آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام نئے
لکھنے والوں کے لیے عالمی سطح کی تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں
پاکستان کے نامور لکھاریوں مثلاًسینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی‘ افسانہ
نگار طارق بلوچ صحرائی‘ فلم رائٹر ناصر ادیب اور اباسین یوسف زئی‘ ڈرامہ
رائٹر صائمہ اکرم چوہدری اور مصباح نوشین‘ نوجوان نسل کے معروف شاعر تہذیب
حافی اور اتباف ابرک‘ اینکر پرسن تہمینہ شیخ اور قرۃ العین ہاشمی‘نغمہ نگار
ایس ایم صادق‘ تجزیہ نگار نوید چوہدری‘اپووا کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد
انصاری‘ بیگم گورنر پنجاب پروین سرور‘میجر ریٹائرڈ شہزاد نیئر وغیرہ کے
علاوہ بھارت سے معروف شاعر منظر بھوپالی اور لتا حیا‘ ترکی سے اردومترجم
طاہرے گونیش اور بنگلہ دیش سے بچوں کی ادیب ناظمہ پروین نے ویڈیو لنک کے
ذریعے شرکت کی اور نئے لکھنے والوں کو اپنی تحاریر کو جاذب نظر‘موثراور
خوبصورت بنانے کے لیے مختلف تجاویز دیں۔ ان شاء اﷲ ان کی تفصیل راقم الحروف
جلد اپنی رپورٹ میں پیش کرے گا۔
سر دست مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت فخر محسوس ہورہا ہے کہ اس تربیتی ورکشاپ میں
ہمیں معروف مذہبی سکالر استاذہ نگہت ہاشمی کی مختصر مگر جامع گفتگو سننے کو
ملی۔ بنیادی طور پر اس کا موضوع یہی تھا کہ لکھاریوں کے لیے قرآن مجید کا
پیغام کیا ہے۔ اس لیکچر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے افادہ عام کے لیے اسے
ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔استاذہ نگہت ہاشمی نے فرمایا:
میں مبارکباد دینا چاہتی ہوں ان لوگوں کو جنہوں نے قلم کے تقدس اور عزت کے
لیے یہ کانفرنس منعقد کی۔ اﷲ تعالیٰ اس کوشش میں برکت ڈالے اورجس مقصد کے
لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی ہے اﷲ تعالیٰ اس مقصد کو قبول فرمائے۔ آمین!
میں قلم کے حوالے سے تین باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔کیا آپ جانتے ہیں
جہانوں میں سب سے پہلے قلم تھا‘ پھر قلم سے کہا کہ لکھ! اس نے پوچھا کیا
لکھوں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ اس جہان میں ہونے والا ہے وہ سب کچھ
لکھ ڈال۔ قلم نے لکھا‘صحیفے خشک ہوگئے اور قلم اٹھا لیا گیا۔
اﷲ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی ’’قسم ہے قلم کی‘‘اور پہلی وحی جو نبی امی ﷺپر
نازل ہوئی اس کا تعلق بھی قلم سے ہے:’’اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو
پیدا کیا۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر
کرم والا ہے‘‘۔قلم مقدس ہے اور اﷲ تعالیٰ نے قلم کے ساتھ اپنی جن صفات کا
تذکرہ کیا ہے اس میں سے ایک صفت ’’الاکرم‘‘ ہے۔اس پر بات کرنا چاہوں گی کہ
قلم کے ساتھ الاکرم کا ذکر ہے۔ وہ ذات جو اکبر ہے‘سب سے زیادہ قدرت اور
طاقت والی ہے‘ اس نے قلم کے ساتھ اپنے اکرام اوراپنی عزت کا تذکرہ کیا
ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قلم ہی ہے جو انسان کو سب سے زیادہ معزز بھی بنا
سکتا ہے کیونکہ قلم سے ذہن روشن ہوتے ہیں‘قلم سے فہم ظاہر ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ سب اہل قلم ہیں۔ مجھے ایک بات کرنی ہے جو
جہانوں کے بادشاہ نے کہی تھی اورجس کا فقدان آج کی سوسائٹی میں نظر آتا ہے
جس کی وجہ سے آج انسانیت اپنے آخری موڑ تک پہنچ چکی ہے کہ قلم کا رشتہ‘ علم
کا رشتہ‘اﷲ تعالیٰ کے اسم سے کٹ گیا ہے۔ ہم کاموں کا آغاز کرنے سے پہلے بسم
اﷲ پڑھتے ہیں۔ہم ہر کام سے پہلے بسم اﷲ پڑھنا شاید اپنی زندگی میں شامل کر
چکے ہیں‘لیکن اصلاً جہاں اس بادشاہ کائنات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے‘ وہ رشتہ
اب کٹ گیا ہے۔ آپ نے اس رشتے کو اپنانا ہے‘ اس رشتے کو بحال کرنا ہے۔ آپ
