فلاحی اور رفاہی امور میں اسلامی دستور العمل

(فلاحی تنظیموں کی امداد یا فلاحی اسلامی حکومت کیلئے جدوجہد؟)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

وصل علی محمد نبینا و قائدنا وآل اطھار المعصومین وعجل فرجھم اجمعین

ہمارے ملکِ خداد پاکستان میں تقریباً 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں اکثریت کے پاس پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔۔۔اور کرّہ زمین پر بھی وہ آبادی جس کو تیسری دنیا کہا جاتا ہے یعنی جوجدید وسائل زندگی سے محروم ہے تقریباً 80 فیصد ہے۔ اسی تناظر میں لاکھوں فلاحی تنظیمیں رفاہی کاموں کیلئے موجود ہیں اور اسی وجہ سے دنیا کے لوگوں میں عموما کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے کام آنا بہت بڑی عبادت ہے ، صدقات کی اہمیت دین میں بھی بہت ہے۔ مگر کیا جس خالق نے یہ عبادت قرار دیا وہ خود ایسے افراد کی فلاح و بہبود سے قاصر تھا جو اس نے یہ ذمہ داری ہمیں عطا فرمائی۔۔۔!! نہیں۔۔۔!! ایسا نہیں بلکہ خدا کے سسٹم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں بنیادی قانون آزمائش، امتحان کا ہے اسی کے ذیل میں باقی تمام قوانین ہیں۔ اسی میں ایک قانون تربیت کا ہے۔ محنت بھی ایک قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نعمتیں فراہم کرنے کے بعد علم و دانش ، فکر و تدبر ، ہمت و ارادے وغیرہ کے قانون کو انسانی معاشرے میں جاری فرما کر اس بات کو یقینی بنایا کہ جو بھی ان صفات سے متصف ہوگا اس کے پاس نعمتوں کی فراوانی ہوگی۔۔۔ وہ زیادہ مسرت سے آشنا ہوگا نیز اس کی دنیا بھی سعادت مند ہوگی اور یہی دنیا آخرت کی کھیتی قرار پائے گے۔ اسی لئے علم و دانش، فکر و تدبر، ہمت و ارادے کو خود اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے میں اپنے منتخب اولواالعزم افراد کے ذریعے تعلیم دلوایا اور تربیت دلوائی۔

دیگر انسانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کو دیگر افراد کی دنیوی اور اخروی فلاح کیلئے تقسیم کریں۔

معاشرہء انسانی میں حکومت اور معاشرہ کی نظامت کی ذمہ داری بھی فلاحی اور رفاہی امور میں سے ہے۔ اسی باعث اللہ تعالیٰ نے اپنے پرکھے ہوئے ان اولوالعزم بندوں کو معاشرے انسانی کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے منتخب کیا، اوراسی وجہ سے حکومت اگر عادلانہ اور منصفانہ ہو اور خداتعالیٰ کے حضور خود جوابدہ تصور کرتی ہے اور منصب حکومت کو خدا کی طرف سے بندگان خدا کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری تصور کرتی ہے تو ایسی حکومت کے قیام کیلئے کی جانی والی کوششیں جیسے روٹی کپڑا مکان وغیرہ کیلئے فلاحی تنظیمیں بنانے سے کروڑوں درجہ افضل ہے۔ مگر دنیا پرست، نفس پرست، فاسد اغنیاء نے اس شعبہ اور ادارے یعنی حکومت کو بھی دولت اور وسائل لوٹنے کیلئے وقف کیا ہوا ہے۔یہ اغنیاء ہیں جو ظلم و جور کے وسیلے سے مال جمع کرتے ہیں اور انسانوں کو مظلوم بناتے ہیں اور پھر انسانیت ہمارا مذہب کا نام لے کر سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتےہیں، انہی اغنیا کے کنٹرول میں تمام سماجی شعبے ہیں اور یہ فلاحی تنظیموں کے ذریعے صرف اپنے لئے احساس ہمدردی پیدا کرتے ہیں جب کہ مظلوم کو اس کا حق پھر بھی نہیں مل پاتا جتنا کہ وہ حق دار ہے۔ ظلم کا پورا نظام ہے جس کے متبادل نظام آنےسے یہ اغنیا گھبراتے ہیں اور خوفزدہ رہتے ہیں اور ہر متبادل تحریک جس سے اس موجودہ نظام کو خطرہ ہو روکنے کی کوششیں کرتےہیں۔اس ظلم کے نظام کے لئے یہ فلسفے تراشتے ہیں علمی بنیادیں فراہم کرتےہیں، میڈیا سے پروپیگنڈا کرتے ہیں، سیاسی راہنماؤں کو زیر کرتے ہیں، ممالک کی افواج، عدلیہ، پولیس، کاروباری طبقے کو رشوتوں سے خریدتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی شخص فقیر نہیں ہوتا مگر یہ کہ دوسرے اغنیاء اس کے حق سے بہرہ مند ہورہے ہوں۔

