|
|
پچاس سال پہلے دو برطانوی ملاح آئرلینڈ سے 150 میل دور ایک آبدوز میں
تقریباً 1500 فٹ کی گہرائی میں لاپتہ ہو گئے تھے۔
1.8 میٹر کے قطر کی سٹیل کی اس آبدوز میں تین دن تک پھنسے رہنے کے بعد جب
ان افراد کو بچایا گیا تو ان کے پاس صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی۔
یہ 29 اگست 1973 کی بات ہے جب رائل نیوی کی سابق افسران راجر چیپ مین اور
انجینیئر راجر مالنسن ایک حادثے میں بحر اوقیانوس کی تہہ میں لاپتہ ہو گئے۔
اس وقت چیپ مین 28 جبکہ مالنسن 35 برس کے تھے۔
رابطہ منقطع ہونے کے بعد انھیں 76 گھنٹے کے بین الاقوامی ریسکیو آپریشن کے
بعد ریسکیو کر لیا گیا۔
پائلٹ راجر چیپ مین اور سینئر پائلٹ راجر مالنسن نے پائسس تھری کو معمول کے
مطابق رات ایک بج کر 15 منٹ پر پانی میں اتارا۔ کینیڈا کی یہ کمرشل آبدوز
آئرش پوسٹ آفس کی جانب سے چارٹر کی گئی تھی آئرلینڈ کے شہر کارک کے جنوب
مغرب میں 150 میل دور سمندر کی تہہ میں ٹرانس اٹلانٹک ٹیلی فون کیبل بچھا
رہی تھی۔
چیپ مین نے بتایا کہ عام طور پر ’1600 فٹ یعنی 500 میٹر کی گہرائی تک
پہنچنے میں تقریباً 40 منٹ لگتے تھے اور واپس اوپر آنے میں اس سے کچھ کم۔
ہم آٹھ گھنٹے کی شفٹیں کرتے تھے، سمندر کی تہہ پر آدھے میل فی گھنٹہ کی
رفتار پر سفر کرتے، پمپس اور جیٹس نصب کرتے اور پھر کیبل بچھاتے اور اس بات
کو یقینی بناتے ہیں کہ مکمل طور پر کیبل ڈھکی ہوئی ہو۔ یہ بہت سست اور گندا
کام تھا۔‘
|
|
|
مالنسن کا کہنا ہے کہ حدِ نگاہ کم ہونے کے باعث یہ کام
انتہائی تھکا دینے والا بن چکا تھا۔
’یہ ایسا تھا جیسے شدید دھند میں موٹروے پر سفر کرنا اور ایک سفید لکیر کا
تعاقب کرنے کی کوشش کرنا۔
’آپ کو ناقابلِ یقین حد تک اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔ ایک پائلٹ
کے ایک ہاتھ میں آبدوز کا کنٹرول ہو گا اور دوسرے ہاتھ میں ایک مینیپیولیٹر
اٹھانا ہوتا جس سے دائیں، بائیں، آگے یا اوپر نیچے جایا جا سکتا تھا۔ پھر
ہم یہ کام بانٹ لیتے۔
یہ انتہائی مشکل کام تھا۔ ہمیں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر یہ کام کرنا پڑتا۔
مالنسن شفٹ کے بعد بھی 26 گھنٹے تک سو نہ پائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پچھلے غوطے
میں پائسس کے مینوپولیٹر کو نقصان پہنچا تھا اس لیے میں نے پورا دن اس کی
مرمت میں لگا دیا۔
’میں پائسس تھری کو اندر سے جانتا تھا کیونکہ جب یہ کینیڈا سے پرزوں کی
صورت میں آیا تھا تو میں نے اسے یہاں دوبارہ جوڑا تھا۔‘
یہ ان کی قسمت تھی کہ مالنسن نے اس دوران آکسیجن ٹینک کو تبدیل کرنے کا
فیصلہ کیا۔
’ایک غوطے کے لیے اس آکسیجن ٹینک میں وافر آکسیجن موجود تھی لیکن پتا نہیں
کیوں میں نے اسے ایک مکمل ٹینک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کوئی آسان
کام نہیں تھا کیونکہ یہ بہت بھاری تھی۔‘
’مجھے اس ٹینک کو جس میں اب بھی آدھی آکسیجن باقی تھی کو تبدیل کرنے پر
سرزنش کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لیکن اگر میں ایسا نہ کرتا تو ہم زندہ نہ
رہ پاتے۔‘
کیبل بچھانے کے ساتھ ساتھ پائلٹس کو اپنا خیال بھی رکھنا ہوتا تھا۔ ہر 40
منٹ میں وہ لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ کا پنکھا آن کرتے تاکہ وہ کاربن ڈائی
آکسائیڈ کے اثر کو زائل کر سکیں جو وہ سانس کے ذریعے نکال رہے تھے۔‘
|
|
حادثہ
صبح ساڑھے نو بجے جب وہ سطح سمندر پر واپس پہنچے تو وہ ٹاور لائن منسلک
ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ انھیں واپس بحری جہاز پر لایا جا سکے۔
چیپ مین بتاتے ہیں کہ ’اس اثنا میں رسیوں اور زنجیروں کے آبدوز سے ٹکرانے
کی آوازیں آنے لگیں جو ایک معمول کی بات تھی۔ لیکن پھر اچانک سے آبدوز تیزی
سے نیچے کی جانب جانے لگی اور ہم بالکل سیدھے سیدھے نیچے کی طرف آنے لگے۔
ایک چھوٹا سا واٹر ٹائٹ حصہ جہاں مشینری ہوتی ہے اس کا ہیچ ہٹنے کے باعث اس
میں پانی گھس چکا تھا۔ آبدوز اچانک بہت بھاری ہو چکی تھی۔‘
مالنسن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں بہت زیادہ جھٹکے لگ رہے تھے۔ یہ بہت خوفناک تھا،
جیسے سب کچھ خراب ہو چکا ہو یا ٹوٹ چکا ہو۔‘
انھوں نے سب سے پہلے برقی نظام کو بند کر دیا، یوں اندر مکمل اندھیرا چھا
گیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے آبدوز کو ہلکا کرنے کے لیے 181 کلوگرام وزن بھی
گرایا تاکہ اس ہلکا کیا جا سکے۔
مالنسن کہتے ہیں کہ ’ہمیں سمندر کی تہہ پر پٹخنے میں صرف 30 سیکنڈ لگے۔ ہم
نے 500 فٹ (152 میٹر) پر گہرائی ناپنے والا آلہ بند کر دیا تھا کیونکہ یہ
پھٹ سکتا تھا اور وہاں موجود تکیوں کا استعمال کرتے ہوئے خود کو چوٹوں سے
بچانے کے لیے ہم اپنے گھٹنے اپنے سر تک لے آئے۔ ہم نے سفید کپڑا اپنے منھ
میں ڈال لیا تاکہ اپنے زبان کو زخمی ہونے سے بچا سکیں۔‘
جب آبدوز تہہ سے ٹکرا گئی تو مالنسن کی پہلی سوچ اس بات کا شکر ادا کرنا
تھی کہ وہ زندہ ہیں، بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ یہ 40 میل فی گھنٹہ (65
کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے تہہ سے ٹکرائی تھی۔
یہ ساڑھے نو بجے کا وقت تھا اور 1575 فٹ گہرائی میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم زخمی نہیں ہوئے تھے لیکن ہر جگہ ہماری کٹ پھیلی ہوئی
تھی۔ ہم وہاں ٹارچ لے کر بیٹھے تھے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم ایک گڑھے سے
ٹکرا گئے تھے، اس لیے ہم سمندر کی تہہ سے بھی نیچے موجود تھے۔‘
|
|
رابطہ کرنے کی کوشش
دونوں نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور یہ پیغام بھیجا کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں،
ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ خود کو منظم کر رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی اشاریے بتاتے ہیں کہ ان کی آکسیجن کی
سپلائی سنیچر کی صبح تک جاری رہے گی۔ سفر کے آغاز میں ان کے پاس 72 گھنٹے
کی آکسیجن تھی لیکن اس سے قبل وہ آٹھ گھنٹے کی آکسیجن استعمال کر چکے تھے۔
اب ان کے پاس صرف 66 گھنٹے باقی تھے۔
چیپ مین کے مطابق دونوں نے پہلے چند گھنٹے خود کو منظم کرنے میں گزارے۔
وہ کہتے ہیں ’آبدوز تقریباً الٹ چکی تھی اور ہمیں اسے دوبارہ ترتیب دینا
تھا، اپنے سامان کو ٹھیک کرنا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کچھ
لیک تو نہیں ہو رہا۔‘
انھوں نے فیصلہ کیا کہ اگر آکسیجن باقی رہے گی تو انھیں بہت کم استعمال
کرنے کی ضرورت ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ آکسیجن استعمال نہیں کرتے، تو آپ ایک چوتھائی
آکسیجن کا استعمال کرتے ہیں، آپ نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی حرکت کرتے ہیں۔‘
مالینسن کے مطابق دونوں نیچے کی طرف بیٹھی ہوئی گندی، بھاری ہوا سے جتنا
اوپر ممکن ہو سکا لیٹ گئے۔ آبدوز کا اندرونی قطر صرف چھ فٹ تھا اس لیے ان
