شیش محل میں رہنے والے دوسروں پر
پتھر نہیں اٹھایا کرتے۔یہ اس دور کی بات ہے جب محلوں میں رہنے والوں کے
اندر شیشے کی نزاکت کا شعور پایا جاتا تھا لیکن دورِ حاضر میں یہ احساس ختم
ہو گیا لوگوں نے شیشے کی چادرکو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سمجھ لیا ہے ۔وہ
اپنے محلوں سے توپ و تفنگ سے لیس ہو کر اکڑتے ہوئےنکلتے ہیں اور یہ بھول
جاتے ہیں کہ بقول فیض شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
شیشہ ہو کے موتی جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
صہیونی فتنہ اور صلیبی طاغوت کے ظلم و ستم کی طغیانی نے جب عالمِ انسانیت
کو بری طرح لہو لہان کر دیا تواسکے جواب میں معتوبوں نے اینٹ کے جواب میں
پتھر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پھر کیا تھادیکھتے دیکھتے شیش محل میں دراڑیں
پڑنے لگیں ۔پہلے اس ردعمل سے قدموں تلے ارتعاش پیدا ہوا اور اب اس کی کرچیں
شہ رگ کو کھرچنے لگی ہیں کبرو غرور کا آسمان میں اٹھا ہوا سر زمین کی جانب
جھکنے لگا ۔اس کا سب سے بڑ اثبوت گزشتہ ہفتہ ہونے والا کابل کے امریکی
سفارتخانے اور ناٹو کے صدر دفتر پر طالبان کا حملہ ہے اور اسی کے ساتھ ترکی
کے وزیر اعظم طیب اردغان کا یہ اعلان کہ اب آئندہ غزہ کی جانب جانے والی
امدادی کشتی کے ساتھ فوجی رسد بھی موجود ہوگی تاکہ اسرائیلی فوج کو منہ توڑ
جواب دے سکے ۔یہ تو خیر بیرونی مسائل کی سونامی ہے جن سے اسرائیل جوجھ رہا
ہے لیکن اس شیش محل کے اندر ہونے والی عوامی اتھل پتھل نے مسائل کی سنگینی
میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے اور اس کے حکمرانوں کی نیند حرام کر دی ہے ۔
مسلم دنیا میں برپاہونے والے انقلابات نے اسرائیل کے یہودیوں کو خوابِ
خرگوش سے بیدار کر دیا ہے اور وہ بھی اپنی حکومت اور نظام کے خلاف سڑکوں پر
اتر آئے ہیں یہ صدائے احتجاج اس مسلم بیداری کی مرہونِ منتّ ہے جس کا نقشہ
انتظار نعیم کچھ اس طرح کھینچتے ہیں
ملکوں ملکوں شہروں شہروں ایک نئی بیداری ہے
جاء الحق و زھق الباطل سب کی زباں پر جاری ہے
تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں میں لوگوں کی تعداد میں
بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔جولائی کے اواخر میں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی تین
ماہ کے اندر اس میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔تل ابیب کا ہبیما چوک اب تحریر
چوک کے نام سے مشہور ہوتا جارہا ہے ۔مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں ‘‘استعفیٰ دو
مصر یہاں ہے’’ ۔واجبی قیمت پر گھروں کی خاطر شروع ہونے والی تحریک اب ٹیکس
کے نظام میں اصلاح اور فلاحی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ مظاہرے
میں شامل طلبا رہنما شمولی کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک کی خاطر جان لڑا سکتے
ہیں لیکن وزیراعظم ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اس ملک میں زندہ
رہنے دیں گے ۔اس اعلان میں نوجوان نسل کی جانب سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ
