���� �� اندر یا باہر
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
اصل مسٗلہ منہ میں موجود (ڈانسر) کا ہے۔
|
|
|
اتسبیح ہر مذہب میں روحانیت کا لازمی جزو رہا ہے۔ تسبیح
سے جڑے بے شمار قصے کتابوں میں درج ہیں۔ ایک قصہ پنجاب کے حکمران مہاراجہ
رنجیت سنگھ سے جڑا ہوا ہے۔ رنجیت سنگھ بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر مذہبی
تھا کہ میدان جنگ میں بھی گرنتھ صاحب کو ساتھ رکھا کرتا تھا مگر یہ تاریخی
حقیقت ہے کہ وہ سیاسی میدان میں قابلیت کا قائل تھا۔ اس کے مشیروں میں
عیسائی، سکھ، ہندو، مسلمان بھی شامل تھے۔ یہی حال اس کی فوج کا تھا جس میں
ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں کے افراد اپنی خدمات مہیا کرتے تھے۔
اس کے مسلمان مشیروں میں ایک بڑا نام عزیزالدین( 1845-1780 ) کا ہے۔
عزیزالدین ایک ماہرمعالج، سفارتکار اور سیاستدان تھا۔ دوسری ریاستوں اور
ممالک سے رنجیت سنگھ کی طرف سے سفارتکاری اور معاہدے وہی کیا کرتا تھا۔
1809 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے طے پانے والا مشہور معاہدہ امرتسر عزیزالدین
کی سفارتکاری کا ہی نتیجہ تھا۔
عزیز الدین کی عادت تھی کہ وہ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح رکھا کرتا تھا۔ اور
تسبیح کے دانوں کو ہمیشہ اندر کی طرف لیا کرتا تھا۔ رنجیت سنگھ کے پاس بھی
ایک تسبیح تھی۔ جس کو وہ گرو کی عطا کردہ مالا کہا کرتا تھا۔ مہاراجہ کو
گرو نے نصیحت کی تھی جب بھی مالا جپو اس کے دانے کو باہر کی طرف لینا۔
ایک بار مہاراجہ نے عزیزالدین کو کہا۔ مجھے تو گرو کی نصیحت ہے کہ دانے
باہر کی طرف لیا کروں۔ کیا آپ کے گرو نے دانے اندر کی طرف لینے کی نصیحت کی
ہوئی ہے۔
ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والے وسیع المطالعہ
عزیزالدین جس نے بطور انکسار اپنے نام کے ساتھ فقیرکا لاحقہ لگا لیا تھا،
نے مہاراجہ کو جواب دیا۔آپ کے گرو کی نصیحت کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ آپ مالا
کے دانے باہر کی طرف لے کر شر کو دفع کرتے ہیں جبکہ میں دانے اندر کی طرف
لے کر خیر کو دعوت دیتا ہوں۔
یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے کا سبب یہ انکشاف ہے کہ ہمارے ایک سیاستدان کو
اس کی مرشد نے اسلام آباد میں تسبیح دی تو نصیحت کی تھی کہ تسبیح کے دانے
اندر کی طرف لینا مگر جب وہ سیاست دان لاہور منتقل ہونے لگا تو مرشد نے
نصیحت کی لاہور پہنچنے کے بعد تسبیح کے دانے باہر کی طرف لینا۔
ہمارے نزدیک تسبیح کے دانے اندر کی طرف لیے جائیں یا باہر کی طرف یہ سیاسی
حالات پر اثر انداز نہیں ہوتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی شخصیت نے جب سے
دانے باہر کی طرف لینے شروع کیے ہیں ملک میں شر میں اضافہ ہو ہوا ہے۔اس شر
کا پہلا شکار زمان پارک کے رہاشی ہوئے۔ پھر اس شر نے پنجاب اور اسلام آباد
کے درجنوں پولیس کے ملازمین کو ہسپتالوں کا منہ دکھایا۔ کچھ کو موت کا
فرشتہ اچک لے گیا۔اس شر کا شکار ایسی سیاسی شخصیات بھی ہوئیں جن کو حالات
کی تتی ہوا بھی چھو کر نہیں گزرتی تھی وہ جیل میں بند ہیں یا مفرور ہیں۔
کچھ جرنیل اور جج بھی اس شر کا مزہ چکھ چکے۔
روحانیت کی دنیا بھی عجیب ہے۔ میرے ایک دوست اپنے مرشد بارے بتاتے ہیں کہ
ان کے ایک مرید نے یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور مرشد سے
روحانی مدد کا طلب گار ہوا۔ مرشد نے مدد کا وعدہ کیامگر یہ وعدہ بھی لیا کہ
الیکشن پر ایک روپیہ بھی خرچ کرو گے نہ کسی سے ووٹ مانگنے جاوگے۔ ہوا یہ کہ
مخالف امیدوار الیکشن سے قبل ہی دسبردار ہو گیا یوں صاحب بلا مقابل جیت کر
مرشد کی خدمت میں پیش ہوئے تو مرشد نے پوچھا۔الیکشن میں کتنے خرچ کا اندازہ
تھا۔
مرید نے بتایا پانچ لاکھ۔ مرشد نے حکم دیا تین لاکھ رروپے فلاں درگاہ کی
تعمیر کے لیے بجھوا دو۔ مرید نے وعدہ تو کر لیا مگر رقم نہ بجھوائی۔ اگلے
سال صوبائی اسمبلی کے الیکشن تھے۔ مرید دوبارہ روحانی امداد کا طلب گار ہوا
اور عرض کی الیکشن لڑوں گا مگر مجھے ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے نہ روپیہ
خرچ کرناپڑے۔ مرشد نے فرمایا وہ وقت گذرچکا اس بار ووٹ مانگنے کے لیے جانا
پڑے گا اور روپے بھی خرچ کرنا ہوں گے۔
روحانی معاملات کو سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ روحانیت میں بھی ریڈلائن ہوتی
ہے اگر اسے کراس کر لیا جائے تو صاحب روحانیت خود آزمائش کا شکار ہو جاتا
ہے۔ روحانیت پر لکھی گئی کتابوں میں ایسے سیکڑوں واقعات ملتے ہیں۔
سیاسی شخصیت کی مرشد نے بھی شائد ایسی ہی کسی ریڈ لائن کو کراس کر لیا ہے۔
اور صاف طور پر بتا دیا ہے کہ دانے باہر کی طرف لیتے رہو گے تو شر پھیلتا
ہی جائے گا مگر جس دن دان اندرکی طرف لیا ہم دونوں ہی گرم کڑاہی میں تلتی
مچھلی کی طرح تلے جائیں گے۔
شنید ہے اس بار ایک ہم راز کو چین میں ایک بین الاقوامی مرشد کے پاس بھیجا
گیا۔ مرشد نے فیس وصول کی مہمان کو چینی قہوہ پلایا اور بتایا معاملہ اندر
یا باہر کی طرف لینے کا نہیں ہے۔ اصل مسٗلہ منہ میں موجود (ڈانسر) کا ہے۔
|
|