اگر اپنے قلم کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں‘ اپنی قوم اور اپنی امت کو رب کے
نام سے جوڑیں گے تو وہ جو کائنات کا بادشاہ ہے وہ آپ کو عزت دے گا ان شاء
اﷲ۔
اس جہان میں پہلا رشتہ بھی اسی سے ہے اور آخری رشتہ بھی اسی سے ہے- جب قلم
سے رب کا نام ٹوٹ جاتا ہے تو قلم بھی بے لگام ہو جاتا ہے۔ پھر قلم سے وہ
چیزیں سامنے آتی ہیں اور قلم کی وجہ سے وہ تبدیلی آتی ہے کہ نسلوں کا رشتہ
رب سے کٹ جاتا ہے۔ آج جوسب سے بڑا چیلنج ہمیں اپنی سوسائٹی میں درپیش ہے وہ
یہی ہے کہ ہماری نسلوں کا رشتہ اپنے دین سے کٹ گیا ہے۔ قوم الحاد کا شکار
ہے۔ آپ اپنے قلم کا رشتہ رب کے ساتھ جوڑیں گے‘ اس کے نام کے ساتھ جوڑیں گے
تو اﷲ تعالیٰ آپ کو عزت دے گا۔آپ کی اس جہان میں اور آنے والے ہمیشہ کے
جہانوں میں عزت ہو گی۔
دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے قلم سے وہ کام لے لے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے
نبیوں سے لیا ہے اور جس کے ذریعے انبیاء کو عزت سے سرفراز فرمایا ہے اور
اسی قلم کے ذریعیآپ کو عزت سے نوازے۔اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو!
استاذہ نگہت ہاشمی کا اتنا خوبصورت پیغام ہے کہ ہم لکھنے والوں کو اسے ازبر
کرلینا چاہیے اور اس پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی پیغام کے تسلسل میں یہ
بھی نوٹ کرلیجیے کہ لکھاریوں میں کیا کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ورکشاپ کے
ابتدامیں راقم الحروف نے سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کی چند آیات تلاوت کرنے
کے بعد بتایا کہ ان آیات میں رحمٰن کے بندوں کے چنداوصاف بیان کیے گئے ہیں
اور ان اوصاف کی جھلک ہم لکھاریوں میں بھی ضرور نظر آنی چاہیے۔(۱) عاجزی
اختیارکرنا۔لکھاری کو فخر‘تکبر اور ریاکاری سے بچتے ہوئے ہمیشہ عاجزانہ
رویہ اپنانا چاہیے۔آپ جتنی عاجزی اختیار کریں گے اﷲ تعالیٰ آپ کو اتنی ہی
عزت دے گا۔(۲)جاہل لوگوں سے بحث ومباحثے سے بچنا۔لکھاریوں کو ڈسکشن اور گفت
وشنید ضرورکرنی چاہیے‘لیکن وہ بھی اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے۔نہ کہ آپ
کسی سے بحث و مباحثے میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ بات لڑائی تک پہنچ جائے۔(۳)
اعتدال ومیانہ روی کی روش اپنانا۔لکھاریوں کوہمیشہ معتدل ہوکرلکھنا
چاہیے‘اس لیے کہ ہمارا کام کسی پر فتوے لگانا یا کسی کے جرم کو ثابت کرنا
نہیں ہے۔ہم بس کسی بھی چیز یا واقعہ کے خلاف یااس کے حق میں دلیل دے سکتے
ہیں‘باقی قارئین کو فیصلہ کرنے دیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔(۴) جھوٹ
اور لغو کاموں سے بچنا۔لکھاری کو بھی لکھتے وقت ان دونوں باتوں کا بہت خیال
رکھنا چاہیے ایک تو وہ جھوٹ نہ لکھے اور دوسرا کسی کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے
کی کوشش نہ کرے۔اسی طرح بغیر کسی مقصدیت کے لغو چیزوں کے بارے میں لکھ کر
قلم کی حرمت کو پامال نہیں کرنا چاہیے۔(۵)غوروفکرکرنا۔یہ بہت اہم ہے۔آیت کا
ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔’’جب انہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی
ہے تو وہ اس پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرپڑتے۔‘‘ہمیں بھی کسی بات پر
آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کرلینا چاہیے‘بلکہ ہمیشہ غوروفکر کے بعد نتیجہ
اخذ کرنا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہم لکھاریوں کو ان باتوں کا خیال رکھنے اور ان
اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے اور استاذہ نگہت ہاشمی کو صحت مندانہ
لمبی زندگی عطا فرمائے تاکہ آپ اسی طرح ہماری نئی نسل کی ذہن سازی میں اپنا
کردار اداکرتی رہیں۔(حافظ محمد زاہد‘روشنی کی کرن)
|