آزاد کشمیر کے 2شہریوں کی شہادت اورہندوستان کے عزائم
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
ہندوستانی فوج نے 24جون کو ضلع راولاکوٹ کے تیتری نوٹ کے ئین آف کنٹرول سے ملحقہ علاقے بیلہ میں فائرنگ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے 2شہریوں کو شہید اور ایک کو زخمی کر دیا۔ہندوستانی فوجیوں نے مویشی چرانے والے تین افراد کو اس وقت نشانہ بنایا کہ جب وہ شدید گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ فائرنگ سے محمد قاسم نامی شہری مو قع پہ ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ عبید نامی21سالہ نوجوان بھی ہجیرہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔ حفیظ نامی نوجوان ٹانگوں پہ گولیاں لگنے سے زخمی ہوا۔مقامی ذرائع کے مطابق گولیاں لگنے کے بعد مقامی آبادی کو ڈیڑھ گھنٹہ تک انھیں اٹھانے کے لیے نیچے جانے کی اجازت نہیں ملی۔اس کے بعد مقامی لوگوں نے جاکر انہیں وہاں سے اٹھایا۔مقامی ذرائع کے مطابق تیتری نوٹ میں صحت کی بھی مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں اور نا ہی زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس موجود تھی۔ جس کے باعث مقامی آبادی نے زخمیوں کو شہہ زور گاڑی پر ڈال کے ہجیرہ ہسپتال منتقل کیا ۔شہید اور زخمی ہونے والوں کا تعلق بارہ دری تیتری نوٹ سے ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فروری2021میں ہونے والے سیز فائر سمجھوتے کے بعد یہ خلاف ورزی کا پہلا واقعہ ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ' انٹر سروسز پبلک ریلیشنز' کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہندوستانی قابض فورسز کی جانب سے آج لائن آف کنٹرول کے ستوال سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ سے تیتری نوٹ کے دو شہری شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ بھارتی فوج کے اس غیر انسانی رویے کے مظاہرے میں معصوم بے گناہ نہتے کشمیری فائرنگ کی زد میں آئے،بھارتی فوج نے ستوال سیکٹر میں چرواہوں کے ایک گروپ پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 شہری شہید جب کہ 1 شدید زخمی ہو گیا، بھارت کی علاقے میں اجارہ داری کی سوچ کے تحت بھارتی افواج اپنے جھوٹے بیانئے اور من گھڑت الزامات لگاکر معصوم جانیں لینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، پاکستان' ایل او سی 'کے ساتھ بسنے والے کشمیریوں کی جانوں کے تحفظ کے لئے موثر جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، بھارت کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے، بالخصوص کشمیریوں کے اپنی ملکیتی زمین پر رہنے کے حق کا احترام کرے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میںپاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کی لائین آف کنٹرول اور جموں کی ورکنگ بائونڈری پہ سیز فائر کا سمجھوتہ کیا گیا۔تاہم سیز فائر کا یہ سمجھوتہ باضابطہ نہیں تھا۔اس سیز فائر سمجھوتے سے ہندوستان کو کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی کنٹرول لائین پہ خار دار تاروں کی باڑ کا کام آزادانہ طور مکمل کرنے کا موقع ملا جسے مکمل کرنابھارت کے لئے پاکستان کے ساتھ سیز فائر کے بغیرممکن نہیں تھا۔2003 اور 2006 کے درمیان ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی کنٹرول لائین پہ خلاف ورزی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور اسی دوران بھارت نے کنٹرول لائین پہ باڑ کی تنصیب کا کام تیزی سے مکمل کر لیا ۔ باڑ کی تنصیب کا کام مکمل ہوتے ہی 2006 سے کنٹرول لائین پہ سیز فائر سمجھوتے کی خلاف ورزیاں معمول بن گئیں۔ ستمبر 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس سے اپنے خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کے لیے 2003 کے مفاہمت کو باضابطہ بنائیں اور اس کا احترام کریں۔ لیکن بھارت نے پاکستان کے ساتھ کشمیر کی لائین آف کنٹرول پہ سیز فائر کے سمجھوتے کو باضابطہ بنانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
فروری2021 میں پاکستان اور ہندوستان نے کشمیر کی لائین آف کنٹرول پہ سیز فائر سے اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ بیان میں کہا کہ لائن آف کنٹرول پر 2003 کے جنگ بندی کے معاہدے کی توثیق کی گئی ہے اور ان بنیادی مسائل کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن اور استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس اعلان سے ایک دن قبل 22 فروری کوپاکستانی ڈی جی ایم او میجر جنرل نعمان زکریا اور ان کے ہندوستانی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل پرمجیت سنگھا کے درمیان ٹیلی فون کی ہاٹ لائین پہ ہونے والی گفتگو میں لائین آف کنٹرول پہ سیز فائر کا فیصلہ کیا گیا اور اس کا اطلاق 24 اور 25 فروری 2021کی درمیانی رات سے شروع ہوا۔
یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہندوستان کی طرف سے آزاد کشمیر پر قبضے کے بیانات میں گزشتہ کچھ عرصے سے تیزی آئی ہے۔11مارچ2020 کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھامیں رکن مالا رائے کے سوال کے جواب میں خارجہ امور کے وزیر مملکت دی مرلی دھرن نے جواب میں کہا( ہندوستانی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پہ موجود ہے) کہفروری 1994 کو دونوں ایوانوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ں و کشمیر اور لداخ کے پورے مرکز کے زیر انتظام علاقے ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہیں اور رہیں گے،حکومت ہندوستان کے علاقوں بشمول پاکستان کے غیر قانونی اور زبردستی قبضے میں آنے والے علاقوں میں ہونے والی تمام پیش رفتوں کی نگرانی کرتی ہے۔ ہم نے پاکستان سے مسلسل مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے غیر قانونی اور جبری قبضے کے تحت تمام علاقوں کو فوری طور پر خالی کرے۔21مارچ 2018 کوپارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے اجلاس میں جاوید علی خان نے سوال کیا کہ کیا حکومت پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کرانے سے متعلق فروری 1994 کو پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی جموں و کشمیر پر قرارداد کے لیے پرعزم ہے؟ وزارت داخلہ کے وزیر مملکتایچ جی اہیر نے جواب میں کہا کہ حکومت اس حوالے سے کاروائیاں کر رہی ہے۔
ہندوستان کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ 26اکتوبر2022 کومقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی انفنٹری ڈے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم 22 فروری 1994 کو پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کو نافذ کریں گے، اور اس کے مطابق کشمیر کے دوسرے حصے اور گلگت اور بلتستان کو اپنے قبضے میں لیں گے۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہندوستان' پی او کے' میں مقامی بغاوت پیدا کرنے کے لئے کام کر رہا ہے ۔اس سے پہلے ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے15جنوری2020کوہندوستان کے آرمی ڈے سے پہلے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر حکومت حکم دے تو ہندوستانی فوج آزاد کشمیر پر قبضے کے لئے تیار ہے۔قبل ازیں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ایک بیان میں دعوی کیا تھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہندوستان کے رابطے موجود ہیں۔
ہندوستانی فوج کی فائرنگ سے آزاد کشمیر کے 2شہریوں کو شہید اور ایک کو زخمی کرنے والے اسی علاقے میں گزشتہ چند ماہ سے مقامی افراد میں ہندوستانی فوج کی جارحانہ سرگرمیوں پہ بے چینی پائی جا رہی ہے کیونکہ ہندوستانی فوج کئی بارآزاد کشمیر کے علاقے میں داخل ہو کر اپنے قبضے کی حدود میں اضافے کی کاروائیاں کرتی آئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مقامی لوگوں نے موقع پر مزاحمت دکھاتے ہوئے ہندوستانی فوج کی ایسی دو کوششوں کو ناکام بنایا اور ان کے نصب کردہ حدود کے تعین کے جھنڈے اکھاڑ کر پھینک دیئے۔اب گزشتہ چند ہفتوں سے ہندوستانی فوج تیتری نوٹ علاقے کے لوگوں کو کنڑول لائین سے ملحقہ ان علاقے میں جانے سے روکنے کی کاروائیاں کر رہی ہے جو مقامی افراد کے استعمال میں ہیں۔یوں ہندوستانی فوج کی طرف سے آزاد کشمیر کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا یہ واقعہ ہندوستانی فوج کی طرف سے آزاد کشمیر کے علاقے پہ قبضے کی کوشش کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ہندستان کی طرف سے فائرنگ کے اس واقعے سے پاکستان کے ساتھ سیز فائر کے سمجھوتے کی دھجیاں بکھیرنے میں ہندوستان کی کیا سازش اور نیت پوشیدہ ہے، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات کی وجہ سے جارحانہ عزائم پر عمل پیرا ہونے پہ آمادہ ہو اور حکمران پارٹی ' بی جے پی ' قریب آتے پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لئے جارحانہ کاروائیوں پہ مبنی کسی ایڈوینچرکے خواب دیکھ رہی ہو لیکن ہندوستان کو اس کا جواب بھی اسی طرح ملے گا کہ جس طرح ہندوستان کی نام نہاد سرجیکل سٹرائک کے جواب میں پاکستان کی طرف سے دیا گیا تھا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چین کے پاکستان کے ساتھ ہر شعبے میں گہرے تعلقات ہی نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے ہندوستان کو چین کے خلاف تیار کرنے کی تیاریوں میں پاکستان چین تعلقات کواشتراک عمل کی ایک نئی جدت اور گہرائی ملی ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|