ارشادِ ربانی ہے:’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے
پورے اسلام میں آ جاؤ ‘‘۔ دین اسلام کی مکمل پیروی کا مطلب اس واضح کیا
گیا۔ ’’اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ یعنی کسی
شعبہ ہائے حیات میں اسلام کی پیروی نہ کرنا ازخود شیطان کی راہ پر چل پڑنا
ہے۔اس سے بچنے کی تاکید یوں کی گئی کہ:’’ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ
چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو
کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ‘‘۔ اسلام سے انحراف کا سبب غالب
اقتدار کا خوف یا لالچ ہوسکتا ہے ۔ کسی فردکی حکمت و دانائی سے بیجا
مرعوبیت بھی انسان کو برضا و رغبت دین حنیف سے دور کرسکتی ہےحالانکہ حکمت و
دانائی کا مرجع و منبع رب کائنات کی ذاتِ والا صفات ہے اور اس کا اقتدار سب
پر غالب ونافذ ہے۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ بے چوں چرا احکام الٰہی کی
اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ قرآن حکیم کا تعارف خود الٰہی قوانین کے
نفاذ پر زور دیتا ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ اے محمدؐ! ہم نےآپ کی طرف یہ
کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود
ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم خدا کے
نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو‘‘۔
قرآن حکیم کے نزول کا مقصد اس کے مطابق معاملات دنیا کافیصلہ کرنا بھی ہے
مگر کتاب حق کے بجائےگمراہ لوگوں کے خواہشات کی پیروی اہل ایمان کو قرآن
حکیم کے مطابق فیصلے کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں سے اس لیے خبردار
کیا گیا کہ :’’ اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی
خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘۔ یعنی اس لیے انسانوں کے بجائے خدائے برحق کی
خوشنودی اہل ایمان کی زندگی کا مقصد و نصب العین ہونا چاہیے۔قرآنی آیات
کے اس سلسلے میں دوبارہ الٰہی قوانین کی تلقین سے قبل یہ آفاقی حقیقت بیان
کی گئی ہے کہ :’’ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل
مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا،
لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں
تمہاری آزمائش کرے‘‘۔ یعنی ان مختلف قوانین کا وجود باذن اللہ تعالیٰ برائے
آزمائش ہے ۔ ان کے درمیان مومنین کو حکم دیا گیا کہ:’’ لہٰذا بھلائیوں میں
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر
جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے
ہو‘‘۔
اسلام یعنی خیر و سلامتی کے راستے میں مسابقت کی رغبت کے بعد پھر سے فرمایا
گیا:’’ پس اے محمدؐ!آپ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے
معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ
لوگ آپ کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو
خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ
اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ
ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں‘‘۔گوں
ناگوں وجوہات کی بناء پر خود ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے انحراف پر اصرار
کرنے والوں سے سوال کیا گیا کہ:’’(اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں)
تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے
ہیں ان کٓے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے‘‘ ۔
کمزور ایمان والوں کی حالت بیان کرنے کے بعد یہ وعید سنائی گئی کہ:’’کسی
مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ
کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے
کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو
وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا ‘‘۔ ایما ن لانے کا تقاضہ ہی من مانی سے
دستبردار ہوجانا ہے لیکن بے شعور کمزور اہل ایمان کی کیفیت اس طرح بیان کی
گئی ہے کہ:’’اے نبیؐ! آپ نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں
کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان
کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے
معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں
طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے
بہت دور لے جانا چاہتا ہے ‘‘۔
فی الحال وطن عزیز میں یکساں سول کوڈ کا شور بپا ہے۔ ۔ یہ موجودہ حکومت کے
لیے ایک سیاسی حربہ ہے مگر مسلمانوں کے دین و ایمان کا سوال ہے۔ اس لیے اس
کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیےلیکن ایک بات یاد رہے یہ طاقتیں یکساں سول کوڈ
اسی وقت نافذ کرسکتی ہیں جب مسلمان خود شریعت پر قائم و دائم نہ رہیں۔ امت
اگر اپنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا مصمم ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی
طاقت انہیں روک نہیں سکتی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان اس آیت کو
اپنے پیش نظر رکھے کہ :’’، اے محمدؐ، آپ کے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں
ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان
لیں، پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ
محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ‘‘۔اللہ تبارک و تعالیٰ سارے اہل
ایمان کو اپنی شریعت کا پابند اور محافظ بنائے۔
|