خواب وہ نہیں ہوتے جو آپ سوتے میں دیکھتے ہیں بلکہ
وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہیں دیتے۔ہرانسان جب اس زمین پر آتا ہے تو اس
کے لیے بھی دوسرے لوگوں کی طرح مختلف شکلوں اور مقداروں میں مسائل اور
وسائل موجود ہوتے ہیں جن کو عقل کے استعمال سے اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ
بنانے کا اختیار،اُس کے پاس ہوتا ہے۔آج کے مادی دور کا کامیاب انسان وہ ہے
جو کروڑوں لوگوں کو نئے ڈھنگ سے پُرانے سپنوں کی اُترن بیچ سکتا ہو،مگر اس
کام کے لیے مردہ ضمیر ہونا شرط ہے۔سیرتوں کا حسن کیا جانیں یہ صورتوں کے
بھکاری لوگ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ضمیر، احساس کی خاموشی سے مرتا ہے اوریہ وہ
وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی۔اس دنیا میں بے شمار زندہ مردے بھی پائے جاتے
ہیں جن کا سانس تو چل رہا ہوتا ہے مگر احساس مر چکا ہوتا ہے۔بد قسمتی سے
عشروں سے قوم کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور اب تک تو شائدساری قوم اپنی
بصارت بھی کھو چکی ہو۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس قوم نے کبھی اپنی بے نور
آنکھوں کا نوحہ بھی نہیں پڑھا ۔یاد رکھیں! خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ
میں ہوتی ہے۔ ایک نابینا قوم اپنے لیڈروں کے خوش نما نعروں سے سجے مصنوعی
خوبصورت کردار کے لبادے میں چھپی بدصورتی کیسے دیکھ سکتی ہے۔افسوس !ہماری
مفاد پرست سیاسی قیادت اور نابینا قوم کے لولے لنگڑے افراد،نہ تودنیا کی
امامت کے طلبگار ہیں اور نہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے
اُبھرنا چاہتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ دنیا میں قوموں کی زندگی میں عروج
و زوال کے مختلف ا دوار آتے ہیں مگر تخلیق اور ارتقاء کا عمل ہمیشہ جاری
رہتا ہے۔ شخصی ،سماجی اور معاشرتی اصلاح کا عمل، دراصل قوموں کے شعور کی
بلوغت کا باعث بنتا ہے اور اگر یہ عمل رُک جائے تو ایک ایسی قوم تشکیل پاتی
ہے جو جاہل بھی ہوتی ہے اور غلام بھی۔اگر تم غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے تو
تم غلامی کے اعلیٰ ترین درجے پر ہو ۔اور اگر تم غلط کو غلط نہیں سمجھتے
توتم جہالت کے اعلیٰ ترین درجے پر ہو۔غلام کو غلامی پسند نہ ہو ،تو کوئی
آقا پیدا نہیں ہوتا۔غلامی کی بدترین شکل وہ ہے جب اپنی زنجیروں سے ہی پیا ر
ہو جائے اورکسی شخصیت کے بت کو پوجنا شروع کردیں،تو پھر آزادی و غلامی کا
فرق مٹ جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہماری قوم ذہنی غلامی کا اس بری طرح سے شکار ہے
کہ یہ ذہنی غلامی اب اُس کے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔ ایک شاعر کے بقول
۔۔۔۔وقت لگا ہے تمہیں جذب کرنے میں
اب کھرچتا ہوں تو خود بھی اُدھڑنے لگتا ہوں
بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد رہنماؤں کو گپیں ہانکنیں،نعرے بازی،جھوٹ
بولنے،فریب دینے،گالی گلوچ اور الزام تراشیوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔اہل
اقتدار لوگ پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس اور کھانے پر ٹوٹ پڑنے والے بھوکے
اورننگے بے ہنگم ہجوم کو ایک انجانی دنیا کے خوشحالی اور ترقی کی کہانیاں
سناتے ہیں اور اقتدار کے حصول کے بعد یہ افسانے بھول جاتے ہیں۔اب سوا ل یہ
پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کب تک اس نظام جبر میں پستی رہے گی۔کیا ہم
پچھتر سال بعد بھی اس نظام کا حصہ بن کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی ساتھ
کہیں بد دیانتی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟۔کیا پاکستانی قو م ترقی یافتہ
اقوام کے درمیان اسی طرح سیاسی،معاشی،اقتصادی،انسانی،قانونی،تعلیمی میدانوں
میں پسماندہ قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی رہے گی؟۔ کیا مغربی اور بھارتی
پراپیگنڈہ کے تحت پاکستان کو ایک ناکام ریاست تسلیم کر لیا جائے؟۔کیا
اسلامی تشخص کیلیے الگ قطعہ اراضی کا حصول ایک بے معنی مشق تھی؟۔ کیا ارکان
پارلیمنٹ براہ راست چینی،آٹے،دال،چال،آلو،پیاز اورپٹرول کے بحرانوں کے اہم
کردار نہیں رہے؟۔کیا صوبائیت اور برادری ازم کا مرض اس ملک کی سا لمیت کو
جونک کی طرح اند رہی اندر سے کھوکھلا نہیں کر رہا؟۔کیاسیاسی پنڈتوں نے پہلے
لوٹ مار اور کرپشن کا بازار خوب گرم کیا اور بعدمیں مل بانٹ کر کھانے کو
مفاہمت کا نام دے کر، قوم کے ساتھ ایک مذاق نہیں کیا؟۔ ریاست مدینہ کا خواب
دکھانے والے نے قوم کی اخلاقی حالت تباہ نہیں کی ؟ کیا انصاف کی بات کرنے
والے نے خود کو انصاف سے مبراء ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی؟۔
یہ ساری تحریر لکھنے کا مقصد یہ بات سمجھنا ہے کہ امریکی سازش کے بیانیے سے
شروع ہونے والا سفر،آج امریکی حمایت والے بیانیے میں بدل چکا ہے۔سائفر لہرا
کر قوم کو بتایا گیا کہ ہم ’’غلام نہیں ہیں‘‘ اور چند ماہ بعد ہی اس بیانیے
سے تائب ہوکر امریکہ کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا اور باقاعدہ امریکی
لابنگ فرمز کو امریکی حمایت حاصل کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ چند امریکی
کانگریس کے اراکین کی طرف سے اپنے حق میں بیانات دلوائے گئے۔پاکستان میں
متعین امریکی سفارت کاروں سے ملاقاتیں کی گئی۔تاریخ میں پہلی بار،آئی ایم
ایف کی جانب سے قرضے کے اجراء کو سیاسی معاملات کے ساتھ منسوب کرنے کا
عندیہ دیا گیا۔اب سربراہ امریکی خارجہ امور کمیٹی کا بیان آیا ہے کہ ہمیں
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش ہے۔ کیا اب بھی قوم اس
بیانیے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گی؟۔اب قوم کی باری ہے کہ وہ
سمجھے کہ امریکی سازش سیامریکی حمایت تک کا سارا بیانیہ، دراصل صرف پاک فوج
اور پاکستانی عوام کو لڑانے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کے پیچھے یقیناً
دشمن قوتیں سرگرم تھیں اورہیں۔قوم کو اب عقیدت کی عینک اُتار کر حقیقت کو
دیکھنا ہوگا اور شخصیت پرستی کے بت کو توڑنا ہوگا تاکہ ہم حقیقت میں آزاد
انسان بن سکیں۔
|