ایک اکانومی عمرہ فقط 3 سے 4 لاکھ روپے میں ہو جاتا ہے ۔
جبکہ حج کیلئے اس سے کم از کم 5 گنا زیادہ (ابتدائی) بجٹ درکار ہوتا ہے ۔
حج میں عمرہ کی نسبت چند اضافی عبادات شامل ہوتی ہیں ، جن میں منیٰ ، عرفات
(وقوف عرفہ) اور قربانی شامل ہیں ۔ مزدلفہ کا قیام ، رمی بھی عمرہ سے اضافی
عبادات ہیں جو حج کا حصہ ہیں ۔ مسجد الحرام سے فرض کی تکمیل کے بعد مذکورہ
اسفار و قیام بھی حج کے دیگر اراکین میں شامل ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان ’’اضافی‘‘ عوامل کی مد میں حاجیوں کو لاکھوں روپے
اضافی دینا پڑتے ہیں ۔ مذکورہ ارکان کے بغیر ہونے والا عمل یعنی، عمرہ، جس
میں رہائش، ائیرپورٹ سے آنے اور واپس جانے کا سفر، مکہ سے مدینہ اور مدینہ
سے واپس مکہ کا سفر وی آئی پی پیکج کے ساتھ بھی زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ سے
اوپر نہیں جاتا ۔ اگر آپ نارمل (اکانومی) عمرہ پیکج کا انتخاب کریں گے تو
وہ بھی زیادہ سے زیادہ ساڑھے 3 لاکھ سے 4 لاکھ تک ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔
اگر حج کو دیکھا جائے تو اضافی عوامل کے ساتھ یہ بھی اتنا مہنگا نہیں ہونا
چاہئے جتنا اسے کر دیا گیا ہے۔ شارٹ اور لانگ حج پیکجز کے ٹکٹ سے لے کر
منیٰ، عرفات، مزدلفہ، مدینہ کے اسفار، رہائشی اخراجات اور دیگر سہولیات کا
اصل ریٹس پر بریک اپ بنائیں تو یہ رقم زیادہ سے زیادہ بھی 9 لاکھ روپے سے
اوپر نہیں جائے گی ۔ وی آئی پی حج بھی ہو، تو زیادہ سے زیادہ 11لاکھ روپے
تک بآسانی ہو جانا چاہئے ۔ موجودہ حج ریٹس مکمل پیکج کے ساتھ 14 لاکھ سے
شروع ہو کر 30 لاکھ تک جا رہے ہیں۔ گو، کہ عالمی مہنگائی کے باعث رہائش،
مکاتب و مشائر اور دیگر کے اخراجات بڑھے ہیں ۔ لیکن مختلف مدات میں ٹیکسز
کے اضافے نے حج کی خواہش رکھنے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے
۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کی نسبت فی حاجی 1 لاکھ روپے خرچہ بڑھا ہے۔
رہائشی اخراجات میں 80 فیصد ، طعام میں 100 فیصد ، ہوائی سفر کے کرایہ جات
کی مد میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی ڈبل
ہوئے ہیں جبکہ ویزہ فیس اور دیگر سہولیات کا خرچ بھی بڑھا ہے ۔ یوں حج عام
آدمی کی پہنچ سے مسلسل دور ہو رہا ہے۔
حج کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر ہوشربا اضافہ کے تناظر میں پاکستانی
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ایک طرف، لیکن سعودی عرب میں ٹیکسوں میں اضافہ
بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ 2021 ء میں کورونا کی وجہ سے جب حج کو صرف سعودی
باشندوں کیلئے محدود کر دیا گیا تھا ، تب بھی عمومی حج حکومتی اعداد و شمار
کے مطابق پاکستانی حساب سے تقریباً 9 لاکھ روپے کا تھا ۔ جبکہ اس سے محض
ایک سال قبل تک یعنی 2020ء میں حج کی پاکستانی قیمت 5 سے 6 لاکھ روپے تھی ۔
بعد ازاں 2 سالوں میں اب یہ کم از کم 15 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ گو ، کہ
مشکل معاشی صورتحال کے باوجود حکومت پاکستان ہر سال حجاج کی سہولت کیلئے زر
مبادلہ کا انتظام کرتی ہے۔ حاجیوں کو پیکج میں اچھی خاصی سبسڈی بھی دیتی
آئی ہے ۔ تاہم ، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدات کی وجہ سے بھی کافی مشکلات
درپیش ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی
ہے کہ حجاج کو محدود بجٹ میں حج کا موقع دیا جائے ۔ لیکن پاکستانی حکومت
بھی آخر کتنی کوشش کر سکتی ہے، جب تک دوسرے ملک کی حکومت زائرین کیلئے ٹیکس
فری انتظامات کے سلسلے میں تعاون نہ کرے۔
یہ کس قدر بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو اس مرتبہ حج کا کوٹہ واپس کرنا پڑا؟ ۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقامی ہوٹلز کو کنٹرول کرنے کیلئے
وہاں کی حکومت کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکتی؟ …… ہوٹلز کو سارا سال کمانے
کا موقع ملتا ہے۔ عمرہ کی ادائیگی کیلئے پوری دنیا سے لاکھوں لوگ 24/7 بلا
کسی تعطل کے اور مسلسل جا رہے ہیں۔ اکثر ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہوٹلوں میں
عمرہ زائرین کیلئے رہائشی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ وہاں کے کاروباری
معاملات بھی ہر وقت رننگ میں رہتے ہیں ۔ یعنی وہاں کے لوگ روزانہ کی بنیاد
پر اچھا خاصہ کما بھی رہے ہیں اور منافع بھی لے رہے ہیں۔ اگر ان مخصوص دنوں
(حج کے ایام) میں انتظامی اور دیگر متفرق اخراجات حکومتی سطح پر کم بھی کر
دئیے جائیں تو اس قدر منافع ہو جاتا ہے کہ اہلیان سعودیہ کئی سال آرام سے
بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ لہذا اگر حج کیلئے بھی عمرہ کے دنوں والے ریٹ قائم
رکھے جائیں، تو رہائش گاہوں کے ’’مالی استحکام‘‘ میں فرق نہیں آئے گا، نہ
ہی کاروباری سرگرمیوں میں کمی یا عدم استحکام پیدا ہو گا …… لیکن نجانے
کیوں حج اور عمرہ کو سیاحت سے منسوب کرتے ہوئے اسے منافع بخش کاروبار کے
طور پر لیا جانے لگا ہے۔ دنیا میں کوئی ایک ملک، کوئی ایک مقام ، کوئی ایک
سفر تو ایسا ہونا چاہئے جو غیر منافع بخش اور ٹیکس فری ہو، بالخصوص اس مقدس
اور مبارک سفر کو تو آسان اور قابل رسائی ہونا چاہئے ۔ متعلقہ ملک کے ارباب
اختیار کو اس پر سوچنا اور مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ۔
|