72 حوروں کا انکار- ایک تنقیدی جائزہ


ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کا مضمون 72 حوریں ابھی ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے تازہ شمارہ میں پڑھا، انہوں نے ابن قیم اور کچھ دیگر علماء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ 72 حوروں والی حدیث ضعیف ہے، صحیح احادیث میں صرف دو حوروں کا ذکر آیا ہے اور یہ کہ جو لوگ ضعیف و موضوع احادیث اپنے بیانات میں نقل کرتے ہیں، وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ بدنامی کی بنیاد یہ بتائی گئی کہ حال ہی میں اس نام سے ایک فلم ریلیز کی گئی جس میں اسلام کو بدنام کیا گیا۔ نیز ان کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ شاید حوروں کی ہیئت اور قد وقامت وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحب موصوف کے اس مضمون پر چند تنقیدی باتیں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
پہلی بات ابن قیم کے حوالہ سے ہے، ابن قیم کے حوالہ سے انہوں نے ایک ادھوری بات نقل کی، ابن قیم نے بے شک اپنی کتاب حادی الارواح میں یہ لکھا کہ صحیح احادیث میں صرف دو حوروں کا ذکر ہے، مگر انہی ابن قیم نے بعض دیگر مضبوط قرائن کی بنیاد پر یہ بھی لکھا کہ "لاریب ان للمؤمن فی الجنۃ أکثر من اثنتین" یعنی یہ بات شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ مومن کو جنت میں دو سے زیادہ حوریں حاصل ہوں گی۔ ہم نے اپنی کتاب "حوران بہشتی کا صحیح مصداق" میں ایک تفصیلی جائزہ پیش کرکے واضح کیا ہے کہ جس حدیث میں صرف دو حوروں کا ذکر ہے، اس سے مراد مکمل حوروں کی تعداد نہیں، بلکہ چند ایسی خاص صفات کی حامل حوروں کی تعداد ہے جن کا ذکر اسی دو حوروں والی حدیث میں ہی موجود ہے۔
دوسری بات یہ کہ جس حدیث کو وہ ضعیف کہہ رہے ہیں، وہ سب محدثین کے نزدیک ضعیف نہیں، امام ترمذی نے ایسی ایک حدیث کو صحیح لکھا ہے، اس بات کا ذکر بھی ہماری کتاب میں موجود ہے۔
تیسری بات یہ عرض کریں گے کہ اغیار کا کسی بھی موضوع پر کوئی فلم بنا دینا اس بات کی کوئی بنیاد نہیں کہ اب ہم اس موضوع کے حوالہ سے معذرت خواہی کا رویہ اختیار کرلیں، انہیں صرف ہماری احادیث پر ہی نہیں، کلمہ وایمان پر بھی اشکال ہے تو کیا محض اس وجہ سے یہ کہا جائے گا کہ کلمہ وایمان بھی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
چوتھی بات، ضعیف احادیث کے حوالہ سے صحیح رویہ یہی ہے کہ خصوصا ترغیب کے باب میں یہ ایک حد تک اور چند شرائط کے ساتھ مقبول ہیں اور اس چیز کی قدرے تائید ایک حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے، مگر اس کا ذکر پھر کسی موقع پر۔ لہذا حوروں کے ہیئت وقد وقامت بیان کرنے پر اشکال کرنا بھی درست نہیں۔ نیز حوروں کی ہیئت وصورت کا ذکر تو خود قرآن میں موجود ہے، اس کا کیا کیا جائے؟
پانچویں بات یہ کہ لوگوں کا ایمان کم زور ہے، اپنے مضامین وغیرہ میں اغیار کی بنائی فلمز کا من وعن نام لیے بغیر اگر ان پر نقد کیا جاسکتا ہو تو نام ذکر نہیں کرنا چاہیے تاکہ ہمارے دینی مضامین ان بے ہودگیوں کی تشہیر اور ضعف ایمانی کا شکار مسلمانوں کو ان کے دیکھنے کی ترغیب کا باعث نہ بنیں۔
۔۔۔۔۔
میری یہ تحریر بعض مقامات پر شیئر ہوئی تو اس پر ایک صاحب نے تنقیدی تبصرہ لکھا، وہ تبصرہ اور اس پر میرا تاثر نکتہ وار حسب ذیل ہے
وہ لکھتے ہیں کہ "میراخیال ھے کہ آپ کے تنقیدی نکات میں کچھ وزن نہیں ھے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی بات درست لگتی ھے۔
