قَالُواْ سُبْحَٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ۖ
إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ .
میں تیرے نام سے کرتا ہوں بات مولا
میرے لفظوں کو بخش دے حیات مولا
اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں ، آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا
،،،،سلامت رہیں ۔۔۔ اللّٰہ کریم کامیاب فرمائے ۔۔ آمین
نوائے ادب پاکستان کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ ہو رہی ہے اور نعمان عارف
صاحبِ کا شکریہ کہ مجھے اس قابل سمجھا ۔۔۔۔اہل قلم کی ذمہ داریاں کیا ہیں
اس حوالے سے بات کرنے سے پہلے میں اپنا مختصراً تعارف کروانا ضروری سمجھتا
ہوں ،
میرا نام بابرالیاس جبکہ قلمی نام بھی یہی ہے ،قلمی نام لکھنے کے بارے میں
ابھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔میرا تعلق پنجاب کی تاریخی تحصیل چیچہ وطنی سے ہے ۔
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے کے بعد دراسات دینیہ کا دو سالہ کورس وفاق
المدارس العربیہ کی جانب سے کیا ہے ،
ادب کی طرف آنا ایک حادثہ ہی کہہ لیں ،2007 سے 2013 تک مسلسل کالم پڑھنے کا
شوق 2013 میں لکھنے کی دنیا میں لے آیا اور اللّٰہ کے فضل سے یہ سفر جاری
ہے اور ہفتہ روزہ اخبار جہاں کراچی میں میرا پہلا ناول ۔۔۔ جہنم ۔۔۔۔ شائع
ہو چکا ہے اور اب 3 جولائی سے دوسرا ناول ۔۔۔قید۔۔۔شائع ہونے جا رہا ہے
امید ہے کہ پڑھنے والوں کو پسند آئے گا ۔میری پہلی کتاب "امام کائنات صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم"شائع ہو چکی ہے،اور اب میرا عشق میرا فورم"حب الادب "
ہے کہ میں لکھاریوں میں دین کی تڑپ دیکھنا چاہتا ہوں ،
اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔۔۔۔
میرے خیال میں موجودہ صورت حال میں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے جذبات
اور اختلافات کے دور میں لوگوں کے ذہنوں سے نفرتوں کو ختم کرنے اور غم کی
جگہ مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے اہل قلم کا کام منفرد اور ممتاز ہے ۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
عربی زبان میں ’’ قلم‘‘ کے معنی کاٹنے یا تراشنے کے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ
تراشنے اور کاٹنے سے ہی کوئی چیز انسانی استعمال کے قابل بنتی ہے۔
حضرت ابن عمرؓ کی حدیث شریف ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے
تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق و پیدائش سے پچاس ہزار
سال پہلے لکھ دیا تھا۔ (مسئلہ تقدیر پر بحث کرنے سے حضورؐ نے منع فرمایا
ہے) حضرت قتادہؓ نے فرمایا کہ قلم خدا تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے جو اس نے اپنے
بندوں کو عطا فرمائی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے ایک
قلم، قلم تقدیر پیدا فرمایا، جس نے تمام کائنات و مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں
پھر دوسرا قلم پیدا فرمایا، جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں
گے اور اس دوسرے قلم کا ذکر سورۃالعلق (پ30) میں آیا۔
جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
ترجمہ: ’’جس (یعنی حق تعالیٰ) نے علم سکھایا قلم سے۔ (پ 30 آیت 4)
اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں ،ماضی میں جو لکھا گیا اس کو پڑھ کر ہم اور
ہماری نسلیں سنوار رہیں ہیں یا بگڑ رہیں ہیں اور جو آپ آج لکھ رہیں ہیں یا
لکھنا چاہتے ہیں اس کو بھی مستقبل میں پڑھ کر نسلوں کو بگڑنے اور سنوارنے
کا راستہ ملے گا۔
ہر چیز کا ایک مقصد ہے اور وہی مقصد اسکی جہت اور راستے کی سمت کا تعین
کرتا ہے ،وقت بدلتا رہتا ہے ،گردش دوراں میں نئے لوگ ،کردار اور کہانیاں
ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہیں بلکہ شاید ہماری نظروں کے سامنے رقص میں
ہیں،بس ہم ہی دیکھنے اور لفظوں میں پرونے سے قاصر ہیں،ان رقص کرتی کہانیوں
کو ہمیں اپنے لفظوں کے دائرے میں لانا ہوتا ہے ،جہاں بہت سارے ادارے دنیا
کے اسٹیج پر اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں وہاں ہر لکھاری دنیا کے اسٹیج پر
اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے ،
بقول اقبال رحمۃ
آئین نو سے ڈرتا،طرزکہن پہ اڑتا"
ایک جگہ اور بقول اقبال رحمۃ
جوانوں کو پیروں کا استاد کر"
یاد رکھیں!
