طارق مرزا کی منظر نگاری میں شاعری ہے
کتاب" ملکوں ملکوں دیکھا چاند" کا جائزہ
قدسیہ قدسی ۔ملائشیا
خدا نے جہاںانسان کو دیگربہت سی نعمتوں نوازا ہے ان میں قرطاس وقلم بھی ایک
عظیم نعمت ہے ۔یہ پہلی وحی علم کے پھیلانے کا وسیع ذریعہ و وسیلہ ہے۔یہ
انسان کو تہذیب اور اخلاق سکھانے کا ذریعہ ہے۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو
قرطاس و قلم سے بنی نوع انسان کو معاشی اور معاشرتی فیض پہنچاتے ہیں۔اگر
انسان کےلیےیہ ممکن نہ ہو کہ وہ دور دراز مقامات کی سیرکرےتو گھر بیٹھے وہ
کتابوں کے ذریعے بہت کچھ جان لیتا ہے ۔ روایت ہے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے ۔لیکن
سفر ہر ایک کے بس میں ہے نہ نصیب میں ۔ خوش رہیں وہ لوگ جن کی تحریروں سے
ہم استفادہ کرتے ہیں۔سفر کی رُوداد رقم کرنے والے ہمارے محسن ہیں۔اس طرح کہ
یہ بیک وقت محقق بھی ہوتے ہیں مورخ بھی افسانہ نگار بھی داستان نویس بھی
اور شاعر بھی۔آج کل بہت سے سفرنامے وجود میںآ رہے ہیں۔ بہت سے دل موہ لینے
والے اور دلچسپ سفرنامے، ان کے نام لکھنا باعث طوالت تحریر ہو گا ۔
ابھی حال ہی میں مجھے طارق محمود مرزا صاحب کا سفرنامہ "ملکوں ملکوں دیکھا
چاند " پڑھنے کا اتفاق ہوا۔مرزا صاحب بنیادی طور پر تو پاکستان کے فرزند
ہیں مگر کافی عرصے سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔چونکہ ادیب
ہیں،شاعر ہیں تو وقتاً فوقتاً خالق حقیقی کی تخلیق کردہ حسین زمین کا سیرو
ا فی ا لارض کےچکر مطابق لگاتے رہتے ہیں ۔دُنیا کے ایک کنارے سے دوسرے
کنارے تک بہت سے ممالک دیکھ رکھے ہیں جن کا ذکر ان کے سفرنامے میں کئی جگہ
ملتا ہے۔اس سے پہلے ان کے متعدد سفرنامے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔
"ملکوں ملکوں دیکھا چاند "کے مطابق مصنف نےسیکنڈے نیوین ممالک
ناروے،ڈنمارک،سویڈن اور فن لینڈ اور پھر قطرتک کا سفر تین ہفتوں میں طے کیا
۔سفرنامہ نگار کی بڑی ہمت اور محبت ہے کہ طویل سفر میں جو کچھ دیکھا اور
محسوس کیا وہ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔متذکرہ سفر میں ہوائی، بری، بحری
تمام ذرائع سفریعنی ہواٸ جہاز،بحری جہاز ،ٹرین، بسیں،ٹیکسیاں اور کشتی
استعمال ہوئے ۔سفر کی صعوبتوں کے باوجودزمین کے چپے چپے کے بارے میںیعنی ان
کے مناظر کے بارے میں تفصیل اور باریک بینی سے لکھا کہ بے اختیار داد و
تحسین کے الفاظ ادا ہوتے رہتے ہیں۔انھوں نے یوں منظر کشی کی کہ گویا شاعری
کی ہو ۔اگرچہ بقول ان کے وہ شاعر نہیں ہیں مگر شاعریاور کسے کہتے ہیں۔ صرف
قافیہ پیمائی ہی تو شاعری نہیں ہے نازک خیالی،فکری گہراٸ، اچھوتا پن نثر
میں بھی ہو تو شعریت کہلاتی ہے۔
ابیہ شعریتہی تو ہے:
"۔۔۔ایک چاند کھڑکی سے باہر ستاروں کے جھرمٹ میں میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا
اور ایک چاند کھڑکی والی سیٹ پر میرے ساتھ براجمان تھا۔سنہری زلفوں
