گندھارا تہذیب کا شمار دنیا کی عظیم تہذیبوں میں ہوتا
ہے’اس تہذیب کی ابتداء مہاتما گوتم بدھ کی تعلیمات سے ہوتی ہے اور پھر یہ
دنیا کے کئی ممالک میں پھیل جاتی ہے’ماضی کی ان یادگاروں کے حوالے سے ان کی
نشانیاں جہاں بھارت کے بعض علاقوں میں موجود ہیں وہاں پاکستان کے اکثر
علاقوں میں بدھ مت کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے والے بدھ مت کے پیروکاروں
کے آثار دریافت ہوئے ہیں جن کو ماضی میں وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ایسے
قدیم آثاروں کو تہذیب یافتہ دنیا محفوظ کرکے ان کو سیاحت کے فروغ کے لئے
استعمال کرتی ہے اور اپنے ہاں دنیا بھر سے سیاحوں کو ان آثار کی طرف توجہ
دلا کر قیمتی زرمبادلہ کماتی ہے’اس سلسلے میں خیبرپختونخوا میں کئی مقامات
پر بدھ تہذیب کے آثار وقتاً فوقتاً دریافت بھی ہوئے اور رفتہ رفتہ ان کی
جانب دنیا بھر سے بدھ مت کے پیروکار متوجہ بھی ہوتے رہے ہیں ’بدقسمتی سے
افغانستان کے علاقے بامیان میں ایک پہاڑی سلسلے میں مہاتما بدھ کے پہاڑوں
کے ساتھ تراشے گئے مجسموں کو جس طرح پہلی طالبان حکومت نے’’محمود غزنوی کے
تتبع’’ میں برباد کیا (حالانکہ یہ آثار قدیم زمانے سے گزرتے ہوئے خود
محمود غزنوی کے دور میں بھی موجود رہے اور نہ ان سے پہلے نہ بعد میں آنے
والے مسلمان حکمرانوں نے ان کی بربادی اور توڑ پھوڑکے حوالے سے سوچا) اس کے
بعد خیبرپختونخوا میں بھی افغان جنگ کی وجہ سے ان آثار کی طرف کوئی خاص
نہیں توجہ دی گئی’تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف
مقامات سے دریافت ہونے والے ان آثار کوبالاخر توجہ دینے پر حکومتی سطح پر
ضرورت محسوس کی گئی’تخت بائی‘چھوٹا لاہور‘ سوات کے بعض علاقوں اور دیگر
مقامات میں موجود ان تہذیبی آثار کو اگر پوری توجہ دی جائے اور ان کو
سیاحوں کے لئے دلچسپی کا مرکز بنایا جائے تو صوبہ خیبر پختونخوا میں
گندھارا تہذیب کی سیاحت کے لئے بڑے پیمانے پر بدھ مت کے ماننے والوں کو
بالخصوص اور عام سیاحوں کو بالعموم متوجہ کیا جا سکتا ہے‘ بدھ مت کے ماننے
والے کروڑوں کی تعداد میں جاپان‘ کوریا‘ تھائی لینڈاور دیگر ممالک میں بستے
ہیں اور ان کے لئے اپنے مذہبی مقامات اور قدیم آثار کی یاترا یقیناً
دلچسپی کی حامل ہے’ان کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے اگر بڑے ہوٹل نہیں تو
کم از کم اعلیٰ معیار کے ریسٹورنٹس کا قیام ممکن بنا کر سیاحت کو فروغ دینے
میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے’اس ضمن میں محکمہ سیاحت ان مقامات کی تاریخی
اہمیت اجاگر کرنے کیلئے تاریخی حقائق پر مبنی پمفلٹس‘بروشرز اور کتابیں
شاءع کرنے کا اہتمام کرکے اور پشاور سے ان مقامات کے لئے خصوصی لگژری کوچ
چلا کر صوبے میں سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ وزیراعظم
ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے سربراہ وزیر مملکت ڈاکٹر رمیش کمار
وانکوانی کئی برسوں سے اس حوالے سے سرگرم ہیں اور ہر حکومت میں انہوں نے اس
حوالے سے موثر آواز بلند کی مگر ماضی میں مذہبی امور کی وزارت کی جانب سے
بے حسی دکھائی جاتی رہی ، مگر اس بار حکومت وقت میں وزیر اعظم میاں محمد
شہباز شریف کی خصوصی دلچسپی ، وزارت مذہبی امور کے مثبت ردعمل کے بعد ڈاکٹر
رمیش کمار وانکوانی مذہبی سیاحت کو کامیابی کی جانب لے جانے کیلئے دن رات
ایک کر رہے ہیں ۔ میں اس سے قبل دو کالم بھی اسی تناظر میں لکھ چکا ہوں اور
گندھارا سےاحت ، بدھ مت ، جین مت اور ہندومت مذہب کی تاریخی عبادت گاہوں ،