اگر حالات نہیں بدلے تو ہم ترکِ وطن کر کے باہر نکل جائیں گے ۔جن لوگوں
کیلئے فلسطینیوں کو بے وطن کیا گیا تھااب وہی اپنی نام نہاد مملکتِ خداداد
سے فرار کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔سٹاف شافر جو اس تحریک کے بانیوں میں سے
ایک ہے کہتا ہے کہ ‘‘ہمارا مطالبہ وزیراعظم کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا
ہے ۔’’
جس نظام کی تبدیلی کیلئے اسرائیلی عوام سڑکوں پر اترے ہیں وہ حسنی مبارک یا
معمر قذافی کی مانند کوئی فوجی آمریت نہیں بلکہ مغربی جمہوریت ہے ۔
اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اسرائیل کو
حاصل ہونے والی مغربی شفقت کی ایک وجہ یہی قدرِ مشترک ہے اور ہندوستان سے
انسیت بھی اسی سبب سے ہے ۔گوکہ اسرائیل مغرب کا حلیف ہے اس کے باوجودوہاں
کےصہیونی نظام حکومت اور ہندوستانی براہمنی طرز سلطنت میں غیر معمولی
مشابہت پائی جاتی ہے۔اسرائیل میں برطانیہ کی طرح نہ تو کوئی ملکہ براجمان
ہے اور نہ ہی امریکہ کی مانند صدارتی نظام رائج ہے بلکہ ہندوستان جیسی خالص
پارلیمانی جمہوریت کا دور دورہ ہے بلکہ ہندوستان پر بھی اس معنی ٰ میں
اسےفوقیت حاصل ہے کہ وہاں کسی نہرو خاندان کی اقتدار پر اجارہ داری نہیں
پائی جاتی ۔اس سونے پر سہاگہ کا کام مسلم دشمنی ہے۔
اسرائیل میں انتخابات کا سلسلہ کبھی بھی نہیں رکا ۔ہندوستان ہی کی طرح
اسرائیل میں بھی بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں جو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتی ہیں ۔ ان میں لکڈپارٹی کا نگریس کی طرح ہے ۔ اس سے الگ ہوکر بننے والی
قدیمہ کی حالت جنتا دل کی مانند ہے ۔لائیبرمن کی مادرِ وطن پارٹی کے عزائم
اور لب ولہجے میں بھارتیہ جنتاپارٹی سے شباہت صاف نظرآتی ہے اور لیبر
پارٹی کا حال نظری و عملی سطح پر کمیونسٹوں جیسا ہے ۔یہ بھی ایک حسنِ اتفاق
ہے کہ فی الحال ہندوستان ہی کی طرح وہاں بھی ہر جماعت واضح اکثریت سے محروم
ہے اس لئے مخلوط حکومت کی مجبوریاں ہر دو مقام پر لاحق ہیں اور حکومت سازی
سے قبل ہونے والی ابن الوقتی اور سودے بازیاں بالکل ایکدوسرے کی ہمزاد ہیں
بلکہ اسرائیل کے اڈوانی لائیبرمن کواپنے سارے اختلافات بھلا کرلکڈ سے ہاتھ
ملا لینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی بشرطیکہ اسے وزارتِ خارجہ کا قلمدان
تھما دیا جائے ۔ لیبر پارٹی جو انتخاب سے قبل حزب ِ اختلاف قدیمہ کی حکومت
میں شامل تھی اب بڑی بے حیائی کے ساتھ پالہ بدل کرجمہوریت کی بقاء کی خاطر
لکڈکے ساتھ آکر وزارتِ دفاع پر قبضہ جما لیتی ہے۔بدعنوانی کے الزامات میں
سابق وزیراعظم یہود اولمرٹ کوملوث پایاجاتا ہے اور صدر مملکت اپنی سکریٹری
کے ساتھ دست درازی کےجرم کا ارتکاب کرتا ہے۔انتخابی کرتب بازی بھی ملتی
جلتی ہی ہے۔یہاں کانگریس اپنے رائے دہندگان کو خوش کرنے کیلئے میرٹھ اور
ملیانہ جیسے فرقہ وارانہ فسادات کرواتی ہے تو وہاں صابرہ اور شتیلہ کے
مہاجرین کیمپوں کوبمباری کرکے لالہ زار کیا جاتا ہے۔بی جے پی کارگل کی جنگ
اور گجرات کی نسل کشی کے نام پر ووٹ مانگتی ہے توقدیمہ غزہ پر حملہ بول کر
