دل و دماغ کی کشمکش

دل نہیں چاہ رہا
دل نہیں مانتا
سب ٹھیک ہے لیکن دل کا کیا کروں؟
دل دُکھانا
دل صاف ہونا
دل کو کھلونا سمجھنا
دل کی بات
دل سے تسلیم کرنا
دل تو پاگل ہے
دل کے ہاتھوں مجبور ہونا
اللہ کے ذکر سےدل کو اطمینان حاصل ہونا
دل پہ مہر لگ جانا
دل میں احساس جگانا وغیرہ وغیرہ۔
خالقِ کائنات نے انسان کو پیدا ہوتے وقت جو عقلِ سلیم عطا کی وہ دل کی دھڑکن کی مانند ماں کے پیٹ سے ہی دماغ کے ابتدائی خلیات کی حیثیت میں اپنا استعمال شروع کر دیتی ہے یہی خلیات جوں جوں بڑھنا شروع ہوتے ہیں ، عقلِ سلیم بھی آگہی، شعور ، فہم، ادراک اور دانش کی منازل طے کرتی ہوئی اپنی لا متناہی حیثیت کو پہنچتی ہے تو ہم اس کو نہ تو کوئی معنی دے پاتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی تشریح کرنے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کام صرف وہی عقل یا دماغ کر سکتا ہے جو ایک درجہ زیادہ ہو۔گویا دماغ و دل دو مختلف اجزاء ہیں البتّٰی ان دونوں کو ملانے اور مل کر کام کرنے کے لئے عقل کام آتی ہے جس کی نہ تو کوئی ڈرائنگ بنائی جا سکتی ہے اور نہ خاکہ، نہ ہی میڈیکل سائنس میں اس کی تشریح لکھی جا سکتی ہے۔
میں چونکہ بنیادی طور پر انجینئر ہوں اس لئے اسی زبان میں ہر چیز کو سمجھتا اور بیان کرنا پسند کرتا ہوں۔ الیکٹرک اور الیکٹرونک ٹیکنالوجی کی زبان میں فریکوئینسی ایک شے ہوتی ہے، فریکوئنسیFrequency) ) سے مراد تعدادِ ارتعاشات ہوتی ہے جو کوئی مرتعش جسم ایک سکینڈ میں پوری کرے۔ جب کوئی لہر اٹھ کر دَبتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس نے ایک چکر پورا کر لیا۔ ایک لہر ایک سکنڈ ميں ایسے جتنے چکر پورے کرتی ہے وہی اس کی فریکوئنسی ہوتی ہے۔ ہمارے دماغ سے نکلنے والی فریکوئینسی کسی طرح خالقِ کائنات کی فریکوئینسی سے ہم آہنگ ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ ہم اور خالق ایک پیج پر ہیں یعنی ایک دوسرے کی بات سمجھ رہے ہیں، جو اتنا آسان نہیں جتنی آسانی سے میں نے بیان کر دیا بلکہ اس کے لئے ایک عمر چاہئیے اگر ہم منتخب شدہ نہیں۔ منتخب شدہ انسان تو پہلے ہی خالق کی فریکوئینسی سے ہم آہنگ ہوتا ہے لہٰذا اس کا ہر وقت براہِ راست رابطہ ہو سکتا ہے۔ عام انسانوں کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان میں میرے خیال میں سب سے پہلی سیڑھی تمام کام چھوڑ کر اپنے ذہن کو اپنے اندر جھانکنے پر فوکس کرنا ہے۔
اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم کچھ پڑھنا یا لکھنا شروع کردیں، پڑھنے کے لئے ایسی عبارت ہونی چاہئے جس کی آواز سے (خواہ دل کی آواز ہی کیوں نہ ہو) کوئی نہ کوئی فریکوئینسی نکلتی ہو اور لکھنے میں وہ مواد ہو جو ہماری فریکوئینسی کے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں یعنی جب ہم یہ سوچ کر لکھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں تو کچھ اچھا ہی لکھیں گے اور ہر اچھی بات کا منبع خالقِ کائنات ہے جب کہ بری بات کا ابلیس۔
گویا اچھا لکھنے اور اچھا پڑھنے سے ہم اچھا سوچنا بھی شروع کر دیں گے یوں ہمارے دل کو اطمینان نصیب ہو گا، ابلیس کا غلبہ ہم پر کم سے کم ہوتا چلا جائیگا اور دل و دماغ کی کشمکش بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی جائیگی۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112851 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More