بیرون ممالک مقیم بدھ بکشوءوں و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے حوالے سے
قارئےن کو آگاہ کر چکا ہوں کہ اس سلسلے میں وزیراعظم ٹاسک فورس برائے
گندھارا سیاحت کے سربراہ وزیر مملکت ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی کاوشیں
اور دن رات کی محنت اور سنجیدگی کا بھی اظہار کر چکا ہوں کہ اس ٹاسک فورس
کا مقصد پاکستان میں ٹورازم کو فروغ دینا ، سےاحت سے آنے والازرمبادلہ اور
ملکی معیشت میں اس کی اہمےت ترجیحات میں ہے ۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ روز
ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے عالمی ممالک کے عزت مآب سفراء کرام کے اعزاز
میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں انہیں تفصیلی بریفنگ دی گئی اور
گندھارا سےاحت کے فواہد اور اہمےت سے آگاہ کیا جس پر سفارتکاروں نے گہری
سنجیدگی کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ بین الاقوامی سطح پر سےاحت کے
فروغ سے پاکستان کی معیشت میں بھی استحکام آئے گا اور پاکستان کا خوبصورت
اور پر امن چہرہ بھی دنیا بھر میں نمایاں ہوگا ۔ اس موقع پر میڈیا
نمائندگان سے خصوصی میڈیا بریفنگ اورسوال و جواب میں وزیراعظم ٹاسک فورس
برائے گندھارا سیاحت کے سربراہ وزیر مملکت ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے کہا
کہ حکومت پاکستان ملک بھر میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے پرعزم ہے، بدھ کے
روزوزیراعظم ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے زیراہتمام وفاقی دارالحکومت
میں مقیم مختلف عالمی ممالک کے عزت مآب سفراء کرام کے اعزاز میں راؤنڈ
ٹیبل کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین وزیراعظم ٹاسک
فورس کی میزبانی میں آئندہ ہفتے 11جولائی سے تین روزہ عالمی گندھارا
سیمپوزیم کا انعقاد اسلام آباد میں کرانے کے انتظامات کو حتمی شکل دیدی
گئی ہے، انہوں نے آگاہ کیا کہ کانفرنس کے مہمان خصوصی وزیراعظم میاں شہباز
شریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری ہونگے جبکہ کوریا، چین، سری لنکا،
تھائی لینڈ سمیت بدھ اکثریتی ممالک کے نہایت قابل احترام مذہبی راہنماؤں نے
اپنی شرکت کنفرم کر دی ہے، کانفرنس کے مندوبین کو خصوصی طور پر ٹیکسلا اور
مردان میں تخت باہی کا دورہ کرایا جائے گا، گندھارا دور کے قدیمی علمی شہر
تکشاشیلہ اور موجودہ ٹیکسلا کے ان کھنڈرات میں تکشاشیلہ اعلامیہ جاری کیا
جائے گاجہاں کبھی خطے کا عظیم فلسفی کوٹلیا چانکیہ حکمت و دانائی کے موتی
بکھیرا کرتا تھا ۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے مزید کہا کہ اگلے ہفتے بُدھ کے روز
12جولائی کو پی این سی اے کے آڈیٹوریم میں گندھارا میڈیا ایوارڈز کی
رنگارنگ ثقافتی تقریب بھی عالمی کانفرنس کا حصہ ہے ۔ گول میز کانفرنس کے
دوران پاکستان کو برداشت، رواداری اورامن کے پیغامبر گوتم بُدھا سے عقیدت
رکھنے والے ممالک کے قریب لانے کیلئے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا،
گول میز کانفرنس میں نیپال، جاپان، سری لنکا، تھائی لینڈ، ویت نام،
انڈونیشیا،سوڈان، ملائشیا، ناروے، فلسطین، اسپین، کرغزستان و دیگر کے
ڈپلومیٹس شریک ہوئے جبکہ 70 سے زائد پاکستان کے بیرون ملک فارن مشنز اور
ڈپلومیٹس نے آن لائن شرکت یقینی بنائی ۔ سفراء کی اکثریت نے پاکستانی ویزے
کے حصول میں دشواریوں کو سیاحت کے فروغ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا، سفراء کے