اپنی مقبولیت میں اضافہ کی کوشش کرتی ہے ۔دونوں ہی ممالک پرجمہوری دیوِ
استبداد کا یکساں رنگ روپ ہے ۔
اسرائیل میں جمہوریت نوازوں نے فلسطینیوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جس
کا شکار کشمیر کے مسلمان ہیں ۔اور تو اور پنجاب کے سکھوں اور میزورم کے
عیسائیوں کوبھی سرکاری جبروظلم کا اسی طرح نشانہ بنایا گیا جیسا کہ غزہ اور
مغربی کنارے کےفلسطینیوں کو بنایا جاتا ہے۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے جائزہ
لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح اسرائیل اپنے پڑوسی مصر اور شام سے بر
سرِ جنگ رہا ہے ویسی ہی جنگیں ہندوستان اور اس کے پڑوسی چین و پاکستان کے
درمیان بھی ہو چکی ہیں ۔جس طرح اسرائیل نے لبنان میں عیسائی اقلیت کو مسلح
کرکے وہاں خانہ جنگی پھیلائی ایسی ہی سازش ہندوستان نے مشرقی پاکستان کی
مکتی باہنی اور سری لنکا کی تمل ٹائیگرس کی مدد سے کی ۔ جس طرح اسرائیل سے
اس کے ہم سایہ ممالک نالاں ہے بالکل وہی صورتحال بھارت کی بھی ہے کہ بشمول
نیپال سارے ہی پڑوسی اس سے شاکی اور خوفزدہ ہیں ۔نئی عالمی سیاسی صورتحال
نے ہند اور اسرائیل کے درمیان ایک اور خطرناک مماثلت پیدا کر دی ہے ۔جس طرح
مسلم دنیا کے خلاف اسرائیل امریکہ کا آلۂ کار بنا ہوا ہے اسی طرح کا
کردارہندوستان کی حکومت امریکہ کیلئے چین کے خلاف ادا کرنے جارہی ہے
۔اسرائیل نے جس طرح حسنی مبارک سے تعلقات استوار کر رکھے تھے اسی طرح
ہندوستان نے افغانستان کی بدعنوان اور کٹھ پتلی حکومت سے سانٹھ گانٹھ کر لی
ہے۔تبت کے دلائی لامہ جس طرح دلی کے منظورِ نظر ہیں اسی طرح محمود عباس کی
تل ابیب میں پذیرائی کی جاتی رہی ہے ۔
تہذیب و تمدن کی سطح پرہندو برہمنیت اور یہودی صہیونیت کے درمیان مطابقت
حیرت انگیز ہے۔ دونوں کا بنیادنسلی تفاوت وامتیازپر اٹھائی گئی ہے۔دونوں کو
اپنی قدامت کا زعم ہے۔دونوں اپنے آپ کو مظلومیت کا شکار بنا کر پیش کرتے
ہیں ۔ہندودانشوروں کو بابر اورجناح سے وہی شاتیت ہے جو یہودیوں کو ہٹلر سے
ہےلیکن جمہوری نظام اس فتنہ پر اثر اندازہو نے کے بجائے اس سے مکمل طور پر
ہم آہنگ ہو گیا ہے اور یہ گٹھ جوڑ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا رہا ہے ۔
تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے توہندوستان نے جس زمانے میں انگریزوں سے
آزادی حاصل کی اسی دور میں اسرائیلی ریاست نے انگریزی سامراج کے بطن سےجنم
لیا گویادونوں مقامات پر اس فاسدنظام کی داغ بیل ایک ہی وقت میں پڑی۔آمریت
کے آسیب کو اس کی جڑیں کھوکھلا کرنے کا موقع ان دونوں ممالک میں نصیب نہیں
ہوا اس لئے وقت کے ساتھ اس کی جڑیں زمین میں گہری اور شاخیں آسمان میں
پھیلتی چلی گئیں اور اب جبکہ اس کے پھلنے پھولنے کا وقت آیا ہے تو یہ
یکساں پھل دے رہا ہے ۔نظام کوئی بھی ہو جب اس کا بیج زمین میں پڑتا ہے تو
لوگوں کو اس سے کچھ امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں ۔جب نازک سی کونپل بیج کے
سخت خول سے باہر سر ابھارتی ہے تومعصوم بچے کی مانند خوشنما لگتی ہے ۔جب وہ
اپنے تنے پر کھڑی ہوتی ہے لوگوں کا دل لبھاتی ہے ۔ جب اس اسکی شاخیں سایہ
