ارشادِ ربانی ہے:’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے
سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں
ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش
کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی
نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم
دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت
وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا
کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ قرآن مجید کی اس آیت کی
ابتداء اور اختتام پر دنیا کی حیثیت بتائی گئی اور درمیان میں ایک نہایت
عام فہم مثال کے ذریعہ اسے واضح فرمادیا گیا۔ عصرِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ
معیارِ زندگی کا جنون ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے لیے معمولی سے معمولی
قربانی دنیا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے لوگ اپنے مقاصد زندگی کے حصول کی خاطر
بڑے سے بڑے ایثار کا اظہار بہ آسانی کردیا کرتےتھے لیکن اب یہ حال ہے کہ
پہلوانوں کو ملازمت کا خوف دلاکر رام کرنے کی کوشش بظاہرکامیاب ہوتی دکھائی
دےرہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ دنیا کے عیش و آرام کی محرومی سے گریز ہے۔
اسلام رہبانیت کے خلاف ہے مگر چونکہ دنیاوی چمک دمک کا فریب آنکھوں چکا
چوند کرتا رہتا ہے اس لیے نبیٔ کریم ﷺ نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس کی
حقیقت سے بیان فرمائی ہے ۔ آپﷺ کا گزر ایک پھینکے ہوئے (مردہ) میمنے کے پاس
سے ہوا۔ آپ ؐ نے استفسارفرمایا: ’’کیاتمہارے خیال میں یہ میمنا مالکوں کی
نظر میں بے قدر ہے؟ ’’لوگوں نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ! انھوں نے بے قدر سمجھ
کر ہی پھینکا ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا : ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے! جتنا یہ میمنا مالکوں کی نظرمیں حقیر ہے، اللہ کے ہاں دنیا اس
سے بھی زیادہ حقیر ہے۔‘‘ اس حقیقت کے باوجود اہل ایمان ترکِ دنیا سے منع
کیا گیا مگر تلقین فرمائی گئی کہ:’’ دنیامیں ایسے رہو، گویا تو پردیسی ہے،
گویا تومسافر ہے۔ اور اپنے آپ کو قبروں والوں (مردوں) میں شمار کر۔‘‘ اہل
ایمان کا مطمح نظر اور مستقر تو جنت ہے اس لیے دنیا میں اس کی حالت ایک
غریب الوطن مسافر کی سی ہوتی ہے جو شاداں و فرحاں اپنی منزلِ مقصود کی جانب
رواں دواں ہو۔ اس کے نزدیک احساسِ زیاں اور رنج و ملال کی حیثیت عارضی و
ثانوی ہو۔
رسول اکرم ﷺ کا معاملہ وعظ و ارشاد تک محدود نہیں تھا بلکہ آپؐ نے اپنی
عملی زندگی میں اسے برت کردکھا دیا ۔ ایک مرتبہ چٹائی پر (آرام کرنے کے
لئے) لیٹے تو اس کے نشان آپؐ کے جسم مبارک پر ظاہر ہوگئے۔ایک صحابی نے عرض
کیا: ’’اللہ کے رسولﷺ! اگر آپ ہمیں فرماتے توہم آپ کے لئے کوئی چیز (بستر
وغیرہ) بچھا دیتے جس کے ساتھ اس (چٹائی کی سختی) سے بچاؤ ہوجاتا‘‘۔ اس کے
جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا دنیا سے کیا تعلق! میری اور دنیا
کی مثال توایسے ہے، جیسے کوئی سوار (مسافر) سائے کے لئے درخت کے نیچے
ٹھہرا، پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوگیا۔‘‘ ان باتوں کا کہنا اور سننا جس قدر
آسان ہے اس پر عمل اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ شیطان فقر و فاقہ سے خوف دلاتا
ہے۔ ان وساوسِ ابلیسی پر قابو پانے کی خاطر اس حدیثِ قدسی کو پیش نظر رکھنا
کافی ہے اللہ سبحانہ و تعالی ٰفرماتا ہے: ’’آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے
فارغ ہوجا، میں تیرا سینہ استغنا سے بھر دوں گا اور تیرا فقر دور کردوں گا۔
اور اگر تونے ایسا نہ کیا تومیں تیرے سینے کو اشغال سے بھردوں گا اورتیرا
فقر دور نہیں کروں گا‘‘۔ یعنی دنیا میں غرق لوگوں کا فقر دور نہیں ہوتا۔ وہ
دن رات حزن و یاس میں غرق رہتے ہیں جبکہ غنی کو فقرسے نجات مل جاتی ہے۔
عصرِ حاضر میں دنیا کے حوالے سے فکر مندی نے خوشحال انسانوں کو بھی مایوسی
و اضمحلال کے نفسیاتی امراض کا شکار کردیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا یہ
علاج بتایا کہ : ’’جوشخص سارے تفکرات کو جمع کرکے ایک ہی فکر، یعنی آخرت کی
فکر میں ڈھال لے، اللہ اس کو دنیاوی تفکرات سے بے نیاز کردیتا ہے۔ اور جسے
دنیا کے معاملات کے تفکرات مختلف گھاٹیوں میں لئے پھریں، اللہ کو اس کی
پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ (ان تفکرات کی ) کون سی وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘
نبیٔ پاک ﷺ نے دنیا دار لوگوں کے بالمقابل دینداروں کی زندگی میں پائے جانے
والے نظم و ضبط اور سکون و اطمینان کی یہ وجہ بتائی کہ : ’’جس شخص کامقصود
حصولِ دنیاہو، اللہ تعالیٰ اس کے کام بکھیر دیتاہے اور اس کا فقر اس کی
آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے اور اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے لئے مقدر ہے
اور جس کی نیت آخرت کاحصول ہو، اللہ تعالی اس کے کام مرتب کردیتا ہے اور اس
کے دل میں استغنا پیدا فرما دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہوکر اس کے پاس آتی
ہے۔‘‘ نبیٔ کریم ﷺ کے نزدیک ایسا مومن قابلِ رشک ہے جو:’’ ہلکا پھلکا (کم
آمدنی والا ) ہو،اسے نماز سے وافر حصہ ملا ہو ،لوگوں میں گمنام ہو، اس کی
پرواہ نہ کی جاتی ہو، اسے بقدرِ حاجت رزق میسر ہو ، وہ اس پر صبر کرے ، اسے
جلدی موت آجائے، اس کا ترکہ تھوڑا ہو، اور اسے رونے والیاں بھی کم ہوں۔‘‘۔
جاہ و حشمت کی حرص میں انسان اس قابلِ رشک زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔
|