مغنیہ کی آواز کسی بہتے جھرنے کی طرح سماعتوں میں رس گھول
رہی تھی۔روایتی رنگیں ملبوسات میں کشمیری لڑکیاں خوشی کے گیت گا رہی
تھیں۔اچانک فضا ایک دھماکہ کیساتھ بارود اور خون کی بو سے بھر گئی۔دروازہ
ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ظالم،بے مہر،سفاک درندے گھر میں داخل ہو گئے۔چیخ و
پکار،شور۔۔۔۔شاید بادل گرجے تھے۔اس کا ذہن تاریکی میں ڈوب رہا تھا۔اس نے
دیوار پر خون کے چھنٹے دیکھے تھے۔اور پھر گھپ اندھیرا تھا۔۔۔مہیب تاریکی
۔۔۔دبیز خاموشی۔۔۔۔۔۔ ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی۔فلیٹ میں گہری تاریکی
تھی۔اسے چند لمحے لگے تھے ماحول کو سمجھنے میں۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔کھڑکی
کھولی تو برمنگھم کی تیز ہوا اس کے چہرے سے ٹکرانے لگی۔جس کیساتھ اس کی
یادوں کے جھونکے بھی تھے۔لیکن ادھورے،شکستہ،ٹوٹے پھوٹے عکس۔۔۔ برمنگھم کی
کہر آلود صبح خاموشی سے دنیا کے رنگ دیکھ رہی تھی ۔سکول جاتے طلباء،جاب پر
جاتے جوان،زندگی سے بےزار سنکی بوڑھے۔۔۔گٹار بجاتے ہپی۔وہ پر اعتماد قدموں
سے منزل کی جانب گامزن تھا۔رات کی تلخی کا شائبہ تک نہ تھا۔وہ ایک کامیاب
آر جے تھا۔ایف ایم ریڈیو کا پریزنٹر،ہوسٹ۔اس کے فالوورز ہزاروں میں تھے۔
لوگ اسے سننا پسند کرتے۔اسکا اسٹائل کاپی کرتے،وہ ایک سلیبرٹی تھا۔اپنی
گفتگو میں اردو کیساتھ انگریزی کی آمیزش ۔۔۔کبھی ہندی کا تڑکا تو کبھی
سکھوں کا لب ولہجہ۔۔۔اس کے پرستاروں کا دل موہ لیتا۔وہ خود کو امن کا سفیر
کہتا۔انسانیت کا دوست۔"نو بحث ،نو لڑائی"اس کی کھنکتی ہوئی آواز مائیک پر
ابھرتی اور ہوا کے دوش پر سفر طے کرتی ہوئی سننے والوں کی سماعتوں میں اتر
جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند بخت کشمیری تھا۔پہاڑوں کا باسی،سری نگر کے تتبتی محلے
کے بہادر مجاہد سکندر بخت کا بیٹا۔وہ چار برس کی عمر میں اپنے ماموں کے
ساتھ یوکے آیا تھا۔جو انڈیا میں گجرات کے رہائشی تھے۔اور پھر برمنگھم کی
فضاؤں نے اسے یوں خود میں سمو لیا کہ وہ بھول گیا کہ اس نے کبھی جری و دلیر
پہاڑوں کے درمیان روشن صبح میں جنم لیا تھا۔اس کے دادا نے اس کی پیشانی چوم
کر کہا تھا "میرا بچہ کشمیر میں آزادی کا جھنڈا لہرائے گا."پھر وہ دریائے
نیلم،چنار کے درخت،وہاں کی فضاؤں کو کیسے بھول گیا تھا؟اس نے یاد کرنے کی
ضرورت نہ سمجھی تھی۔بس چند ٹوٹے پھوٹے خواب جو اس کا پیچھا کرتے اور
اندھیرے کا خوف جو ہمیشہ اس کے اندر کنڈلی مار کر بیٹھا رہتا۔اندھیرا جو
کبھی ٹوٹا دروازہ بن جاتا۔کبھی آگ کے شعلے ۔۔کبھی ایک نسوانی چیخ بن کر
