آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
غم جو دستک دے تو آجاتے ہیں باہر آنسو
برف کی طرح پکھل جاتا ہے فطرت ان کی
خشک ہو جائیں تو بن جائیں گے پھر آنسو
ضبط غم ساتھ اگر چھوڑ دے یہ بھی ہوگا
ایک ہی رات میں بھر دیں گے سمندر آنسو
کتنی غیرت ہے کہ ہو جاتے ہیں پانی پانی
آپ خود دیکھ لیں انگلی سے اٹھا کر آنسو
تم یہ کہتے ہو کہ اب چھوڑ دو رونا دھونا
میں یہ کہتا ہوں کہ ہے میرا مقدر آنسو
میں نہ کیونکر انھیں الماس کے موتی سمجھوں
میری آنکھوں میں جواں ہوتے ہیں پل کر آنسو
جانے کیا اہل چمن پر ہے مصیبت انجمؔ
خون کی شکل میں روتے ہیں کبوتر آنسو
غزل
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو کیا ہوگا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آکر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
برق تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں
ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چھپ کر روتے ہیں
صرف میرے حصے میں تلچھٹ اسکو صراحی بھر کے شراب تشنہ
لبی کو دیکھ کے میخانے کے ساغر روتے ہیں
انجمؔ یادوں کے میلے میں گھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں
غزل
گھر کسی کا نہ اجاڑو یہ بسا رہنے دو
اور آنگن میں فرشتوں کی صدا رہنے دو
بھول جائیں نہ پرندے کہیں گھر کا رستہ
پیٹر کاٹو نہ کوئی، پیٹر لگا رہنے دو
سر اٹھائے گا تو پہنچے گا جنوں کی حد تک
راکھ کے ڈھیر میں شعلے کو دبا رہنے دو
میں نے مانا ہے ہواؤں سے تمہارا رشتہ
دل کے فانوس میں روشن تو دیا رہنے دو
مدتوں بعد یہ ملتا ہے خزانہ انجمؔ
راز جو دل میں چھپا ہے وہ چھپا رہنے دو
غزل
یہ چلتے پھرتے مٹی کے پہلے کہاں کے ہیں
مسجد سے واسطہ ہے نہ کوئے بتاں کے ہیں
چھتری کو آپ اپنا محافظ سمجھ گئے
طوفان سر سے اونچے ابھی امتحاں کے ہیں
ممکن نہ تھا فساد مگر کیا بتائیں ہم
کچھ لوگ اپنے شہر میں ناقص زباں کے ہیں
نفرت کی آندھیوں نے اُڑایا ہے یوں مزاق
تنکے تمام باغ میں اک آشیاں کے ہیں
اس واسطے میں کرتا ہوں پھر سے گفتگو
عادی یہاں کے لوگ تو سر نہاں کے ہیں
تہذیب کا لباس مسکتا چلا گیا
ترپائی کرنے والے یہ آخر کہاں کے ہیں
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتا نہیں کوئی
کتنے ذلیل لوگ میرے کارواں کے ہیں
انجمؔ یہی تو گھر میں اجالا کریں گے بس
جلتے ہوئے چراغ جو امن و اماں کے ہیں
غزل
جگنو کو رکھ کے ہاتھ پہ در در پھیرا ہوں میں
یہ کس کی آرزو ہے کہ شب بھر پھرا ہوں میں
یوں تو اندھیری رات میں اکثر پھرا ہوں میں
آنکھوں میں لیکے صبح کا منظر پھرا ہوں میں
تھوڑی سی پیاس سوکھے لبوں پر لیئے ہوئے
وقت ازل سے گرد سمندر پھرا ہوں میں
پرکھوں کی پارسائی میرے کام آگئی
میخانے کے قریب پہونچ کر پھرا ہوں میں
اس طرح ٹھوکروں میں گزاری حیات نو
بن کے تمہاری راہ کا پتھر پھرا ہوں میں
تنہا کسی مقام سے گزرا نہیں کبھی
ہمراہ لیکے یادوں کے لشکر پھرا ہوں میں
انجمؔ بس اتنا سوچ کے لب میں نے سی لیے
شاید کہ کائنات میں اک سر پھرا ہوں میں |