تحقیقی عمل ہمیشہ توجہ مانگتا ہے ،لکھاری کا معاشرے ،ماحول اور افراد سے
جڑا ہوا ہونا بہت ضروری ہے ،
قلم لکھنے کا آلہ ہے۔ قلم اندھا نہیں ، سوچتا،سمجھتا،سنتا اور دیکھتا ہے ،
قلم وہ تلوار ہے جس کا وار خالی نہیں جاتا،جھوٹ لکھیں یا سچ وہ اہمیت رکھتا
ہے ، قلم سے کرشمے دکھائے جا سکتے ہیں اور تاریخی اوراق اس کی گواہی دینے
کے لیے کافی ہیں ،
حق تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے۔ حضرت عبادہ بن الصامتؓ کی روایت میں ہے
کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سب سے پہلے حق تعالیٰ نے قلم پیدا فرمایا اور اس
کو حکم دیا کہ لکھ۔
قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟
تو حکم دیا گیا:
تقدیر الٰہی کو۔
قلم نے (حکم کے مطابق) ابد تک ازل(یعنی آخر تک جس کی کوئی انتہا نہیں)
ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا۔ (ترمذی شریف)
بےشک علم وقلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،یہ دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم و
ملزوم ہیں ۔علم وقلم سے ادب کی شاخیں پنپتی اور پروان چڑھتی ہیں،جو کہ ازاں
بعد علم وحمکمت اور دانش کا تناور درخت بن جاتیں ہیں۔
اوراقِ کْتب تواریخ کی ورق گردانی کی جائے تو علم وقلم کی طاقت سے ارتقاء
کی ان گنت منازل طے ہوئی ہیں،بلاشبہ ! علم کے آگے تیغ و سناں کی طاقتیں بھی
ہیچ نظرآتی ہیں۔عہدِ قدیم میں علم وادب صحیح معنوں میں دیکھنے،پڑھنے اور
سننے کو ملتا تھا،مگر جوں جوں سائنس اور حضرت ِانسان نے ترقی کی منازل طے
کیں ،علم وادب پر گردشِ زمانہ اور امتدادِ حیات کی دھول جمنے لگی،جو کہ
عہدِ حاضر کے ہرانسان کے لیے مقامِ دَعوت ِفکر ہے،خیر ،یہ بات تو برسبیلِ
تزکرہ ہوئی۔اصل بات کی جانب آتے ہیں۔ایک ایسی بھی چیز ہے جو کہ علم وقلم
کےلیے جزوِ لازم ہے،اور وہ ہیں اہلِ قلم ،بلاشبہ!
اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں،بشرطیکہ وہ قلم کے ساتھ مخلص اور منصف ہوں۔اس
میں کوئی دورائے نہیں ،کہ مصنف کا منصف مزاج اور غیر جانبدار ہونا بھی لازم
ہے،بصورت دیگر اس عمل کو ادبی خیانت میں شمار کیا جائے گا۔ایک حقیقت و حق
نگار مصنف پر واجب ہے ،کہ وہ ادب کی فصل کو اپنے خونِ جگر سے سینچ کر
دکھائے،کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ ادب کی تاریخ میں رقم ہوتا ہے،جو کہ آنے
والی نسلوں کے لیے مشعل ِراہ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔اہل قلم اگر قوم کا
سرمایہ ہیں،تو انہیں چاہیے،کہ وہ ہمیشہ حق وصداقت کا پرچار اپنے قلم سے
کریں،اور اوراق ِکتب تواریخ کو سنہرے الفاظ سے مزئین کریں ۔آپ کی تحاریر
والفاظ آپ کے بعد بھی آپ کی یاد بن کر زندہ رہتے ہیں۔چنانچہ لازم ہے،کہ ادب
کی خدمت بلاتفریق کی جائے۔
تعلیم کا سب سے پہلا اور اہم ذریعہ قلم و کتاب ہے۔ ایک حدیث شریف میں حضرت
ابو ہریرہؓ کی روایت سے ہے کہ جس میں حضور اقدسؐ نے فرمایا: حق تعالیٰ نے
ازل یعنی شروع و آغاز سے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنی کتاب میں جو عرش
پر حق تعالیٰ کے پاس ہے، یہ کلمہ لکھا کہ ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے
گی۔‘‘
قلم کی تین قسمیں ہیں۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ عالم میں تین قلم ہیں۔
ایک سب سے پہلا قلم جس کو حق تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تقدیر
کائنات لکھنے کا اس کو حکم دیا۔ (جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے)
دوسرے فرشتوں کے قلم، جس سے وہ تمام ہونے والے واقعات اور ان کے مقادیر
(مقدار کی جمع یعنی اندازے، تعداد اور شمارہ وغیرہ) کو نیز انسانوں کے
اعمال کو لکھتے ہیں۔
تیسرے عام انسانوں کے قلم جن سے وہ اپنے کلام لکھتے اور اپنے مقاصد میں کام
لیتے ہیں اور کتابت در حقیقت بیان کی ایک قسم ہے اور بیان انسان کی مخصوص
صفت ہے
یاد رکھیں!
اگر آپ کو لکھنے کا فن خالق کائنات نے عطا کیا ہے تو یہ اس رب کی رضا ہے کہ
وہ آپ سے معاشرے کی بہتری کا کام لینا چاہتا ہے ،قلم ہاتھ میں ہے تو رونا ،
ہسنا،کڑھنا،ظالم کو ظالم کہنا،عدل پر خوش ہونا جیسے کردار آپ اپنے لفظوں کی
مالا سے بناتے ہیں ،
قلم اگر سچائی کا عاشق نہیں تو کچھ نہیں ،دنیا کی چند روزہ زندگی انسان کے
لیے امتحان گاہ ہے ،ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ایک لکھاری
اپنے لکھنے کا حق ادا کر رہا ہے تو بہت خوب ورنہ یہ وقت کا نہیں بلکہ نسلوں
کا ضیاع ہے ۔
ایجاد قلم کے موضوع پر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ
السلام قلم کے اول موجد ہیں۔
آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا۔ (البدا یہ النہایہ )
قلم کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اصحاب علم اور دانشوران
ابتداء سے اس کو اپنے میز اور جیب کی زینت بناتے رہے ہیں۔ قلم نے تحریر کے
معاملے میں سبقت کرکے ذمہ داری لی اور اس کو منتہائے کمال تک پہنچایا۔
اللہ نے اپنی مشیت کو لوح محفوظ پر دیکھنا چاہا تو قلم نے ہی اس بار جلالت
کو برداشت کیا۔
جمع قرآن کا مرحلہ آیا تو قلم نے آگے بڑھ کر اس کار سعادت کیلئے اپنے وجود
کو پیش کیا۔
تدوین حدیث کی باری آئی تو قلم نے مزید عقیدت سے جھک کر نیاز مندی پیش کی۔
قلم نے فقہ اور اصول فقہ کے نادر نگینوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا۔
تاریخ کے نامور اہل ظرف، حکماء، علماء، فقہاء، بزرگوں اور پیشواؤں کی سوانح
کو ضبط ِ تحریر میں محفوظ کیا۔ بادشاہوں، جہاں بانوں اور فرماں رواؤں کی
داستان حیات کی تصویر کشی کی اور خودپسند، سنگ دل، سیاہ ماضی، ظالم
حکمرانوں اور سورماؤں کا انجام بد اور تباہی کے واقعات کو قلم بند کر کے
دنیا کے سامنے درس عبرت پیش کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قلم ہی کی بدولت کتاب معرض وجود میں آئی۔