،نیلیآنکھوں اور ملیح چہرے والی درمیانی عمر کییورپی خاتون اور میرےدرمیان
والی سیٹخالیتھی۔ کھڑکی سے باہر دبیز تاریکی اور ہجوم انجم میں درخشاں و
فرحاں ماہتاب کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔درمیانی سیٹ خالی ہونے کی
وجہ سے کھل کھیلنے کا تو نہیں مگر کھل کر بیٹھنےکا موقع ضرور ملا ۔میں کن
اکھیوں سے اپنی ہمنشین پر بھی نظر رکھے ہوۓ تھا کہ شاید سوتے وقت اسےکسی
کےکاندھوں کی ضرورت پڑے لیکن شاید اسے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ مستنصرحسین
تارڑ نہیں ۔۔۔"
چاندسورج کے طلوع و غروب کا احوال بھی بڑا دلچسپ رہا ۔
"۔۔جہاز کے اُڑتے کے ساتھ ہی سورج غروب ہو گیا اور یورپ جو میری منزل تھی
وہاں طلوع ہو گیا۔ پورے سفر میں یہکُرہ ارض کے مخالف سمت میں رہا ۔میں اس
کے آگے آگے محو سفر رہا۔تاہم اس تمام عرصے میں چاند کا ساتھ نہ چھوٹا۔۔۔"
کوٸ صفحہ کوٸ پیراگراف ایسا نہیں جس میں مناظرِ فطرت کی عکاسی نہ کی گئی
ہو۔ کائنات کے حسن کو اس طرح نمایاں کیا ہے کہ زبان بے اختیارسُبحان ربی
الاعلیٰ اور فبایاَلاء ربکما تکذبان کا ورد کرنے لگتی ہے۔کوپن ہیگن میں
لینڈ کرنے سے پہلے کا فضائی منظر بیان کرتے ہیں :
"۔۔صبح کی سنہری کرنوں میں ڈنمارک کی سرسز و شاداب سرزمین،جگہ جگہ بہتے
چشمے،جھیلیں،پگھلتی برفیں، اشجار کے جھنڈ، پھولوں کے رنگین قطعات، سرخ
ٹائلوں والے دلکش مکانات نظر آ رہے تھے ۔۔"
ایکصاحب کتاب ادیب شاعر سیاحت پر نکلے اور اس کی تقریبِ پذیرائی نہ ہو،یہ
نہیں ہو سکتا ۔مختلف ممالک میں دوستوں نے مرزا صاحب کو خوش آمدید کہنےکے
علاوہ ان کی کتابوں کی رُونمائی کا بھی اہتمام کر رکھاتھا ۔ہر ملک میں ادبی
تنظیمیں موجود ہوتی ہیں۔ان تنظیموں نے ان کی زبردست پذیراٸ کی ۔یہ سیاحت
تین ہفتوں پر مشتمل تھی۔آفرین ہے اس سیاح اور سفرنامہ نگار پر کہ کیسے اس
جہانِ سفر کو دلکشی سےقلم بند کیا ۔
"ملکوں ملکوں دیکھا چاند" نام کی مناسبت سے کئی جگہوں پر خوبصورت منظر کشی
کی ۔:
"چاند سے میری دوستی بچپن سے ہے ۔جی بھر کر رازو نیاز ہوتے تھے ۔۔"
"بچپن میں ہم گرما کی راتوں میں چارپائیاںصحن میں ڈال کر سوتے۔ شب کے سناٹے
میں گھنٹوں چاند تاروں کو دیکھتا رہتا ۔۔"
"آج نصف صدی بعد اوسلو کے ساحل پر بیٹھا میں سوچ رہا تھاکہ کیایہ وہی چاند
ہے جس کیضیا صرف میرے لیے تھی۔جو میرے دل کی زمین پر اولین کلی بن کر پھوٹی
اور اب کسک بن کر زندہ ہے ۔۔"
طارق مرزا صاحب کا ایک ہنر یہ بھی ہے کہ ملکوں، شہروں اور دیہاتوں کی تاریخ
بھی رقم کرتے ہیں۔میں حیران ہوںکہ یہ دقیق کام کس طرح انجام دیتے ہیں۔
ملکوں کی تاریخ، ان کی بنیاد،اس کے باشندے، اس کی زبان اور دیگر ثقافت کے
بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں ۔:
"۔۔سویڈن میں بادشاہ کے محل کی بنیاد تیرھویں صدی عیسوی میں پڑی جب کہ
موجودہ عمارت 1750 میں تعمیر ہوئی ۔۔"