لہذا ان اغنیاء سے جہاد یا ان کے مقابل الہٰی نظام حکومت بنانے کیلئے جو فلاحی و رفاہی تحریک چلنی چاہیے وہ قرآنی دستور العمل کے یعنی سیرت رحمت للعالمین سرکارِ کریم کے مطابق دو حصوں پر مشتمل ہے یعنی مکی مرحلہ اور مدنی مرحلہ۔ ہمارے لئے مکی مرحلہ بہت طویل ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ داعیانِ تحریک اپنی زندگی میں مدنی مرحلے کو نہ دیکھ سکیں۔۔۔اس کے باوجود یہ ایک بہت ہی بنیادی مرحلہ ہے یعنی معاشرے کے افراد کے عقیدے، افکار اور ذہن سازی کا، تعلیم و تربیت اور آفاقی و انفسی شعور فراہم کرنے کا, وسائل کی ڈکیتی کرنے والے فاسد اغنیاء سے باگ ڈور چھیننے کی تربیت کا۔۔۔۔ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا۔۔۔۔۔ حکمرانوں کی جگہ الہی منصوب حکمرانوں کو مسند خلافت الٰہیہ پر بٹھانے کا ۔۔۔۔

مولا علی ؑ کی درج بالا حدیث مبارکہ کے تناظر میں فلاحی کاموں میں لوگوں کو کھانا کھلانا، کپڑا دینا، گھر دینا، شادی کروانا، تعلیم دلوانا، علاج معالجہ کروالینا وغیرہ سے زیادہ اس رُخ پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے اغنیاء ہیں جو ایسے افراد کے حقوق کو غصب کررہے ہیں۔ لہذا اس حدیث مبارکہ کے تناظر میں اصل اور بنیادی کام جو فلاح و بہبود کے نام پر ہونا چاہیے وہ ایسے افراد کی غصبِ حقوق اور وسائل پر ڈاکہ ڈالنے والے اغنیاء کو روکنا اور ان کے منصوبوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ اگر یہ مجاہدت کوئی نہیں کررہا ہے اور روٹی، کپڑے وغیرہ محروموں میں تقسیم کررہا ہے تو وہ اس غصے اور جہادی جذبات کو کم کررہا ہے جو ان محروم و ناداروں میں وسائل نہ ملنے پر ڈاکوؤں سے پیدا ہوتے۔

اگر لوگ اس مجاہدت کو منفیات کی طرف رغبت کہیں تو ان کیلئے دستور عمل یہ ہے کہ وہ خالق کے بتائے ہوئے اصولوں اور قوانین یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کو اس طرح تبلیغ کریں کہ عالمی معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور مادّی وسائل کے ساتھ ساتھ معنوی اور روحانی، عقلی وسائل سے بھی بھرپور استفادہ کرنے کے قابل ہوجائے۔ اور دنیا کے مادّی وسائل کو آخرت کی تیاری کیلئے استعمال کرے۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی بنانے کیلئے حکومتی انتظامیہ پر عادل اور منصف حکمران کو بٹھانے کیلئے جدوجہد کرے۔ انسانی معاشرے میں محروم و مستضعف دین کی چھتری تلے جب جب ایسی فلاحی و رفاہی تحریک کی پشت پناہی کریں گے جو ان کو خالق حقیقی سے توسل کے ساتھ دنیاوی مسرتیں بھی فراہم کرے جو انسانی معاشرے کے عقل و قلب کو روشن کردے اور ایسی حکومت کیلئے جدوجہد کرے تو وہ ایسے کروڑوں انفاق و صدقات و زکواۃ، انسانی حقوق کی تنظیموں، رفاہی اور فلاحی تنظیموں سے کروڑوں درجہ بہتر ہے۔ لہذا روٹی، کپڑا ، مکان وغیرہ کیلئے جدوجہد کرنے کے بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے نظام کے قیام کی کوشش کریں جس میں خود پورا نظام سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، ابلاغی انتظامات کو جامع انداز میں انسانوں کے حقوق کی ادائیگی اور حفاظت کا فریضہ انجام دے اور معاشرے کے تمام انسانی طبقات سے لیکر حیوانات ، نباتات اور جمادات سے لیکر خود بینی مخلوقات کو بھی اس دولت کریمہ سے فیضیاب کرے۔

