میرے وطن عزیز کا دفاع مجھ پر لازم ہے

ایک سچا محب وطن ہونے کے ناطے میں خوب جانتا ہوں کہ اپنے وطن عزیز کے واسطے ہمیں کس محاذ پر کیسے دفاع کرنا ہے۔ ہمیں کیسے اپنی سرحدوں کی رکھوالی اور اپنے وطن عزیز میں رہنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے وہ خواب جو ہماری ذات سے منسلک ہیں کیسے پورا کرنا ہے۔

میرے لحاظ سے وطن عزیز کے واسطے ہر چیز بھی قربان کر دو تو کم ہوگی۔ میرے نزدیک فقط میری جان ہی نہیں بلکہ میرے آ نے والی نسل بھی قربان کیوں کہ یہ ایک ایسی مٹی ہے جسے بڑی مشکل سے حاصل کیا گیا۔ اسی لیے میں کچھ ایسے لمحات کی بات کرتا ہو جو دل کو دہلا دینے والے اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے لمحات ہیں۔

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب فقط خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں اور نہ ممکن کو ممکن بنانے کے واسطے اپنا سارا کچھ قربان کر دیتے ہیں ۔ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے واسطے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلم امہ بھی اپنے وطن عزیز کے دفاع کے واسطے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ میرے نزدیک ہم دفاع میں ہی رہنا مقصد سمجھتے ہیں ۔ مگر ہماری خاموشی اور امن پسندی کا دشمن نے مزاق بنانے کی کوشش کی اور ہمارے جنرل ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو کہ ہمارے سپوت جوانوں نے بڑی کامیابی سے اس کو خاک میں ملا دیا۔

اسی طرح کچھ بیرونی طاقتوں نے ہمارے گلشنِ میں دین کے نام پر لوگوں کو خریدنا چاہا اور ہمارے امن کو خراب کرنےکے لیے دن رات ایک کر دیا۔ یہ وقت بے شک ہمارے لیے مشکل تھا۔ مگر میرے وطن عزیز کے رکھوالوں نے کچھ ہی عرصہ میں ان کے سفاق چہروں سے پردہ اٹھایا جو کہ متعدد تنظیموں کی شمولیت ایک المیہ تھا۔ ساتھ میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور ملک میں رہنے والے وہ غدار جو ظاہری تو وطن عزیز کے دفاع کے تقاضے پورے کرنے میں جتن کرتے تھے مگر اندر سے منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔ اسی لیے وقت کی حکومت اور افواج پاکستان نے ان کے خلاف آ پریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔

آخر کب تک ہم برداشت کرتے کہ کوئی ہمارے جوانوں کے سر قلم کر کے ان کے ساتھ فٹ بال کھیلے۔ ہماری افواج پاکستان نے ان کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کا عزم کیا۔ اسی لیے لیے کہتے ہیں کہ امن میں بہایا گیا پسینہ میدان جنگ میں خون بچاتا ہے ۔تب ہی تو ہماری افواج کو دنیا جانتی ہے اور مانتی بھی ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑا مسلہ اندرونی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں دشمن کو پہچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر ہم اور ہمارے رہبر اس کام میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ عزم کیا کہ ہم تب تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آ خری دہشت گرد باقی ہے۔

تب ہی ہماری مسئلہ افواج نے اپنا پہلا قدم راہ راست میں رکھا اور اسی طرح رہ نجات ،المیزان، ردالفساد اور صرب عضب میں حتمی قدم سمجھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس موذی جنگ میں ہمارے ہزاروں جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں متعدد آفیسرز، سردار صاحبان اور جوانوں کے نام سر فہرست ہیں ۔ اس کلوز بیٹل میں سیکنڑوں لوگوں نے اپنے گھر چھوڑ دیے۔ اور افواج پاکستان کے ساتھ مل کر یہ جنگ لڑی۔ جب دشمن دفاع میں بیھٹا ہو اور سارے راستوں سے واقف بھی ہو تو وہاں پر جانے والا ایک فوجی جوان کتنی بہادری اور مہارت سے جاتا ہے۔ ایک مثال پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ہماری مسلہ افواج نے دشمن کو اس حد تک کمزور کیا کہ وہ خود با خود ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔ ہماری افواج نے یہ آ پریشن سوات اور متعدد ایجنسیوں سے شروع کیا اور الحمدللہ جنوبی وزیرستان کلیر کرنے کے بعد شمالی وزیرستان بھی ان دشمنوں کی گرفت سے آزاد کروایا۔

اسی دوران ہم نے پاک افغان بارڈر جس کی لمبائی 2500 کلو میٹر پر محیط ہے اس کی فینسنگ بھی اور سرحد پار آنے والے دہشت گردوں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ افواج پاکستان نے نہ صرف امن کے لیے جستجو کی بلکہ پسماندہ علاقے میں صحتِ عامہ کے نظام کو متعارف کروایا اور اچھے اور اعلیٰ سطح پر ہسپتالوں کی تعمیر اور مکمل علاج معالجہ بھی فراہم کیا۔ اگر بات کرے تعلیم کی تو بڑی تعداد میں تعلیمی مراکز قائم کیے گے جس میں سکول ،کالجز اور متعدد ادارے موجود ہے ۔ جہاں ایک جہالت کے نظام کو ختم کرنے کے واسطے تعلیم کی شمع روشن کی گئیں ۔اور ساتھ میں صفائی و ستھرائی پینے کے پانی کے فلٹریشن پلانٹس لگاے گے ۔ اور ساتھ دنیا کے معیار کے مطابق بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کے لیے بڑی بڑی مارکیٹیں بنائی گئی تاکہ ان تاریک میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو ایک اصلی اور حقیقی معنوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے ماحول فراہم کیا جاسکے۔ اسی کے ساتھ تمام ٹرائیبل ایریا کو باقاعدہ طور پر تحصیل، ضلح اور ڈویژن کی صورت میں متعارف کروایا گیا اور حق و باطل کی پہچان کروائی گی تاکہ لوگوں کو یہ اندازہ ہو سکے کہ ملک و قوم کے واسطے کون اچھا ہے اور ملک کی سالمیت کے لیے کون خطرناک ہے۔

اب بات یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا آ خر کون لوگ تھے جنہوں نے دن رات اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے بھائی ہماری شیرنی ماؤں کے شیر بیٹے جو کہ محمد بن قاسم ،ٹیپو سلطان اور طارق بن زیاد کی طرح اپنی جان کی بازی لگا کر ان شر پسند عناصر سے اپنے وطن عزیز کو محفوظ کیا اور ہمیشہ کرتے رہیں گے ۔ اب بطورِ اشرف المخلوقات ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اپنی صفوں میں دیکھیں کہ کون ہے غدار جو کہ ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے کی کوشش کرتا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں اللّٰہ کریم ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔اور ہم اپنے ملک کی تعمیر کے واسطے دن رات محنت کر سکے ۔پاکستان زندہ باد پاک فوج پائندہ باد

 

Muhammad afzal Jhanwala
About the Author: Muhammad afzal Jhanwala Read More Articles by Muhammad afzal Jhanwala : 10 Articles with 6297 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.