(1) پہلی وجہ یہ ھے کہ حافظ ابن القیم نے دوباتیں کی ہیں ، ایک اس بات کی تصریح کی ھے کہ صحیح آحادیث میں صرف دوحوروں کا ذکر موجود ھے ، دوسری بات یہ لکھی ھے کہ مؤمنوں کودوسے زیادہ حوریں ملیں گی ، مگر دوسری بات کے لیے انھوں نے مستند دلائل فراھم نہیں کیے ہیں ، لھذا ان کی پہلی بات ہی قابلِ اعتبار واعتماد ھے۔"
جواب دیا کہ ابن قیم کی کون سی بات آپ کی نظر میں معتبر ہے اور کون سی نہیں، یہ بعد میں دیکھا جائے گا، فی الحال صرف اتنی بات ہورہی ہے کہ دو حوروں کے حوالہ سے ابن قیم کا موقف اگر نقل کرنا تھا تو پورا نقل کیا جاتا، نہ کہ ادھورا۔ رضی صاحب نے ادھورا نقل کیا۔ رہی مستند دلائل کی بات تو وہ موجود ہیں، تبھی تو سلف و خلف میں شاید کوئی بھی دو حوروں سے زیادہ کی اس طرح نفی نہیں کرتا جیسے آپ حضرات کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ "(2) دوسری وجہ ھے کہ کسی حدیث کے ضعیف ہونے کےلیے یہ ضروری تونہیں ھے کہ سارے محققین اس کے ضعیف ھونے پرمتفق ھوں ، اصلا اس دلیل اور علت کو دیکھاجائے گا جو محدث اس میں ظاھر کرتاھے ، پھر بہت سے محققین نے امام ترمذی کے تساھل ( جس کو ،، فراخ دلی ،، کہنا بہترھوگا ) کا ذکرکیاھے ، آپ کو اس حدیث کی سند پربحث کرکے بتانا چاھئے تھا کہ یہ حدیث قواعد کی رو سے صحیح ھے لھذا امام ترمذی کی اس بات اور رائے کوترجیح حاصل ھے۔"
جواب دیا کہ رضی صاحب کی گفتگو سے معلوم ہورہا تھا کہ جیسے 72 حوروں والی حدیث متفقہ طور پر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور صرف جاہل واعظین ہی اس کا ذکر کرتے ہیں، جبکہ میں نے واضح کیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ امام ترمذی علم الحدیث کا ایک بڑا نام ہیں، آپ کو بھلے امام ترمذی کی بات سے اختلاف ہو، مگر آپ ان کی بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان کی رائے ایک بہت باوقعت رائے ہے اور ان کا تساہل بھی اپنے اندر شاید کوئی حکمت رکھتا ہے جسے کھوجنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ "(3) تیسری وجہ یہ ھے کہ غیروں کے پروپیگنڈے کا اس وقت اعتبارنہیں ھوتا اور نہ ھم اس کا اعتبارکرتے ہیں، جب وہ چیز قران وسنت کے مستند نصوص سے ثابت ھو، اوراگر وہ چیز مستند نصوص میں موجود بھی نہ ھو ، اور پھر لوگ اسے مسلمانوں اور اسلام کےخلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بنارھے ھوں تب اس کا رد کرنا اور اس کے ضعف کو ظاھر کرناضروری ھوتا ھے۔"
جواب دیا کہ اپنے موقف کا اثبات اور دوسروں کے موقف کا ابطال بھلے کیجیے، مگر دو سے زیادہ یا 72 حوروں والی بات کو اسلام کی بدنامی کا نام مت دیجیے کیونکہ اس کے قائل صرف جاہل واعظ نہیں، سلف و خلف کے محقق علماء رہے ہیں اور میں نے یہی کہا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ "رہی آخری بات جوجناب نے کی ھے کہ فضائل میں ضعیف آحادیث قبول ھیں ، توھمیں افسوس ھے ، پہلے تویہ محققین کا مذھب نہیں ھے ، کچھ محققین نے بعض شرائط کے ساتھ اسے قبول کیاھے ، پھروہ فضائل میں قبول ھے ، جو اعمالِ حسنہ پرلوگوں کو ابھارتے ہیں ، اس بات کا سترحوروں کے ساتھ کیاتعلق ھے ؟ کیابیویوں کے مزید دوحوروں سے ان مومنوں کا گذارا نہیں ھوتا ؟"
جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کے نزدیک محقق کا معیار کیا ہے، لیکن جیساکہ میں نے سابقہ پوسٹ میں لکھا، فضائل وترغیب کے باب میں یہ مقبول ہیں اور اس نکتہء نظر کی تائید ایک صحیح السند حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کا ذکر ان شاء اللہ جلد کروں گا۔ رہی بات72 حوروں کے اس سے تعلق کی تو بھائی، وہ فضیلت ہی تو ہے ایمان کی اور ایک حدیث کے مطابق شہید کی۔