دار ہو جاتی ہیں تو عوام کو راحت محسوس ہوتی ہے لیکن پھر جب اس درخت کو پھل
لگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ شجر طیب ہے یا خبیث ہے ۔
جمہوریت کا شجر خبیثہ فی الحال یوروپ ،امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل سبھی
کو یکساں پھلوں سے نواز رہا ہے ، یوروپ کے ممالک یکے بعد دیگرے کنگال ہوتے
جارہے ہیں ایسے میں اٹلی کاقلاش صدر اپنا دامن پھیلانے کیلئے امریکہ کے
بجائے چین کا رخ کرتا ہے ۔امریکہ میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ دہائیوں میں
سب سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ ۱۵ فی صد عوام غریبی کی سطح سے نیچے پہنچ گئے ہیں
جن میں نوجوان۲۲ فیصدہیں ۔دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہندوستان میں پٹرول کی
قیمت میں اضافے کیخلاف ملک گیرمظاہرے ہورہے ہیں اس لئے کہ پچھلےدس ماہ میں
یہ دسواں اضافہ ہے ۔ مہنگائی کے معاملے میں اسرائیل بھی ہندوستان کے شانہ
بشانہ کھڑا ہے ۔آٹے کا بھاؤ ۱۹ فی صد بڑھا ہے کھانے کے تیل میں ۲۳ فی صد
اضافہ ہوا ہے شکر کی قیمتیں ۴۰ فیصد تو اچھے قسم کے گیہوں کی قیمت میں
۱۰۶فیصد کی بڑھوتری دیکھنے کو آئی ہے ۔مظلوم فلسطینیوں کو بے گھر کر کے
اپنی عوام کو رہائش فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والی صہیونی حکومت کا حال یہ
ہے کہ ۹۳ فیصد زمین پر قابض ہونے کے باوجود وہ اس محاذ پر بری طرح ناکام ہے
۔ گزشتہ چند سالوں کے اندر گھروں کا کرایہ ۳۵ سے ۴۰ فی صد بڑھا ہے ۔دو یا
تین آرامگاہ والے معمولی گھر کی قیمت۶ لاکھ سے ۱۰ لاکھ امریکی ڈالر کے
برابر ہے ۔ابتدا میں اسی پریشانی نے عوام کو راستوں پر خیمے لگا کر مظاہرہ
کرنے پر مجبور کردیا ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل میں معاشی ترقی کی شرح دیگر صنعتی ممالک سے
بہتر ہے لیکن اس ترقی کا فائدہ ہندوستان کی مانند ٹاٹا اور امبانی جیسے
سریہ داروں کو تو ہورہا ہے لیکن عام آدمی اس سے محروم ہے اور نتیجہ یہ ہے
غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اسرائیل میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق
۲۵ فی صد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔یہ بات قابلِ غور
ہے کہ امریکہ میں ۲۲۰۰ ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب کہلاتا ہے جبکہ اسرائیل
میں ۹۰۰ ڈالر ماہانہ سے زیادہ کمانے والے خاندان کو غریب شمار نہیں کیا
جاتا ۔ ۲۰۰۸ کے مقابلے اس شرح میں۳ء۱ فی صدکا اضافہ ہوا ہے ۔اسرائیل میں ہر
تین میں سے ایک بچہ غریب ہے اور جن ملازمین کو کم ازکم تنخواہ پر گزارہ
کرنا پڑتا ہے ان میں خواتین کی تعداد ۷۰ فی صد ہے ۔ہٹلر کے مظالم کا شکار
ہونے والے جو لوگ اسرائیل میں خوشحالی کے خواب سجا کر آئے تھے ان میں سے
۴۰ فیصد غربت کا شکار ہیں۔ ڈاکٹروں نے اپنی تنخواہ میں اضافے کی خاطر ہڑتال
کر رکھی ہے ۔
اسرائیل کی حکومت بجٹ کا بڑا حصہ قومی تحفظ پر خرچ کر دیتی ہے اس لئے سماجی
فلاح و بہبود کے وسائل سکڑگئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب مظاہرین گھروں کی
