر کے دوسرے حصہ
یعنی آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن پر مفادات کےٹکراؤ پر۔یقینی طور پر وفاقی
حکومت کی جانب سے قائم کردہ انکوائری کمیشن آئین و قانون کے عین مطابق ہے۔
اس حققیت کے برعکس چیف جسٹس کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے دائر
کی گئی پٹیشن پر بینچ کی تشکیل اور فی الفور کمیشن کو کام کرنے سے روکنے کے
حکم نامہ نے چیف جسٹس کے آئینی کردار پر سوالیہ نشانات چھوڑ دیئے ہیں۔
کیونکہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے دیگر افراد کیساتھ ساتھ چیف جسٹس کی
ساس اور پی ٹی آئی چیئرمین کی اپنے پارٹی رہنماسے سپریم کورٹ میں تعلقات
سے متعلق مبینہ آڈیوز کے متعلق تحقیقات کرنا تھیں۔ آئینی و قانونی ماہرین
کے نردیک یہ بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے
اعلی ترین عہدہ پر براجمان معزز جسٹس عمر عطاء بندیال صاحب کو اپنی خوشدامن
کے حوالہ سے قائم کردہ کمیشن کے خلاف بننے والے بینچ کا حصہ بننا چاہیے
تھا؟کیا چیف جسٹس کا بینچ میںبذات خود شامل ہونا مفاد ات کا ٹکراؤ نہیں
ہے؟آئینی و قانونی ماہرین کے نزدیک چیف جسٹس مبینہ طور پر نہ صرف اپنے حلف
کی خلاف وزری بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعلی عدلیہ کے
ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل نمبر 4اور آرٹیکل نمبر 6کی خلاف ورزی کے
مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی
سربراہی میں کام کرنے والے آڈیو لیکس کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے بینچ پر
اعتراض اٹھا دیا۔آڈیو لیکس کمیشن نے عدالت میں داخل کرائے گئے جواب میں
کہا ہے کہ ذاتی مفادات سے متعلق کیس کوئی جج نہیں سن سکتا۔کمیشن نے استدعا
کی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس
کمیشن کے خلاف کیس نہ سنے۔جواب میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے آرٹیکل 209 پر
اپنا مؤقف پہلے اجلاس میں واضح کر دیا تھا کہ کمیشن کی کارروائی کو سپریم
جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سمجھا جائے۔آڈیو لیکس کمیشن نے کہا ہے کہ
کمیشن کو آڈیو لیک کی انکوائری میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں، کمیشن کو یہ
ذمے داری قانون کے تحت دی گئی ہے۔یاد رہے کمیشن آف انکوائری ایکٹ، 2017 کے
تحت وفاقی حکومت کوئی بھی عدالتی کمیشن قائم کرسکتی ہے اور کمیشن قائم کرتے
وقت قانون میں چیف جسٹس سے رائے /مشورہ لینے کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ کاش
ہمارے ججز حضرات بھی دوسروں کو آئین و قانون کی پابندی کا درس دیتے ہوئے
خود بھی آئین و قانون اور اپنے لئے قائم کردہ کوڈ آف کنڈکٹ کی پیروری اور
حلف کی پاسداری کرنے والے بن جائیںتو ریاست پاکستان میں قانون کی حکمرانی
کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔بسم اللہ پڑھ کر حلف اُٹھانے والوں کےلئے
قرآن مجید میں واضح ہدایات موجود ہیں: سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۵۔ :اے
لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ
تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے
والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو
یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی
پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے
پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
|