ظالموں اور ستمگروں کے خلاف قیام کرنا مظلوموں اور کمزوروں کے حصولِ حقوق کیلئے حکومت کی خاطر جدوجہد کرنا واجب ہے

مظلوموں اور مستضعفوں کی مدد کرنے کیلئے ہر حلال وسیلہ استعمال کرنے کا حکم:

آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ تم جنگ نہیں کرتے راہ خدا میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر جو فریاد کر رہے ہیں۔ پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال دے۔ جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لئے کوئی سرپرست اور حامی و مددگار بنا۔

(سورہ نساء/75)

مظلوموں، کمزوروں کی مدد کرنا الہٰی خدائی حکم ہے:

بےشک فرعون زمین (مصر) میں سرکش ہوگیا تھا اور اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس نے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور بنا رکھا تھا (چنانچہ) ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں (لڑکیوں) کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بےشک وہ (زمین میں) فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون، ہامان اور ان کی فوجوں کو ان (کمزوروں) کی جانب سے وہ کچھ دکھلائیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔

(سورہ قصص/ 5، 6)

مستضعفوں کی قیادت کرنے پر منکرین کا اعتراض:

اس پر ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ (اے نوح) ہم تو تمہیں اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتے کہ تم ہم جیسے ایک انسان ہو۔ اور ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے وہ ہم میں سے بالکل رذیل لوگ ہیں اور انہوں نے بھی بے سوچے سمجھے سرسری رائے سے کی ہے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی برتری نہیں دیکھتے بلکہ تم لوگوں کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔

(سورہ ھود/27)

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کرنے کا پہلا فریضہ خداوند تعالیٰ کا ہے کیوں وہی تمام جہانوں کا پالنہار ہے، سختیاں اور رکاوٹیں اُسی کے دم سے دور ہوتی ہیں اور خداوند تعالیٰ ہی کی مدد اور استعانت کسی مظلوم فرد یا قوم کیلئے کسی مددگار یا رہبر و قائد کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔جدید دور کی ظلمتیں اور تاریکیاں بظاہر بہت دلفریب اور پر لطف نظر آتی ہیں مگر اِن امور میں آخرت کی تلخی اور عذاب چھپا ہوتا ہے، سیاست، ثقافت و میڈیا، معاشی معاملات، تعلیمی معاملات وغیرہ

