ایک باغی حسینہ کا کچا چٹھا ۔ دوزخ کی دہلیز سے

ہیلو گائز! کیا حال ہیں؟ مزے میں ہو نا ۔ مجھے پتہ ہے تم مجھے نہیں بھولے۔


بس اب چند ہی دن باقی رہتے ہیں تو مجھے پورے سات سال ہو جائیں گے تمہاری دنیا سے دفعان ہوئے ۔ اب تک تو تم نے جنت سے لکھے گئے خط ہی پڑھے ہیں چلو آج ایک دوزخ سے لکھا گیا خط بھی پڑھ لو ۔ اب ظاہر ہے کہ میرے کرتوت ایسے تو تھے نہیں کہ میں جنت میں جاتی ۔ اچھا زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے جگہ تو مجھے دوزخ میں بھی نہیں ملی ۔ پوچھو کیوں؟

 
ہؤا یہ کہ جب میں مرنے کے بعد یہاں پہنچی تو فرشتے مجھے گھسیٹتے ہوئے دوزخ کی طرف لے چلے جب اندر دھکیلنے لگے تو میرا ناحق قتل سینہ تان کے راستے میں کھڑا ہو گیا ۔ فرشتوں نے بڑی کوشش کی مجھے جہنم رسید کرنے کی مگر میرا قتل ڈٹا رہا کہ مجھے میرے کرتوتوں کی سزا دنیا میں ہی مل چکی ہے ایک انتہائی دردناک اور عبرتناک موت کی شکل میں ۔ تنگ آ کر انہوں نے مجھے دروازے پر ہی پٹخ دیا اور میرا کیس اللہ کے حضور پیش کر دیا بس میں تب سے یہیں چوکھٹ پر پڑی ہوئی اپنی باری کی منتظر ہوں۔

 
تمہارے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی عزت کی حفاظت کرنا جانتی ہیں اپنے حالات یا وقت کی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں ۔ نہایت ہی پامردی اور بلند ہمتی سے اپنے گھرانے کی کفالت میں کردار ادا کرتی ہیں اور اپنے والدین و خاندان کی ناموس پر آنچ بھی نہیں آنے دیتیں ۔ لیکن ہضم تو تمہیں ایسی لڑکیاں بھی نہیں ہوتیں ۔ یہاں پہنچنے کے ایک مہینہ بعد میں نے سنا تھا کہ مہوش ارشد نام کی ایک لڑکی جنت الفردوس میں پہنچی ہے خود اپنے خون میں نہائی ہوئی ۔ لال جوڑا پہننے کی عمر میں اس نے کفن اوڑھ لیا کیونکہ وہ ایک دست دراز کی ڈولی میں نہیں بیٹھنا چاہتی تھی سو اس نے ڈولے میں سوار کرا دیا۔

 
ٹھیک ہے کچھ مجھ جیسی بھی ہوتی ہیں جو تربیت کی کمی، کچھ اپنی ناسمجھی اور دینی تعلیمات سے دوری کے سبب غلط راستوں اور غلط ہاتھوں میں پڑجاتی ہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بعد ماں باپ کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں اپنی من مانیاں کرنے لگتی ہیں ۔ پر والدین بھی تو جان بوجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں وہ جاننے کی کوشش تک نہیں کرتے کہ آخر ان کی بچی کی کیا مصروفیات ہیں وہ مناسب تعلیم تک نہ ہونے کے باوجود یہ اندھا دھند رقمیں کس عہدے پر فائز ہو کر لا رہی ہے؟ انہیں صرف اپنی ضروریات کی تکمیل سے سروکار رہ جاتا ہے ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ بس ایسے ہی بات بنی رہے کبھی نہ کُھلے گزارہ چلتا رہے ۔ میرے بھی لالچی بھائی میری ملک و بیرون ملک سرگرمیوں کی نوعیت سے انجان بنے میری کمائی سے اپنا اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔ پہلے انہوں زبردستی ایک غلط جگہ میری شادی کی پھر جب مجھے مار پیٹ کر میرا بچہ چھین کر مجھے طلاق کا تمغہ پہنا کر واپس بھیج دیا گیا تو کسی سے میری دو وقت کی روٹی کی ذمہ داری نہیں اٹھائی گئی تب میں اپنا پیٹ خود پالنے نکل کھڑی ہوئی ۔ مجھے نہ معاشی سرپرستی حاصل تھی اور نہ ہی دینی سطح پر رہنمائی ۔ میں کسی چہیتی ماڈل یا ایکٹریس کے جیسا نصیب لے کر دنیا میں نہیں آئی تھی کوئی مولانا مجھے اس دلدل سے نکالنے کے لئے نہیں آیا اور ایک مفتی مجھے کتنا مہنگا پڑا یہ تو تم لوگ جانتے ہی ہو ۔

سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اسے ہضم کرنے کے لئے معدے کی نہیں بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر ایرے غیرے کے پاس نہیں ہوتا ۔ خیر پہلے میں بس ہوسٹس بنی پھر دبئی اور ساؤتھ افریقہ میں دھکے کھاتی بھٹکتی پھری شارٹ کٹ کے چکر میں ایک بے ہدایت مسافر بنی اور اپنے خود غرض کنگلے بہن بھائیوں کی کفیل بھی بن گئی ۔ میرا چھوٹا نکما آوارہ بھائی ایک بندے پر قاتلانہ حملے کے جرم میں اندر ہؤا تو میں اسے ایک رات میں باہر نکال لائی ۔ اس بے غیرت نے مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ آپاں! تیرے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے تُو نے کیا جنتر منتر پڑھ کے پھونکا کہ تھانے والوں نے مجھ اقدام قتل کے مجرم کو سویرے ہی چھوڑ دیا ۔ اس ناکارہ نکھٹو کو کسی کام دھندے سے لگانے کے لئے میں نے اسے موبائل شاپ کھلوا دی تو اس کی دیکھا دیکھی بڑے بھائی نے بھی کاروبار کے لئے لاکھوں روپے مجھ سے ایسے مانگ لیے جیسے میں کسی خزانے کی مالک ہوں ۔ بات تو ٹھیک ہے خزانہ تو میرے پاس تھا جسے میں لٹاتی پھر رہی تھی ۔ پھر جب یہ دہی بڑا بھی دو نمبری کے الزام میں دھر لیا گیا تو اس کی بھی خلاصی بس ایک رات کی مار تھی۔


پھر ایک رات میں مار دی گئی تو پورن ویب سائٹس کی سرچ میں مبینہ طور پر اول نمبر ملک کے کچھ بزعم خود پارسا و شرفاء خامہ فرساء میرے اندر پڑے ہوئے کیڑوں کو ایسے چُننے لگے جیسے میری سوشل میڈیا پر آمد سے پہلے تو پورے ملک میں شرم و حیا اور پاکیزگی و پاکدامنی کی نہریں بہہ رہی تھیں اور ان کی دودھ کی دُھلی آل اولادیں فیس بک پر بیٹھ کر نفلیں پڑھ رہی ہوتی تھیں ۔ کمبختو! کیا پورے ملک میں پھیلی ہوئی بے حیائی اور بےراہروی کی بس ایک میں ہی واحد ذمہ دار تھی؟ کہ سارے سقراطوں بقراطوں پر بھاری پڑ گئی سارے نیک پرویزوں کا ایمان و اخلاق غارت کر کے رکھ دیا جو ماں بہنوں کے سری پائے سے شروع ہوتا ہے اور ان کی اُلٹی سیدھی شینوں میں اٹک جاتا ہے ۔ مجھ کمبخت ماری نے سیدھے سادے بھولے بھالے پاک بازوں کی مت مار دی انہیں اپنی ایسی ویسی جیسی تیسی وڈیوز اور پکس کو کروڑوں بار دیکھنے پر مجبور کیا ۔ ساری غلطی میری ہی تھی نا تو مجھے ٹھکانے لگائے جانے کے بعد کیا سب کچھ ٹھیک ہو گیا؟ ملک پھر سے معبد بن گیا؟


‏‎میرا قصور یہی تھا نا کہ میں سب کچھ کُھلے عام کر رہی تھی ۔ اوپر سے مولویوں مفتیوں سے بنا کر رکھنے کی بجائے ان کی پگڑیاں اچھال رہی تھی ۔ پیری مریدی کے شائقین کی پول پٹیاں کھول رہی تھی لوگ مجھے گا لیاں بھی دیتے تھے اور میری گلیوں کے چکر لگانا بھی چھوڑتے نہیں تھے جو گند میں نے پھیلایا تھا وہ تو تمہیں آج بھی اتنا ہی پسند ہے ۔ میری پتنگی پکس اور وڈیوز اپلوڈ کرنے والو اور انہیں ڈیلیٹ نہ کرنے والو اور آج بھی انہیں مزے لے کر دیکھنے والے نا مرادو! جان لو کہ کل کو قیامت والے روز میں اکیلی نہیں ہونگی وہاں تم سب منافق بھی میرے ساتھ ہو گے اور میرے ساتھ ساتھ تمہارا بھی حساب ہو رہا ہو گا ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 235 Articles with 1879675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.