مطابق انہیں اسلام آباد کی حدود سے باہر جانے کیلئے این او سی کے حصول
کیلئے بھی بہت مشکلات درپیش ہیں ، شرکاء نے پاکستان کیلئے ڈائریکٹ اور
چارٹرڈ پروازوں کی اہمیت پر بھی زور دیا ۔ بعد ازاں صحافیوں کے ساتھ پریس
بریفنگ میں ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ آج اگر پاکستان دوست ممالک میں بسنے
والے بُدھسٹ سیاحوں کی فقط 0;46;1 فیصد تعداد(تقریباََ پانچ لاکھ نفوس) بھی
اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کیلئے پاکستان کا رُخ کرلے تو ہ میں پہلے سال
1;46;7بلین ڈالرز کاخطیر زرمبادلہ حاصل ہوگا جو آئندہ دو برسوں میں بتدریج
6بلین ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رمیش نے کہا کہ
وہ وقت دور نہیں جب گندھارا سیاحت کی بدولت ملکی معیشت کو استحکام اور
عالمی محاذ پر سفارتی کامیابیاں حاصل ہونگی ۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں
کہ پاکستان بدھ مت کی نشانیوں سے بھرا پڑا ہے تاہم مذہبی سیاحت نہ ہونے کے
برابر ہے ۔ اگر حکومت سکھوں کے تاریخی مقامات کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دے
تو بدھسٹ آبادی کی بڑی تعداد پاکستان آئے گی ۔ اس وقت پاکستان میں بدھ مت
مذہب اور آبادی تقریبا معدوم ہوگئی ہے ۔ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کا یہ
ماننا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں گندھارا آرٹ کو کلاسیکی یونانی ثقافت اور
بدھ مت کا ثقافتی اشتراک قرار دیاجاتاہے، جس میں سنگ تراشی، مجسمہ سازی،
تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل فن پارے شامل ہیں ،تاہم میری نظر میں
گندھارا صرف فن کاہی نام نہیں بلکہ ہماری پاک دھرتی کے تحمل، برداشت اور
رواداری پر مبنی ہزاروں سال قدیم تابناک ماضی کا آئینہ دار ہے، میں ماضی
میں بھی مذہبی سیاحت کی اہمیت کو ہائی لاءٹ کرتا آیا ہوں اور آج پھر بطور
محب وطن پاکستانی یہ استدعا کرتا ہوں کہ حکومتِ پاکستان پاک دھرتی پر واقع
قدیم مقدس مقامات کی اہمیت کو سمجھے اورگندھارا کے مقدس قدیم ورثے کا تحفظ
کرکے پاکستان کو دوست ممالک میں بسنے والے عالمی سیاحوں کیلئے ایک پرکشش
ملک کے طور پر پیش کرے،اگر حکومت صرف گندھارا سیاحت کے فروغ پر ہی اپنی
توجہ مرکوز کرلے تو مجھے یقین ہے کہ ہم مختصر عرصے میں نہ صرف اپناعالمی
امیج بہتر کرکے کثیر مقدار میں زرمبادلہ کما سکتے ہیں بلکہ بیرونی قرضوں سے
بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ، گندھارا آرٹ کی باقاعدہ ایکسپورٹ بھی ملکی
معیشت کے استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے ۔ میں اپنے اگلے
کالم میں ماضی میں مذہبی اعتبار سے پاکستان میں اقلیتوں کو درپیش مسائل ،
تعصب ، انا پرستی اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اسلام کی غلط تشریحات پر
تفصیلی مضمون شاءع کروں گا تاکہ ابہام دور کرتے ہوئے پاکستان کو مذہبی
جنونیت سے پاک وطن کے طور پر عالمی برادری کے سامنے پیش کروں گا ۔ آخر میں
ایک بار پھر ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی سےاحت کیلئے کاوش پر انہیں خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کروں گا کہ پاکستان میں مذہبی سےاحت
اور عام سےاحت کے فروغ کیلئے اگر چند رمیش کمار وانکوانی جیسی چند مزید سوچ
رکھنے والے ذہین ، دماغ ہ میں مل جائےں تو نفرت کا خاتمہ ہو گا ، دہشتگردی
کو شکست ہو گی اور ہر پاکستانی خود کو محفوظ و آزاد تصور کرئے گا ۔
|