اگر قلم کتاب کے سینہ پر طبع آزمائی نہیں کرتا اور اس کے اوراق پر الفاظ و
جمل کی مصوری نہیں کرتا تو وہ سادہ لوح کی گٹھڑی سے کبھی باہر نہ آتی۔ اس
کے سر پر کتاب کا سہرا نہیں چڑھتا اور وہ کتب خانوں، درس گاہوں اور طالب
علم کے پہلوؤں کی زینت نہیں بنتی۔
قلم کی اہمیت کو دوچند کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ قرآن و حدیث کے پاکیزہ
اوراق میں اس کی کارستانی کے تذکرے موجود ہیں۔
سورہ نون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے! ’’قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ
کہ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں، قدرت کی نگاہ قسم کیلئے جس پر بھی پڑھتی ہے، خواہ
وہ ذرات ہی کیوں نہ ہو، وہ رشک کندن بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون کی قسم کھائی تو وہ میوہ جات میں ممتاز
ہوگئے۔
قرآن کریم میں متعدد چیزوں کی قسم ملتی ہے۔ منجملہ ان میں سے قلم کو بھی یہ
اعزاز حاصل ہے۔
تعلیم کے فروغ میں قلم خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی ابتدائی
آیتوں میں قلم کی عظمت کو دو بالا کرتے ہوئے زبان حق گویا ہے:
’’جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور اس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جسے وہ
نہیں جانتا تھا‘‘۔ (سورۂ علق)
قلم نہ ہوتا تو علم محفوظ نہ ہوتا۔
قرآن مکتوب نہ ہوتی۔ لوح محفوظ مشیت ایزدی سے مرصع نہ ہوتا۔ فرمودات نبویؐ
مدون نہ ہوتے۔
سیرت طیبہ کے دلچسپ اور ایمان افروز شب و روز عاشق بسمل کے ہاتھوں تک نہیں
پہنچ پاتے۔ اصلاحی اور اخلاقی مضامین کا رواج نہ ہوتا۔ علمی، ادبی، طبی،
فنی، سماجی اور اقتصادی موضوعات پر پڑھے گئے مقالے دیوارسے ٹکرا کر زوال
پذیر ہوجاتے اور قانونی آرٹیکلز کا شیرازہ بکھر جاتا۔
جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مذہبی عقائد و نظریات پر دھول جم جاتی، مذہب
و ملت کا خط امتیاز مٹ جاتا، اخلاق و کردار کا تصور بھلا دیا جاتا، تہذیب و
تمدن کا تختہ اُلٹ جاتا۔
امن و سلامتی کی کہانیاں سنی اَن سنی ہوجاتی ،
شرافت کی حس اور انسانیت کی رمق راہ فرار اختیار کرلیتی،
ظلم و بربریت کا بازار گرم ہوجاتا۔
یہاں تک کہ انسانیت نیم حیوان ہوجاتی اور بشریت کے لباس میں وحشت کا قبضہ
ہوجاتا۔
مذکورہ بالا سطور سے قلم کی طاقت اور اہمیت سورج کی طرح نمایاں ہے ،اب آپ
پر منحصر ہے کہ آپ لکھاری ہونے کے ناطے اپنی اہمیت اور قلم کی ذمہ داری سے
واقفیت رکھنا چاہتے ہیں یا صرف وقت گزاری کا ارادہ ہے ۔
سورہ البلد آیت 10:’’ اور ہم نے دکھا دیے اس کو دونوں راستے‘‘۔ سورہ الشمس
’’ قسم ہے نفس ِ انسانی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا، پھر اس کو گناہوں
اور پرہیز گاری کا الہام کیا، جس نے اسے پاک کیا وہ کام یاب ہوا۔‘‘ اس
تجزیاتی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو حق کی تسلیم میں اپنی
مرضی اور اختیار کے استعمال کا پورا حق دیا ہے بلکہ اس مرضی اور اختیار کے
استعمال کے بعد ہی اﷲ سے ہدایت کی امید رکھی جا سکتی ہے ،
قلم سے لفظوں کو تحریری شکل تو بچے بھی دے لیتے ہیں مگر اس سے وہ علمی طور
پر پختہ کار تو نہیں بن جاتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ محض قلم سے لفظ تحریر کر
لینے سے انسان نے علم حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے لیے کامل و قابل ِ فہم
تجزیاتی صلاحیت بھی کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے۔
لہٰذا ’’قلم‘‘ اس کامل اور قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان
کو کسی مادی یا غیر مادی شے کے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے اور
قلم اس مادی شے کا بھی نام ہے، جس سے عموماً لفظوں کو احساس کے پردے میں
تحریری شکل دی جاتی ہے۔
یاد رکھیں!