آخری بات، دو حوروں پر گزارے والا سوال آپ کو مجھ سے کرنے کی بجائے، اللہ کے رسول سے کرنا چاہیے جن کے کلام سے سمجھ کر سلف و خلف کے محقق علماء دو سے زیادہ حوروں کے قائل رہے ہیں۔ آپ کو اگر جنت کے معاملہ میں قناعت پسند ہے تو ضرور کیجیے، ہمیں نہیں۔ اللہ ہمارا داتا ہے اور ہم اس کے منگتے ہیں، وہ اگر کچھ دینا چاہے بندوں کو تو کیا بندے اس سے انکار کردیں؟ دعا ہے کہ مالک اپنی رحمت کے صدقہ میں ہم گنہ گاروں کو اپنی جنت عطا کردے، اس کے لیے یہ مشکل نہیں۔ آمین
۔۔۔۔۔
ایک ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا کہ آپ کی اور آپ کے ناقد کی گفتگو پڑھ کر مجھے سمجھ یہی آئی ہے کہ بنیادی طور پر دونوں آراء میں تحقیق کا اختلاف نہیں بلکہ متعلقہ مسلک کا فقہی منہج کا اختلاف اثر انداز ہو رہا ہے جو دونوں کا مختلف دکھائی دیتا ہے۔اہل ظاہر اور اہل تاویل فرق نمایاں ہے۔ عرض کیا کہ سلفی علماء اہل ظاہر میں سے ہیں اور سلفی علماء ہی میں سے ابن قیم سے لے کر موجودہ دور تک کے کئی نمایاں عرب علماء صحیح السند احادیث ہی میں مذکور بعض مضبوط قرائن کی بناء پر دو سے زیادہ کے قائل ہیں اور دو سے زیادہ کی بات کو اسلام کی بدنامی کا باعث کہنا ایک بہت بڑی بات ہے۔
ایک ندوی دوست نے لکھا کہ امام ترمذی کی طرف تساہل کی نسبت کرنا خود محل نظر ہے، اس کیلئے آپ نورالدین عتر کی پی ایچ ڈی کا رسالہ دیکھ سکتے ہیں۔ جواب دیا کہ ذہبی نے غالبا تساہل کی بات لکھی ہے، مگر مجھے اندازہ تھا کہ اس میں کچھ قیل وقال ہوگی، اس لیے موہوم سی بات کی۔
کہا گیا کہ علمِ حدیث پر تحقیق کی بنیاد یہ نہیں ہونی چاہیئے کہ اس بابت محدثین کی کیا رائے ہے۔ امام ترمذیؒ کے الفاظ کے معنی و مدعا پربھی اختلاف رہتا ہے کہ ان کی اصل مراد کیا ہے خواہ "حسن صحیح" ہو یا "حسن غریب" ہو۔ یہ روایتیں ضعیف ہی ہیں، البتہ ان کو ذکر کرنے کی نسبت صرف واعظین کی طرف کرنا ممکنہ طور پر غلط ہوسکتا ہے مگر محققین کے نزدیک بہر حال یہ ضعیف ہے اور یہی بات راجح بھی ہے۔
جواب دیا کہ بعض علماء کے نزدیک تو تدوین حدیث کے بعد کے دور کے علماء کا سرے سے یہ مقام ہی نہیں کہ وہ سابقین کی تصحیح وتضعیف کو رد کریں، لیکن مجھے بہرحال اس رائے پر اصرار نہیں۔ اگر دوسری رائے بھی لے لی جائے کہ قواعد کی رو سے کلام کا دروازے کھلا ہے تو تب بھی بہرحال سابقین کی ایک رائے کو ایک رائے کی حیثیت سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اجتہادی رائے کی حیثیت سے اس کی بھی بہرحال ایک اہمیت ہے۔ باقی میرا بنیادی مقصود یہ ثابت کرنا تھا کہ اس کی نسبت صرف واعظین کی طرف کرنا اور اسے اسلام کی بدنامی کا باعث قرار دینا درست نہیں، دو سے زیادہ کے قائل کئی علماء رہے اور ان کے پاس اس کے مضبوط قرائن بھی رہے۔ وہ قرائن صرف ترمذی کی حدیث ہی پر مشتمل نہیں۔
ایک دوست نے بہت عمدہ لکھا کہ جہاں تک مجھے پتا چلا ہے تو پروپیگنڈہ یہ ہے کہ مولوی بہتر حوروں کا لالچ دے کر لوگوں کو دہشت گردی پر تیار کرتے ہیں تو اصل مسئلہ تو دہشت گردی ہے جسے ڈیفائن کرنا اور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ بہتر حوروں کا ہی انکار کر دے۔ ایسے تو اگر کوئی صرف جنت کا لالچ دے کر دہشت گردی پر ابھارے تو اب کیا جنت کا بھی انکار کر دیا جائے گا؟

محمد عبد اللہ شارق
About the Author: محمد عبد اللہ شارق Read More Articles by محمد عبد اللہ شارق: 5 Articles with 5556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.