انجم لکھنوی صاھب کی پانچ مشہور غزلیات - Anjum Lucknowi

آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
غم جو دستک دے تو آجاتے ہیں باہر آنسو

برف کی طرح پکھل جاتا ہے فطرت ان کی
خشک ہو جائیں تو بن جائیں گے پھر آنسو

ضبط غم ساتھ اگر چھوڑ دے یہ بھی ہوگا
ایک ہی رات میں بھر دیں گے سمندر آنسو

کتنی غیرت ہے کہ ہو جاتے ہیں پانی پانی
آپ خود دیکھ لیں انگلی سے اٹھا کر آنسو

تم یہ کہتے ہو کہ اب چھوڑ دو رونا دھونا
میں یہ کہتا ہوں کہ ہے میرا مقدر آنسو

میں نہ کیونکر انھیں الماس کے موتی سمجھوں
میری آنکھوں میں جواں ہوتے ہیں پل کر آنسو

جانے کیا اہل چمن پر ہے مصیبت انجمؔ
خون کی شکل میں روتے ہیں کبوتر آنسو

غزل
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں

آبلہ پائی دیکھنے والو کیا ہوگا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں

بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آکر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں

برق تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں

ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چھپ کر روتے ہیں

صرف میرے حصے میں تلچھٹ اسکو صراحی بھر کے شراب تشنہ
لبی کو دیکھ کے میخانے کے ساغر روتے ہیں

انجمؔ یادوں کے میلے میں گھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں


غزل
گھر کسی کا نہ اجاڑو یہ بسا رہنے دو
اور آنگن میں فرشتوں کی صدا رہنے دو

بھول جائیں نہ پرندے کہیں گھر کا رستہ
پیٹر کاٹو نہ کوئی، پیٹر لگا رہنے دو

سر اٹھائے گا تو پہنچے گا جنوں کی حد تک
راکھ کے ڈھیر میں شعلے کو دبا رہنے دو

میں نے مانا ہے ہواؤں سے تمہارا رشتہ
دل کے فانوس میں روشن تو دیا رہنے دو

مدتوں بعد یہ ملتا ہے خزانہ انجمؔ
راز جو دل میں چھپا ہے وہ چھپا رہنے دو

غزل
یہ چلتے پھرتے مٹی کے پہلے کہاں کے ہیں
مسجد سے واسطہ ہے نہ کوئے بتاں کے ہیں

چھتری کو آپ اپنا محافظ سمجھ گئے
طوفان سر سے اونچے ابھی امتحاں کے ہیں

ممکن نہ تھا فساد مگر کیا بتائیں ہم
کچھ لوگ اپنے شہر میں ناقص زباں کے ہیں

نفرت کی آندھیوں نے اُڑایا ہے یوں مزاق
تنکے تمام باغ میں اک آشیاں کے ہیں

اس واسطے میں کرتا ہوں پھر سے گفتگو
عادی یہاں کے لوگ تو سر نہاں کے ہیں

تہذیب کا لباس مسکتا چلا گیا
ترپائی کرنے والے یہ آخر کہاں کے ہیں

دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتا نہیں کوئی
کتنے ذلیل لوگ میرے کارواں کے ہیں

انجمؔ یہی تو گھر میں اجالا کریں گے بس
جلتے ہوئے چراغ جو امن و اماں کے ہیں

غزل
جگنو کو رکھ کے ہاتھ پہ در در پھیرا ہوں میں
یہ کس کی آرزو ہے کہ شب بھر پھرا ہوں میں

یوں تو اندھیری رات میں اکثر پھرا ہوں میں
آنکھوں میں لیکے صبح کا منظر پھرا ہوں میں

تھوڑی سی پیاس سوکھے لبوں پر لیئے ہوئے
وقت ازل سے گرد سمندر پھرا ہوں میں

پرکھوں کی پارسائی میرے کام آگئی
میخانے کے قریب پہونچ کر پھرا ہوں میں

اس طرح ٹھوکروں میں گزاری حیات نو
بن کے تمہاری راہ کا پتھر پھرا ہوں میں

تنہا کسی مقام سے گزرا نہیں کبھی
ہمراہ لیکے یادوں کے لشکر پھرا ہوں میں

انجمؔ بس اتنا سوچ کے لب میں نے سی لیے
شاید کہ کائنات میں اک سر پھرا ہوں میں
Amjad Khan
About the Author: Amjad Khan Read More Articles by Amjad Khan: 3 Articles with 5282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.