کسی بھی دور میں معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ اہلِ قلم ہی ادا کرتے ہیں۔
یہ صاحبان علم و دانش جو عام افراد کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح
قیادت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی حالت‘ کردار کا جائزہ اس
قوم کے اہل ِ قلم کے نظریات اور کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں بڑے بڑے بادشاہوں کو قلم کے
استعمال سے ہی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ قلم نے ہی قلم
کار پیدا کیے جو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں‘ قلم کاروں ہی کی بدولت تاریخ زندہ
ہے۔
قلم خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا
گیا جیسے برصغیر پاک وہند میں حکیم الامت‘ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد
اقبال ؒ نے قلم کی طاقت سے اپنی شاہکار تخلیقات سے مسلمانوں کے اندر آزادی
کی روح پھونکی۔
دُنیا کے نامور شاعروں کی طرح برصغیر پاک وہند میں مولانا ظفر علی خان‘
مولانا الطاف حسین حالی‘ اسمٰعیل میرٹھی‘ میر انیس‘ اکبر الہ آبادی اور
مرزا غالب کو قلم ہی نے دوام بخشا۔ فیض‘متاعِ لوح و قلم کے تحفّظ کے لیے
انگلیاں خونِ دل میں ڈبوتا رہا اور حلقہء زنجیر میں زبان رکھ دینے کیلئے
پُرعزم رہا۔ زبانِ قلم کو شیریں بنانے کی نصیحت اکبر الہ آبادی نے کی:
بنو گے خسرؤے اقلیم دل شیریں زباں ہو کر‘
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہوکر!
اگر ایک طرف ایک صاحب قلم اپنے قلم کا غلط مصرف لے کر دوزخ کی آگ خریدتا
ہے‘ تو دوسری طرف دوسرا صاحب قلم اپنے قلم کا صحیح استعمال کرکے جنت
الفردوس کا وارث بن سکتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ نوع انسان میں قابل ِرشک صرف دو قسم کے لوگ ہوتے
ہیں‘ ایک وہ لوگ جن کو اللہ نے مال دیا اور وہ اپنے مال کو کارخیر میں خرچ
کرتے ہیں،
دوسرے وہ لوگ جن کو اللہ نے علم وحکمت سے نوازا اور وہ اپنے علم کی بدولت
صحیح فیصلے کرتے ہیں اور دوسروں کو علم وحکمت کا درس دیتے ہیں۔
قلم کبھی ابر گوہر بار ہوتا ہے اور کبھی تیغ جوہر دار ہوتا ہے‘ کبھی شہریار
اصیل ہوتا ہے، کبھی صور اسرافیل ہوتا ہے۔ کبھی یہ ناموس وطن کا نشان ہوتا
ہے‘ کبھی حق کا پاسبان ہوتا ہے تو کبھی
اَدب عالیہ کی تخلیق کا وسیلہ ہوتا ہے۔ اس کے بہت سارے کام ہیں جس سے متعلق
شورش کاشمیری کہتے ہیں کہ سچائی حرف کا حسُن ہے۔
حرف حقائق کے نور میں لپٹا ہو گا تو با وقار اور با اعتبار ہو گا۔ اس میں
طاقت ہو گی دبدبہ ہو گا‘ وہ محتسب بھی ہو گا اور رہنما بھی اور اگر وہی حرف
جھوٹ اور ملاوٹ کے لبادے میں لپٹا ہوگا یا مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوگا
تو بے وقار اور رسوا ہوگا۔
صادق جذبہ اور خلوص، تحریر کو منور کر دیتا ہے اور حرفوں کی فصل کو نکھار
بخشتا ہے جب کہ عناد اور مفاد اس لہلہاتی فصل کو اجاڑ دیتا ہے اور تحریر کو
بے روح اور بد صورت بنا دیتا ہے۔ ہم قلم کی افادیت‘ مقام و مرتبہ ہی بھول
گئے‘ ہم نے حرف کا سَتر قائم نہیں رہنے دیا‘ اس کی حرمت پامال کرکے اس کو
موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ایسا قلم جو مردہ لفظ تخلیق کرے یا جس سے نکلے ہوئے لفظوں کا محرّک دام اور
دُنیاداری ہو اُسے بزرگوں کے بقول صرف ازار بند ڈالنے کے لیے استعمال ہونا
چاہیے۔ قلم اٹھانا ہے تو اس کے آداب سیکھنا ہوں گے‘حرف لکھنا ہے تو اس کے
تقاضے نبھانا ہوں گے‘ اہلِ قلم کو قلم کے تقدّس کی قسم اٹھانا ہو گی۔
قلم کے ذریعے جو علم کی روشنی پھیلائی جاتی ہے وہ مستقبل کی تاریخ کے
دریچوں کو روشن کرتی ہے‘ انسانیت کے قافلے اس کی روشنی میں اپنا سفر طے
کرتے ہیں‘ اس لیے قلم کا فائدہ زیادہ عام اور اس کا فیض مدام ہے۔ اسی لیے
تحریر کو تقریر پر فضیلت حاصل ہے‘ کیوں کہ تحریر کی تاثیر گردش شام وسحر کی
زنجیر سے آزاد رہتی ہے۔ جب تک الفاظ ہمارے قلم سے لکھے نہیں جاتے وہ ہمارے
ہی ہوتے‘ لیکن جب لکھ لیے جاتے‘شائع ہو جاتے تو وہ قوم کی امانت ہوتے ہیں‘
اور امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔
مرا قلم تو امانت مرے عوام کی ہے
مرا قلم توعدالت مرے ضمیر کی ہے!
قلم قوم کی امانت ہونے کے ساتھ ہی ہمارے لیے بڑی آزمائش ہے‘
نئے لکھاریوں کے لیے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے پڑھنے کی عادت پختہ
کریں اور پھر اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کو اپنا موضوع بنائیں تاکہ آپ
پڑھنے والوں کو ایک منفرد موضوعات سے روشناس کروائیں ۔۔۔اور یہی اچھے
لکھاری کے اوصاف ہیں کہ وہ پڑھتا ہے اور انسانی معاشرے کے لیے لکھتا ہے
ناکہ کسی ایک دروازے پر دستک دے کر کھڑا رہتا ہے ۔
لکھاری بننے کے لیے زمانہ طالب علمی میں پڑھی جانے والے اسباق میں سے کسی
ایک سبق کا بالترتیب خلاصہ لکھے کہ اس کا تسلسل قائم رہے، جو لکھاری اس فن
کو سمجھ کر تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس نے
بطور لکھاری پاؤں رکھنا شروع کردیا۔ ادب میں ادب و احترام لازم ہے ، جس نے
ادب پایا اسی نے فن پایا۔ شکریہ
نوٹ!
مختلف کتابوں کی روشنی میں ،ایک استاد ہونے کے ناطے جو میری سمجھ میں آیا
اور جو نظریہ رکھتا ہوں وہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے ،کسی قسم کی دل آزاری پر
معذرت چاہتا ہوں۔
|