ڈراتا۔اور اخر میں خون کے چھینٹے ہمیشہ اس کا خواب توڑ دیتے۔ماموں اپنی
برٹش مسلم بیوی کے ساتھ خوش تھے۔اس کے سامنے کبھی کشمیر کا ذکر نہ کرتے۔بس
کبھی کبھار مہر بانو کا نام لیکر سسکتے۔کبھی سکندر بخت کو یاد کرتے۔انھیں
شب دیگ کا ذائقہ بہت پسند تھا۔۔جب بلند خواب میں ڈر جاتا تو اس پر آیات پڑھ
کر پھونکتے۔مامی کی وفات کے بعد عبدالولی،انکی بیٹی گیتی اور وہ خود ایک
دوسرے کا سب کچھ تھے۔۔ "ایک اچھا آر جے حالات حاضرہ سے باخبر رہتا ہے۔"اسکے
سینئرز کی نصیحت تھی۔"کشمیر جل رہا ہے۔بیس دن سے زیادہ ہو گئے۔۔خوراک
نہیں،دوا نہیں۔۔۔آرٹیکل 370کی خلاف ورزی.'"کچھ عرصے سے کشمیر کا مسلہ اور
بھارت کی جارحیت لائم لائٹ پر تھی۔لیکن وہ کبھی جذباتی نہ ہوا تھا۔کیوں؟؟اس
کا جواب اس کے پاس نہ تھا۔وہ عید ،کرسمس،دیوالی،ہولی کا اہتمام کرتا۔ایک
روز اسے لائیو کال ائی۔"مسٹر بلند بخت!کیا آپ کشمیر ایشو پر کچھ کہیں
گے۔۔۔؟"وہ ایک جوشیلی آواز تھی۔شاید کوئی طالب علم۔اس نے بات سنی اور مخصوص
لہجے میں جواب دیا"میں متنازعہ موضوع پر بحث نہیں کرتا۔آپ اپنی پسند کا
ٹریک بتائیے۔۔۔ہم امن کے سفیر ہیں۔۔۔نو بحث."اس نے تکیہ کلام دہرایا۔چند
لمحے خاموشی کے بعد کالر گویا ہوا۔"کیا ہے آپ کا امن ؟جوانی اور امنگوں کو
خون میں بہنے دو۔لیکن خاموش رہو کہ یہ امن ہے؟"آواز میں لرزش در آئی
تھی۔"عصمتوں کو لٹ جانے دو۔کلیوں کو مسل دو ۔یہ امن ہے۔"آواز میں دکھ
تھا۔۔۔نوحے تھے۔"مسٹر !آپ ایموشنل ہو رہے ہیں۔"اس نے سپاٹ لہجے میں۔
کہا۔"آپ کی شہ رگ پر پاؤں رکھ دیا جائے۔آپ کی بہن کو آپ کی نظروں کے
سامنے۔۔۔۔"(سسکیوں نے بات اُدھوری چھوڑی دی۔تھی۔) تو کیا آپ خاموش رہیں
گے۔"پروگرام منیجر نے کال ڈراپ کرنے کا اشارہ دیا ۔اکثر ایسے جذباتی،سر
پھرے،کالرز اسے پریشان کرتے وہ انھیں لائٹ لیتا۔۔۔اب بھی اس نے ایسا کرنا
چاہا تھا مگر کر نہ سکا۔مصنوعی بشاشت کیساتھ پروگرام جاری رکھنا چاہا۔مگر
رنگ نہ جما سکا۔۔۔ایک اداسی طاری رہی۔فلیٹ میں تنہائی تھی۔اور نیم تاریکی
بھی۔اس احساس کو ختم کرنے کے لیے وہ چینل سرچنگ کر رہا تھا۔۔ جانے کب ہوں
گے کم۔ اس دنیا کے غم۔ جینے والوں کو سزا۔ مغنیہ کی آواز کا سوز پورے ماحول
پر قابض ہو گیا تھا۔وہ کسی احساس کے تحت اٹھ کر بیٹھ گیا۔بکھرے لاشے ،زخمی
انکھیں،سر برہنہ عورتیں للکارتے نہتے بوڑھے،جوان۔۔۔ماموں بھی خاموشی سے ٹی
وی دیکھ رہے تھے۔۔ "ہمارے کشمیر پر ظلم ہو رہا ہے۔ہم خاموش کیوں ہیں۔؟"فلیٹ
کی خاموشی میں اداس لہجہ گونجا۔۔ "ہم برٹش نیشنلٹی ہولڈر ہیں۔کیا شام پر
ظلم ہوگا۔فلسطین یا افغانستان پر۔۔تو کیا ہم یونہی پریشان ہونگے؟"اس کا