کے پاس جگہ کم تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے مشکل سے بات کی، صرف ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور کچھ
دیر بعد ایک دوسرے کو یہ دکھانے کے لیے دبایا کہ ہم ٹھیک ہیں۔‘
’بہت سردی تھی۔ میں ویسے بھی اچھی حالت میں نہیں تھا کیونکہ میں نے ابھی
تین یا چار دن دن پہلے تیزابیت کا شکار ہونے کے باعث کچھ زیادہ نہیں کھایا
تھا لیکن ہمارا کام زندہ رہنا تھا۔‘
ادھر سمندر کی سطح پر ریسکیو کی کوششیں جاری تھیں۔
امدادی جہاز وکرز وینچرر جو اس وقت بحیرہ شمالی میں تھا سے ساڑھے 10 بجے
رابطہ کیا گیا اور آبدوز پائسس ٹو کو واپس لانے کی ہدایت کی گئی۔
رائل نیوی کے ایچ ایم ایس ہیکیٹ کو پر 12 بج کر نو منٹ پر خصوصی رسیوں کے
ساتھ جائے وقوعہ پر بھیجا گیا اور آر اے ایف کا نمروڈ طیارے نے اوپر سے
پرواز کی۔
امریکی بحریہ کی ایک آبدوز کرو تھری جو سمندر سے بم نکالنے کے لیے ڈیزائن
کیا گیا تھا کیلیفورنیا سے بھیجا گیا تھا اور کینیڈین کوسٹ گارڈ کا جہاز
جان کیبوٹ سوانسی سے روانہ ہوا۔
|
|
جمعرات 30 اگست
اس دوران بحری جہاز وکرز وائجر پائسس ٹو اور پائسس فائیو کو لوڈ کرنے کے
لیے جمعرات کی صبح آٹھ بجے پہنچا۔ پائسس فائیو کو ہوائی جہاز کے ذریعے
منگوایا گیا تھا۔ بحری جہاز آئرش شہر کارک سے 10:30 بجے پر روانہ ہوا۔
دریں اثنا، چیپ مین اور مالنسن نے دیکھا کہ ان کی آکسیجن کی سپلائی کم ہونا
شروع ہو گئی ہے۔
چیپ مین کے مطابق اس وقت دونوں کے پاس صرف ایک پنیر کی ٹکی، سینڈوچ اور ایک
لیموں پانی کا کین تھا لیکن وہ کچھ بھی کھانا پینا نہیں چاہتے تھے۔
’ہم نے آکسیجن کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ کاربن ڈائی آکسائیڈ بنائی۔ ہمارے
پاس ہر 40 منٹ پر نظر رکھنے کے لیے ٹائمر تھے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے ہمیں
تھوڑا سست اور غنودگی کا شکار بنا دیا تھا۔‘
چیپ مین کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے خاندانوں کے بارے میں بھی سوچنا شروع کیا۔
میں نے ابھی شادی کی تھی، اس لیے میں اپنی بیوی جون کے بارے میں سوچ رہا
تھا لیکن راجر مالنسن کے چار چھوٹے بچے اور ایک بیوی تھی، اور وہ اس بارے
میں تھوڑا سا پریشان ہونے لگا کہ وہ کیسے ہیں۔‘
تاہم مالنسن کا کہنا ہے کہ ایک بحری جہاز نے ان کے لیے ایک پیغام چھوڑا جس
سے ان کو ’بہت تسلی‘ ہوئی۔
’ہمیں ملکہ الزبتھ کی طرف سے ایک پیغام ملا، انھوں نے ہمارے لیے نیک
تمنائیں بھیجیں۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ آپ سردی محسوس کر رہے ہوں اور پھر کچھ
ایسا ہوتا ہے جس سے ایڈرینالین بڑھتا ہے اور آپ کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔‘
’یہ پتہ چلا کہ یہ ملکہ الزبتھ دوم بحری جہاز تھا جس نے مے ڈے کے جواب میں
ہمارے ساتھ سٹینڈ سٹیشن رہنے کے لیے امریکہ سے اپنا راستہ تبدیل کر دیا تھا،
لیکن چونکہ یہ بہت رسمی پیغام تھا اس لیے ہم نے فرض کر لیا کہ یہ ملکہ ہی
ہیں۔‘
|
|
جمعہ 31 اگست
چیپ مین بتاتے ہیں کہ جمعہ کا روز سطح سمندر پر ہونے والی کارروائی کے
حوالے سے ایک آفت سے کم نہیں تھا۔
پہلے پائسس ٹو کو رات دو بجے لانچ کیا گیا تھا۔ اسے ایک خاص پولی پروپیلین
رسی کے ساتھ بھیجا گیا تھا جو سنیپ ہک کے ساتھ منسلک تھا لیکن لفٹنگ رسی
مختلف وجوہات کے باعث پھٹ گئی، اس لیے اسے مرمت کے لیے واپس بحری جہاز میں
