اگر دم ہے تو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کا نظام بدل لیں
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
ہر انسان کے دیکھنے ، سوچنے اور ردِّ عمل کا اندازمختلف ہوتا ہے، ضروری نہیں جیسے میں چیزوں کو دیکھ رہا ہوں آپ بھی ویسے ہی دیکھیں، ضروری نہیں ان کے بارے میں جو میں سوچ رہا ہوں آپ بھی ویسا ہی سوچیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ میرا جو ردِّ عمل ہو آپ کا بھی وہی ہو۔ لہٰذا اس میں نہ تو کسی کو بُرا بھلا کہنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ناراض ہونے کی۔ مثلاً چھُری دیکھتے ہی میرے ذہن میں پھل یا سبزی کاٹنے کا خیال آتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چھُری دیکھتے ہی کسی کا گلا کاٹنے یا پیٹ پھاڑنے کا سوچتے ہیں۔ ماچس دیکھتے ہی سگریٹ یا چولھا جلانے کا خیال آتا ہے ہے اور کسی کو پوری دنیا کو آگ لگانے کا۔ایٹم دریافت ہونے کے بعد اس کو توڑنے کا خیال آیا تو جو انرجی اس عمل سے پیدا ہوئی اس سے دنیا کو روشن کرنے کا خیال آیا اور کسی کو ایٹم بم بنا کر دنیا کو تباہ کرنے کا، گویا خالقِ کائنات کی ٹیم کے لوگ ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا سوچتے رہتے ہیں جب کہ ابلیس کی ٹیم کے لوگ انسانیت کو نیست و نابود کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ تاریخ میں دس نامور انسان ایسے گزرے ہیں جو کوئی شے ایجاد یا دریافت کرکے بعد میں بہت پچھتائے: 1۔ جے رابرٹ اوپن ہائمر.......ایٹم بم 6۔ باب پراپسٹ.......آفس کیوبیکل 2۔ میخائل کالشنکوف.......رائفل اے کے 47 7۔ ونسنٹ کاننارے.......مائکرو سافٹ فونٹ "کومک سانس" 3۔ ٹم برنرز لی.......ڈبل سلیش // 8۔ٹام کیرین.......ریلے چاپر بائی سائیکل 4۔ ایتھن ذوکر مین.......پاپ اپ اشتہار 9۔ کامران لاغمین.......کالی مرچ کا اسپرے ہتھیار 5۔ ڈونگ اینگوئن.......فلیپی برڈ گیم 10۔ جان سلوین.......کافی کیپسولز ہمارے مذہب، ملک یا پسندیدہ رہنما کا کوئی مذاق اڑائے تو ہمیں فطری طور پر بہت غصہ آتا ہے، ہمارے والدین یا بہن بھائی کو کوئی گالی دے تو غصہ سے دماغ بالکل پاگل ہو جاتا ہے لیکن اگر گالی دینے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو تو غصہ فوراً قابو بھی کرنا آتا ہے۔ اسی طرح جب ہم سے کہیں زیادہ طاقتور ملک ہمیں لڑنے کی جانب اکساتا ہے تو غصہ قابو کرتے ہوئے بات چیت کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکالنا چاہیئے نہ کہ میزائل بردار ملک کو پتھر اٹھا کر مارنا شروع کردیں یا اپنے ملک میں توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کرکے دشمن کے ہاتھ مزید مضبوط کریں۔ اگر دم ہے تو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کا نظام بدل لیں
|