لہجہ بے تاثر تھا۔ماموں نے حیرت سے اسے دیکھا۔"یہ چند باغی لوگوں کی
کارستانی ہے اور بیرونی مداخلت۔۔"اس کے کانوں میں دیویا،پرکاش اور ریتک کے
تبصرے گونجے تھے۔اس نے بے اعتنائی سے کہا۔"یہ باغی بھارتی سرکار سے ٹکرا
رہے ہیں ماموں۔"
"شاید میں نے تمھیں ،تمھاری جڑوں سے دور رکھ کر غلط کیا۔گناہ کیا۔۔۔"ماموں
کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔۔ "ماموں!یہ دہشت گرد ہیں یا باغی۔۔۔"اس نے
بے مہر لہجے میں کہا۔ماموں عبدالولی خاموشی سے اس کا چہرہ پڑھ رہے تھے۔برف
کے گالے خاموشی سے کھڑکی کے شیشے سے ٹکراتے اور گر جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔ "1948 میں
تمھارے دادا بےدار بخت نے بھارت سرکار کی غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا
تھا۔سری نگر ہمارا دیس ،جائے پیدائش۔تمھارے مجاہد باپ نے شہادت کو غلامی پر
ترجیح دی تھی۔تمھیں وہ دن یاد ہے جس کے عکس تمھارے خوابوں میں زندہ
ہیں۔؟"ماموں کی آواز سرگوشی بن گئی تھی۔وہ ساکت و صامت تھا۔"میری مہر بانو
کی چادر،روشن دیے،گیت سب کچھ سب کچھ ان درندوں نے ختم کر دیا۔سارا گھرانہ
اس بربریت کا شکار بن گیا ۔نجانے تم کیسے بچ گئے؟"ماموں رو رہے تھے۔نجانے
کب کے آنسو ان کے اندر مدفون تھے۔۔۔"میرے بچے تمھارے باپ دادا کے تمھارے
حوالے سے بڑے خواب تھے۔اور تم انھیں باغی کہتے ہو۔۔وہ تمھارے باپ کو گرفتار
کرنا چاہتے تھے۔۔۔لیکن میری بہن مہر بانو ان کے ظلم کا شکار ہو گئی۔۔۔۔سارا
گھرانہ ختم کر دیا ."وہ زارو قطار رو رہے تھے۔۔۔بے رنگ آنسو جنکا کوئی رنگ
نہیں ہوتا لیکن ہمارے جذبات انھیں رنگ عطا کرتے ہیں۔
۔"کیا آپ اس لیے میری جوانی کو کسی اندھی گولی کا شکار بنانا چاہتے ہیں
تاکہ مجھے شہید قرار دیں."اس نے تلخی سے کہا۔سرد ملک کی بے مہری نے اسے بھی
بے مہر بنا دیا تھا۔اجنبی تاثرات لیے وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔۔ "ان پر بھی
جوانی آئی تھی۔کیا انکے خواب نہیں تھے؟"ماموں نے سکرین کی طرف اشارہ کیا
جہاں معمر حریت لیڈر سید علی گیلانی مرحوم کی گھن گرج کیساتھ تقریر لگی
تھی۔۔ "ماموں!آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں۔گیتی کو آپ خیالات پسند نہیں آئیں
گے۔شی از اے لبرل لیڈی ۔۔۔اور سیکولر ازم کو پسند کرتی ہے۔اس کے فیوچر میں
میں مجاہد نہیں کامیاب اینکر پرسن ہوں ۔اپنے چینل کا مالک۔"اس نے گویا یاد
دلایا تھا۔
"کیا اس عورت کے خواب نہیں ہیں۔؟"انھوں نے چینل بدلا جہاں مشال ملک کمسن
بچی کیساتھ اپنے شوہر یسین ملک کی جدو جہد میں شانہ بشانہ تھی۔