جانا پڑا۔
پائسس فائیو کو ایک ٹوگل کے ساتھ منسلک پولی پروپیلین لائن کے ساتھ دوبارہ
لانچ کیا گیا۔ وہ اسے سمندر کی تہہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ
متاثرہ پائسس تھری کو نہیں ڈھونڈ سکا۔ اسے توانائی ختم ہونے کے باعث سطح پر
واپس آنا پڑا اور بعد میں دوبارہ کوشش کرنی پڑی۔
چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’پائسس فائیو کے ہمیں ملنے سے پہلے تقریباً 1 بجے کا
وقت تھا۔ یہ جاننا حیرت انگیز طور پر حوصلہ افزا تھا کہ کسی کو معلوم ہے کہ
ہم کہاں ہیں لیکن جب پائسس فائیو کا سنیپ ہک کو جوڑنے کی کوشش کی تو یہ
کوشش ناکام ہو گئی۔‘
’ہماری 72 گھنٹے کی آکسیجن ختم ہو چکی تھی، ہمارے پاس لیتھیم ختم ہو رہا
تھا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف کرنے کے لیے ہائیڈرو آکسائیڈ کا استعمال
کیا گیا تھا، یہ بہت برا اور ٹھنڈا تھا اور ہم یہ سوچ کر تقریباً ہار مان
چکے تھے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
چیپ مین کہتے ہیں کہ ایک چیز جس نے اس کی مدد کی وہ وہاں ڈولفن کی موجودگی
تھی۔
’ہم نے ڈولفنز کو 28 تاریخ کو دیکھا تھا، اور اگرچہ اب ہم انھیں نہیں دیکھ
پا رہے تھے، میں پورے تین دن تک پانی کے اندر ٹیلی فون پر ان کی آوازیں سن
سکتا تھا۔ اس سے مجھے بہت خوشی ملتی تھی۔‘
سنیچر یکم ستمبر
پائسس ٹو کو خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ ٹوگل اور ایک اور پولی پروپیلین لائن
کے ساتھ دوبارہ بھیجا گیا۔
چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’صبح پانچ بجے کے بعد ہی اس نے ہم پر ایک لکیر لگائی
تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہم زندہ ہیں۔
لیکن مالنسن کا کہنا ہے کہ انھیں یقین نہیں تھا کہ لفٹ کام کرے گی۔
’مجھے لگتا ہے کہ اس وقت اگر وہ ہم میں سے کسی سے پوچھتے کہ کیا ہم انھیں
چھوڑنا چاہتے ہیں یا اٹھانا چاہتے ہیں تو ہم دونوں کہتے 'ہمیں اکیلا چھوڑ
دو۔‘
پائسس تھری کو اٹھانے کا کام شروع ہوا۔ چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ہم
سمندر کی تہہ سے اٹھایا، یہ بہت تھرتھراہٹ پر مبنی اور پریشان کن تھا۔‘
چڑھائی کے دوران لفٹ دو بار روکی گئی۔ ایک بار 350 فٹ پر اور دوسری بار 100
فٹ پر تاکہ غوطہ خور بھاری لفٹ لائنوں کو جوڑ سکیں۔
مالینسن کا کہنا ہے کہ ’ہم ہل جُل رہے تھے اور لرز رہے تھے اس لیے انھیں
مزید رسیاں لینے کی ضرورت تھی، تاکہ وہ ایک ہی دفعہ اٹھ سکیں۔‘
چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’شاید انھوں نے سوچا کہ ہم مر چکے ہوں گے۔ جب انھوں
نے ہیچ کو کھولا اور اس میں تازہ ہوا اور سورج کی روشنی اچانک داخل ہوئی تو
ہمارے سر درد کرنے لگے۔
’لیکن ہماری حالت خاصی مخدوش بھی اور آبدوز سے باہر نکلنا کافی مشکل تھا۔
ہم مشکل سے چل سکتے تھے۔‘
درحقیقت مالینسن کا کہنا ہے کہ ہیچ کو کھولنے میں 30 منٹ لگے۔ وہ کہتے ہیں
کہ ’اسے بند کر دیا گیا تھا اور یہ الٹا نہیں کھلے گا۔‘
’جب یہ کھلا تو بندوق کی طرح اس کا دروازہ کھلا، اب ہم صرف نمکین سمندری
ہوا کو سونگھ سکتے تھے۔‘
یہ دونوں افراد 84 گھنٹے 30 منٹ بعد بالآخر بچا لیے گئے تھے۔
چیپ مین کا کہنا ہے کہ ’جب ہم نے غوطہ لگایا تو ہمارے پاس 72 گھنٹے کی لائف
سپورٹ تھی لیکن ہم مزید12.5 گھنٹے گزارا پائے۔
’جب ہم نے سلنڈر میں دیکھا تو ہمارے پاس 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |