چین کے مختلف علاقوں میں اس وقت شدید بارشوں سے نمٹنے کے
لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ ملک کے جنوبی اور وسطی حصوں میں بارشوں کی وجہ
سے آنے والے سیلاب نے نظام زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے
شدید متاثرہ علاقوں میں چھونگ چھنگ شہر ،صوبہ حونان اور صوبہ سی چھوان شامل
ہیں۔متاثرہ شہریوں کا محفوظ مقامات پر انخلاء کیا گیا ہے اور انہیں ہر ممکن
سہولیات پہنچائی جا رہی ہیں۔ حکام کی جانب سے پیشگی انتباہ اور بروقت
اقدامات کی بدولت جانی نقصان کو کم سے کم کیا گیا ہے۔صدر شی جن پھنگ نے
تمام سطحوں پر حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ لوگوں کے تحفظ اور املاک کو یقینی
بنانے کو اولین ترجیح دیں اور سیلاب کی روک تھام اور آفات سے نمٹنے کے لیے
اپنے کام کے ذریعے نقصانات کو کم سے کم کریں۔انہوں نے نیشنل فلڈ کنٹرول اور
خشک سالی کے امدادی ہیڈکوارٹر، ایمرجنسی مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ، آبی وسائل کی
وزارت اور دیگر متعلقہ محکموں پر زور دیا کہ وہ مجموعی طور پر کوآرڈینیشن
کو بڑھائیں اور ریسکیو اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ سی
پی سی کی تمام سطحوں پر کمیٹیوں اور مختلف سطحوں کی حکومتوں کو سیلاب کی
روک تھام اور آفات سے نجات کی بنیادی ذمہ داری پوری طرح سے سنبھالنی چاہیے۔
مؤثر طریقے سے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کو اولیت میں رکھنا چاہیئے اور
مختلف نوعیت کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
دیکھا جائے تو گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے آفات سے بچاؤ و امدادی
سرگرمیوں اور ہنگامی ردعمل کے جامع نظام میں نمایاں بہتری لائی ہے۔اس نظام
نے ملک میں آفات سے نمٹنے کے لیے قوانین و ضوابط، عملے، مواد اور ٹیکنالوجی
کے حوالے سے مضبوط تعاون فراہم کیا ہے۔اس دوران، چین نے لوگوں کی جان و مال
کے تحفظ کے لیے آفات سے بچاؤ اور ریلیف کو ہنگامی ردعمل کا مرکز بنایا ہے،
اور آفات سے بچاؤ کے کاموں کی افادیت اور کارکردگی کو بہتر بنایا ہے۔چین نے
قدرتی آفات کے خطرات کے بارے میں پہلے قومی جامع سروے کا اہتمام کیا، زلزلہ
زدہ علاقوں میں مکانات کی مضبوطی، سیلاب پر قابو پانے اور خشک سالی سے نجات
کے لیے پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آفات سے متاثرہ علاقوں میں مکینوں کی نقل
مکانی سمیت دیگر کلیدی منصوبوں کو نافذ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ، قدرتی آفات
میں ہر سال اوسطاً ہلاک یا لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی
واقع ہوئی ہے۔ دریں اثنا، چین کی جی ڈی پی میں قدرتی آفات سے ہونے والے
براہ راست معاشی نقصانات کا تناسب بھی زائد کم ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں
شدید موسمیاتی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث درپیش چیلنجوں کے جواب
میں، ملک نے مقامی سطح پر قبل از وقت وارننگ اور فوری ردعمل کے نظام کو
مضبوط کیا ہے، جو خطرے سے دوچار لوگوں کو پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر
دیتا ہے اور عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے تباہی سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔
ملک نے ایمرجنسی رسپانس ٹیموں اور کمانڈ پلیٹ فارمز کی صلاحیت کو بہتر
بنایا ہے، ساتھ ہی ساتھ میٹریل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اسپورٹ نے ہنگامی
ردعمل کی مجموعی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے۔اسی طرح ریسکیو ٹیموں میں جدت اور
اپ گریڈنگ کو تیز کیا گیا ہے، ساڑھے تین ہزار سے زیادہ پیشہ ور ٹیمیں تشکیل
دی گئی ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور زلزلے سے بچاؤ اور دیگر ہنگامی
ردعمل کے شعبوں میں مہارت رکھتی ہیں۔ چین نے علاقائی ایمرجنسی ریسکیو مراکز
بھی تعمیر کیے ہیں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے جدید آلات، جیسے پانی کے
اندر روبوٹ وغیرہ، نصب کیے ہیں۔
انہی اقدامات کے ثمرات ہیں کہ ملک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کام کی جگہ
پر ہونے والے حادثات کی تعداد میں بھی مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگوں کی
حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے چین نے محفوظ پیداواری عمل کو نمایاں اہمیت دی
ہے اور مقامی حکومتوں، صنعتی نگراں اداروں اور کاروباری اداروں کی ذمہ
داریوں کو واضح کرتے ہوئے دیرپا مضبوط اقدامات متعارف کروائے ہیں ۔اسی خاطر
خطرناک کیمیکلز، کان کنی، آگ سے تحفظ، نقل و حمل، ماہی گیری کے جہازوں اور
صنعتی پارکس سے متعلق شعبوں میں تین سالہ ورک سیفٹی مہم چلائی گئی ہے۔ ملک
نے تجارتی استعمال کے لیے خود ساختہ مکانات، گیس، الیکٹرک بائیسکل، الیکٹرو
کیمیکل انرجی اسٹوریج اور آف شور ونڈ پاور کے شعبوں میں بھی خصوصی مہم
چلائی ہے تاکہ ابھرتی ہوئی کاروباری شکلوں میں خطرات کو کم کیا جا سکے۔ چین
نے کام کے دوران حفاظتی امور سے متعلق قانون پر بھی نظر ثانی کی ہے اور
گزشتہ دہائی میں متعلقہ ضوابط اور صنعتی معیارات متعارف کروائے ہیں، جبکہ
خلاف ورزیوں کی اطلاع دینے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نظام
بھی قائم کیا گیا ہے۔چین واضح کر چکا ہے کہ اگلے مرحلے میں، ہر سطح پر
ایمرجنسی مینجمنٹ حکام لوگوں کی زندگیوں کو اولین ترجیح دیتے رہیں گے، بڑے
خطرات کو روکنے اور ان پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کریں گے، اور
ملک کے ہنگامی انتظام کے نظام اور صلاحیت کو مزید بہتر بنائیں گے۔
|