کشمیر۔۔۔۔آزادی۔۔۔۔انقلاب۔۔۔۔
وہ چپ چاپ سکرین کو دیکھتا رہا۔
آر جے ہونا اس کا پہلا خواب تھا اور گیتی اس کا دوسرا خواب۔یہ
مظاہرے،احتجاج،توڑ پھوڑ ۔۔۔اسے پسند نہ تھا۔وہ برٹش نیشنلٹی ہولڈر
تھا۔انڈیا اس کا وطن اور جموں کشمیر جائے پیدائش اور بس۔۔۔ان خیالات کو
گیتی نے مضبوط کیا تھا۔
انھی دنوں ایک سرخ آندھی چلی اور اس کے خواب ،محبت،سب سرخ ہو گئے گیتی اس
کا خواب اس کی محبت چھن گئی۔اور وہ ساکت تھا اس کے الفاظ گم ہو چکے تھے۔یو
کے میں ہونے والے نسل پرستانہ فسادات کی لپیٹ میں وہ آگئی تھی۔اس کا مسلم
ہونا ۔۔۔سر پر حجاب لینا اس کے جرائم تھے۔گیتی کی ادھ کھلی آنکھوں میں ان
گنت خواب تھے۔مرثیے تھے۔۔۔۔تشنگی اورحسرت بھی۔اس کے کلاس فیلوز دوست احتجاج
کرنا چاہتے تھے۔لیکن کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔"شی واز اے ٹیررسٹ"اسکے خلاف
یہ ہی دلیل دی جاتی۔وہ کہنا چاہتا تھا وہ لبرل تھی۔سیکولر ازم پر یقین
رکھتی امن پر۔لیکن اس کے الفاظ گنگ ہو گئے تھے۔وہ خالی ہتھیلیوں کو دیکھتا
رہتا،الجھی لکیریں جن میں کبھی خواب رقم تھے۔اب وہاں دکھ تھے۔احتجاج تھا۔وہ
بے مقصد سڑکوں پر پھرتا رہتا۔وہ اس رات کھلے آسمان تلے بیٹھا رہا۔یخ بستہ
ہواؤں سے بے خبر۔جب اس کا سیل گنگنا اٹھا۔ایک انجان نمبر بلنک کر رہا
تھا۔اس نے غائب دماغی میں کال ریسیو کر لی۔"جب اپنے دل پر گزرتی ہے ناں پھر
دکھ اور اذیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔۔"انجان کشمیری لہجے میں دکھ بول
رہے تھے۔"آپ کی ایک محبت ختم ہوئی ہے ۔۔۔ایک رشتہ۔۔کبھی اپنے کشمیر میں آ
کر دیکھو جہاں ہر روز ہمارا سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔اور ہم پھر بھی زندہ ہیں
۔۔لیکن کیا ہم واقعی زندہ ہیں؟"اس کے لہجے میں نوحے تھے۔۔۔۔۔"کیا تم اس
اذان کا حق ادا نہیں کرو گے۔جو تمھاری کان میں دی گئی؟کیا اس دعا کو قبول
نہیں ہونا چاہیے جو آزادی کے حوالے سے تمھارے لیے مانگی گئی تھی۔"لہجہ مدھم
ہو گیا تھا۔وہ چونک اٹھا۔"کک۔۔۔۔کون ہو تم؟"بلند بخت نے گبھرا کر
پوچھا۔۔۔"تمھارا کشمیر ۔۔۔سسکتا ہوا۔۔۔خون میں ڈوبا ہوا."کال کٹ چکی
تھی۔۔۔بلند بخت کی دھیان کی گود میں چنار کے درخت،بچپن کے ہم جولی آ گئے
تھے۔بعض اوقات ایک لمحہ آگہی کا ہوتا ہے اور وہ بلند بخت کی زندگی میں آچکا
تھا ۔اس کے دل پر وارد ہو چکا تھا۔کسی وحی کی طرح۔۔خواب،ماموں کے آنسو،گیتی
کا چہرہ نامعلوم کالر ،،جیسے کوئی جگسا پزل حل ہو گیا تھا۔اب وہ اپنے
پروگراموں میں کشمیر کی بات کرتا۔حریت لیڈرز کی۔وہ امن کی بات اب بھی کرتا