حکومت حقوق کی ادائیگی کا غصب کرنے میں بنیادی وسیلہ ہے لہذا حقوق کے حصول یا ادائیگی کیلئے سب سے موثر ذریعہ حکومت ہے۔ ہر طبعی معاملہ میں جہاں انسانی عقل و ضمیر فیصلہ کرسکے اُس میں قرآن و حدیث کو اسے فطرت کے قانون کے تحت حل کرنا ہے ، حدیث رسول ﷺ ہے : عقل نبی باطن ہے، نیز خود انسانی تجربات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ ظاہر میںنبی کی پہچان یہی نبی باطن کرتی ہے۔اسلام طبعی و فطری ضروریات کوپورا کرنے کے سلیقے ، تہذیب و اخلاقی قاعدوں سے آگاہ کرتے ہیں جو عقل فطری کے بعد عقل کسبی میں اضافہ کے ساتھ بھی درک کیے جاسکتے ہیں۔ دشمن حملہ آور ہو، مال و اسباب لوٹا جارہا ہو، خاندان اسیر کیاجارہا ہو ، انسانوں کے موت گھاٹ اتارا جارہا ہو اور وہ بھی صرف ہوس نفسانی اور پست مقاصد کی تکمیل کی خاطر ، اس موقع پر اپنا یا مظلوموں و بیکسوں کا دفاع عقلی و فطری اور ضمیر کی آواز ہے ،اسلامی منابع بھی اسی کی تائید کرتےہیں ، جیسے کہ اوپر کی چند آیات میں واضح کیا گیا۔البتہ آج کے جدید استعماری ہتھکنڈوں جن کی ابتدا قرون وسطیٰ میں یورپی انسانوں کے بحری سفروں سے شروع ہوتی ہے اور مابعد جدیددور میں سرمایہ داری، اشتراکیت، اشتمالیت کی صورت میں انسانی حقوق کو غصب کیا جارہا ہے جس کو کوئی بھی پڑھا لکھا شخص دقیق طور پر درک کرسکتا ہے مگر کمزور عوام اس کو زمانے کی ستم ظریفی قرار دے کر سہہ جاتے ہیں اور حقیقی انسان دشمنوں کی معرفت سے دور رہتے ہیں۔ انہی سیاسی ، معاشی، ثقافتی و تہذیبی، تعلیمی دہشت گردی کے آگے بند باندھنا ایسی صورت میں کہ جب حجت خدا ، حضرت ولی العصر (عج) غیبت میں ہیں ہر ذمہ دار قرآنی نشانیوں کو اپنا راہنما ماننے والے پر لازم ہے کہ مظلوموں کی مدد اور استعانت کیلئے کوشش کرے، یقیناََ یہ کام حضرت حجت (عج) کا ہے لیکن وہ صرف تنہا اس کام کیلئے مقرر نہیں کیے گئے بلکہ مومنین اور مستضعفین پر بھی لازم ہے کہ اُن کی نصرت کیلئے اپنی اور اپنیآئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کیلئے اور دیگر انسانوں کی ظلم و ستم کے شکنجوں سے نجات کیلئے کوشش کریں۔ اس زمانہ غیبت میں سب سے زیادہ ذمہ داری اُس فقیہ کی ہے جو اس بات کی اہلیت بھی اپنے اندر پائے نیز اسقدر حواری دستیاب ہوں جو اس ظلم و ستم کشی میں اُس کی معاونت کرسکیں تو اُس پر واجب ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ البتہ جس فرد یا قوم و گروہ کے پاس ایسا فقیہ یا مومن دستیاب نہ ہو تو اُن کیلئے ہجرت کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ اپنے دین ، اپنے دست نگروں، اپنی آئندہ نسلوں کیلئے عقیدہ کو قائم رکھ سکیں اور اس ظلم و ستم کے شکنجوں سے نبرد آئندہ یا کسی ایسے فرد یا قوم کیلئے رکھ چھوڑیں جو قیام کی عقلی وشرعی شرائط پر پورا اتریں گے۔ظلم و ستم کی بیخ کنی کیلئے طاقت کے مرکز کے عنوان کے تحت اگر حکومت میں شرکت حاصل کرنا ، حکومت کا تختہ الٹنا ضروری ہو تو واجب ہے کہ فقیہ یا مومن فرد /افراد گروہ اس امرکیلئے کوشش کرے اور مرحلہ وار کام کرے نیز مخلوقات کی فلاح و بہبود جس میں اولیت انسان کو حاصل ہے کی خاطر ہر نیک نیت کے ساتھ روبہ عمل ہونا واجب ہے۔ خواہ اس عمل کا دائرہ کار حکومت میں شرکت یا حصول، تعلیمی جدتوں کالانا، معاشی علوم کے ذریعے جدید پالیسیوں کی تیاری، ثقافتی و تہذیبی ارتقاء کیلئے ذرائع ابلاغ میں جدتیں لانا ہو۔ وغیرہ

امامت اور رہبری کا مسئلہ دین محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسی لئے انتہائی حساس، اہم اور بنیادی اور اصولی مسئلہ ہے۔۔۔ یہ مسئلہ تمام نیکیوں میں سب سے اولیٰ نیکی ، تمام واجبات میں سے بڑا واجب ، مثبتتات میں سب سے زیادہ مثبت، تخلیقی اور تعمیری امور میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے، اس کا شعور اور اس نظام امامت کے قیام اور نفاذ کیلئے اگر ہمیں سوتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے، تفریح کے اوقات میں بھی سنجیدہ ہونا پڑے تو یہی وہ عبادت ہے جو تمام زکواۃ، خمس، صدقے، حج و نماز سے افضل ترین عبادت ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے نفاذ کے بعد تمام امور منظم ہونا شروع ہوجائیں گے اور عالم انسانیت قرار و اطمینان پائے گا۔

اَللّهُمَّ اِنّا نَرْغَبُ اِلَيْكَ في دَوْلَة كَريمَة تُعِزُّ بِهَا الإسلام وَاَهْلَهُ، وَتُذِلُّ بِهَا النِّفاقَ وَاَهْلَهُ،

اے ہمارے رب ہم آپ سے ایک ایسی کریم اور پر برکت حکومت چاہتے ہیں جو اہل حق و یقین منصف مزاجوں کیلئے عزت اور شرف اور جھوٹے ریاکاروں منافقوں کیلئے ذلت کا باعث ہو۔

(دعائے افتتاح سے ماخوذ)
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.