"۔۔ناروے میں اسلام عیسائیت کےبعد بڑا مذہب ہے مسلمانوں کی تعداددولاکھ
کےلگ بھگ ہے۔ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔"
"۔۔ناروے کا مقبول ترین گرجا گھر اوسلو کیتھڈرل ہے۔ بارھویں صدی میں وجود
پانے والا یہ چرچ کئی زمانوں کا شاہد ہے ۔ کئی صدیوں کی
شکست و ریخت سے گزرنے کے بعد موجودہ عمارت 1840سے 1850 کے درمیان تعمیر ہوٸ
۔۔"
مرزا صاحب نے ہر موقع پر چٹکلے بازی، پھلجھڑیوں اور ادبی لطیفوں سےمسلسل
متبسم رہنے پر مجبور کیا۔یہ بذلہ سنجی،ذہانت و فطانت اور مشاقی تحریر کا
ثبوت ہے ۔ بر محل اور بر موقع اشعار شامل کر کے کتاب کو مزید دلچسپ و رنگین
بنا دیا گیا۔
ناروے کے بارے میں دلچسپ حقائق بیانکیے ہیں۔ دو تین کا ذکر کروں گی۔:
"۔۔۔دُنیا کی طویل ترین سرنگ ناروے میں ہے۔
۔۔نوبل پرائز کا فیصلہ اسی شہر میں کیا جاتا ہے۔
۔۔۔جہنم ناروے میں واقع ہے۔
۔۔برف پر پھسلنے والا کھیل اسکیٹنگ ان کی اختراع ہے۔۔"
اور ڈھیروں ایسی معلومات جس کے لیے سفرنامہ پڑھنا ضروری ہے ۔
قطر کو انہوں نے سمندری موتیوں کا دیس کہا ہے ۔قطر کے عروس ا لبلاد دوحہ
پہنچتے ہیں جہاں سے واپس اپنے وطن سڈنی جانا ہے ۔یہاں کی دلچسپ سیاحت اور
مفید باتیں بیان کرتے ہیں۔
قطر میں کھانے کے بارے میں دلچسپ انداز میں ایک جگہ لکھتے ہیں ۔۔
"۔۔تاہم غالب کے مینا و ساغر اور ہمارے نان و کباب میں ایک مماثلت ہے کہ
ایک حد کے بعد دونوں صورتوں میں اُٹھنا محال ہو جاتا ہے ایک میں خمار کی
وجہ سےاور دوسری میں معدے پر بار کی وجہ سے ۔"
ایک حساس شخص کی حیثیت سےجہاں مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں وہاں تلخ حقیقیت کے
ذریعے آنکھوں میں اشک بھی لے آتے ہیں ۔کتاب کےآخری حصے میں ایک جملے نے دل
کوبہت آزردہ کر دیا۔
"۔۔زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں ۔۔کے تحت مشرق وسطیٰ میں پاکستانی
مزدوروں کے بارے میں لکھتے ہیں "یہ دن بھر شدید گرمی اور تیز دھوپ میں مشقت
کرتے ہیں اور رات بھر گھر والوں کو یاد کرتے ہیں بس مزدوری،یادیں اور
انتظار ۔۔"
طارق مرزا کی زندگی قابلِ رشک ہے اور اس میں اطمینان کا عنصر غالب ہے۔
ملائشیا میں ابھی حال ہی میں کتابوں کی رونمائی کی تقریب میں سامعین سے
خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے جو دعائیں مانگتا رہا عمر کے
خاص حصے میں پہنچ کر احسا س ہوا کہ پروردگار نے وہ تمام دُعائیں اپنی
بارگاہ میں قبول فرما لی ہیں اور مجھے ہر اس نعمت سے نواز رکھا ہے جو کبھی
میری نوکِ زبان پر تھا۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔ اس لیے سوائے شکر الحمد للہ
کے کچھ اور نہیں کہتا ۔ ایسا اِطمینانِ قلب خدا ہر شخص کو نصیب فرمائے۔
( مضمون نگار کا تعلق بنیادی طور پر پشاور سے ہے ۔ ملائیشیا میں مقیم ہیں
اور اُردو اور فارسی کی کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں )
|