لیکن اپنی غیرت،عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔اس کے لہجے کی کھنک مدھم ہو گئی
تھی۔ایک درد،سوز کرب جھلکتا۔اس نے بڑے نشریاتی اداروں سے رابطے شروع کیے
تھے ایسے فورمز جہاں نہتے کشمیریوں کے لیے آواز بلند کی جا سکے۔اسے سمجھ
میں آ گیا تھا۔۔"اپنی آزادی,بقا کی جنگ ہم خود لڑتے ہیں ۔کبھی ہتھیار
کیساتھ,کبھی قلم کیساتھ اور کبھی خون کیساتھ۔۔۔"وہ اپنے ہر پروگرام میں
کہتا۔اس کے دادا کی دعا قبول ہو چکی تھی ۔وہ شہید کا بیٹا تھا۔سری نگر کے
تتبتی محلے کا جری بہادر۔اسکے اندر کا مجاہد بےدار ہو چکا تھا۔اس کا
کشمیر،اس کی فضا،چنار کے درخت،نیلم کا پانی سب اس کے منتظر تھے۔نجانے کتنے
برسوں سے۔بس اسے اب خبر ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ "السلام علیکم معزز دوستو! انڈین
آرمی کے غاصبانہ قبضے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے بعد ہمارا فرض ہے
کہ ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔آپ سب برمنگھم سٹی کونسل میں ہمیں جوائن
کریں اور بلند بخت کے ہمراہ ہاتھوں کی زنجیر سے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی
کا اظہار کریں۔"اس کی پرسوز اور گھمبیر آواز سننے والوں کی سماعتوں میں اتر
رہی تھی۔۔ ایک ہجوم بیکراں تھا۔کشمیری،پاکستانی،مسلم،غیر مسلم ہر فرد جو
انسانیت ،امن پر یقین رکھتا تھا وہاں موجود تھا۔کشمیر کے لیے پوسٹرز،بینررز
اور شمعیں روشن کیے۔سب نے اس کی آواز پر لبیک کہا تھا۔وہ اسٹیج پر آیا اس
نے مائیک تھاما۔۔ "میں بلند بخت ۔۔۔خود کو آزاد ،پر امن محفوظ سمجھتا
تھا۔جب آپ کے دل پر ہاتھ پڑتا ہے ناں تب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ امن سے
ہیں یا نہیں۔۔۔محفوظ اور آزاد ہیں یا نہیں۔۔۔"اسکی آواز ایک لحظے کو
کانپی۔۔۔"میرا کشمیر۔۔ہم سب کا کشمیر کتنے برسوں سے اذیت میں ہے۔جہاں صبح
کا آغاز دکھ کیساتھ ہوتا ہے اور رات بھی اس دکھ میں شامل ہے۔میں چاہتا ہوں
اب انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہمارے ،ضمیر کو بیدار ہو جانا چاہیے ان
کشمیریوں کے لیے جو بہت امید کیساتھ منتظر ہیں امن کے،آزادی کے۔۔۔۔اور یہ
انتظار کئی صدیوں سے آنکھوں میں بسا ہے۔۔۔۔ہم کشمیر کی بات ہر فورم پر
کریں۔۔۔وہاں ہر شخص جائے جو ان کے لیے کچھ مثبت کرنا چاہتا ہے۔اور میں آپ
سے یہ ہی امید رکھتا ہوں۔"سب ہاتھ ہلا کر نعرے لگا کر اس کو اپنے ساتھ کا
یقین دلا رہے تھے۔۔۔بلند بخت کے لبوں پر پرنم مسکراہٹ تھی۔۔۔نیلم کے
پانی،چنار کے درخت،وہاں کی ہوائیں جانتی تھیں اب منزل دور نہیں۔۔۔۔
|