قیمتوں سے آگے بڑھکر پورے معاشی نظام اور معاشرے میں مکمل تبدیلی پر زور
دے رہے ہیں ۔ وہ ٹیکس کا نیا نظام چاہتے ہیں بجلی کی نرخ میں اضافے کو ختم
کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں،مفت تعلیم و بچوں کی فلاح و بہبودپر زور دیتے ہیں
سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس بات کاا مکان ہے کہ اگر
مصر اسرائیل کو سستے داموں ایندھن کی سپلائی بند کر دیتا ہے جس کا اشارہ
مصری وزیر اعظم نے حال میں بلا واسطہ یہ کہہ کر دیا کہ کوئی معاہدہ مقدس
نہیں ہے سبھی پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسرائیلی معیشت
کی کمر ٹوٹ سکتی ہے ۔اسرائیل کااصل مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً بیس سرمایہ
دارخاندانوں نے سارے ملک کی معیشت کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ان
خاندانوں کی ملکیت میں ۲۵ سب سے بڑی کمپنیاں مثلاً بنک ،سپر مارکیٹ ،ٹیلی
فون، زمین جائداد ،پٹرول پمپ اور دیگر ہیں اور ۵۰ فی صد اسٹاک مارکیٹ پر ان
کا قبضہ ہے ۔سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ کے زمانے میں اعلیٰ ترین عہدے پر
فائز افسر یورم ٹربووکز اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سرمایہ دار حکومت سے زیادہ
طاقتور ہیں ۔ مخلوط حکومت میں شامل مادِ وطن پارٹی ان سرمایہ داروں کی
ایجنٹ ہے وہ حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرنے روکتی ہے اور کبھی
عربی کے خلاف تحریک چلانے لگتی ہے تو کبھی فلطینیوں کی حمایت کرنے والے
یہودیوں کو غدارِ وطن ثابت کر کے ان کے خلاف قانون بنانے میں جٹ جاتی ہے
۔وزیر اعظم نتن یا ہو کے ایک جانب اقتدار کی کرسی اور عوام کے مسائل ہیں
اور دوسری جانب مادرِ وطن پارٹی اور سرمایہ دارہیں ان دونوں کے درمیان
جمہوری نظام کی چکی میں عوام پس رہے ہیں ۔یہ مسئلہ اسرائیل، امریکہ یا
ہندوستان کا نہیں بلکہ ان ممالک میں رائج نظامِ سیاست کا ہے جو بذاتِ خود
اپنےمتبادل کا مطالبہ کرتا ہے ۔
ارشادِ ربانی ہے ‘‘اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو
زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے’’
باطل نظام کی سب سے بڑی شناخت اس کی بے ثباتی ہوتی ہے جس کا پتہ اس وقت
چلتا ہے جب بادِمخالف سے اسکی جڑیں ہلنے لگتی ہیں ۔ایسا ہی کچھ مغربی
جمہوریت کے ساتھ شرق و غرب میں ہو رہا ہے ۔ اس کا متبادل صرف اور صرف
اسلامی خلافت ہے جس کے بارے میں فرمایا ‘‘کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے
کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات
کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی
ہوئی ہیں۔ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس
لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں ’’۔
اسرائیلی ریاست مغربی تحفظ کے بل بوتے مسلمانوں کی مخالفت کا مقابلہ کرتی
رہی لیکن اب مغرب کے اپنے چل چلاؤ کا دور آن پہنچا ہے اور وہ خود اپنی
بقاء کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے ایسے میں بھلا کسی اور کی حفاظت اس کے بس
کا رو گ نہیں۔ نیز اسلامی تحریک جو کبھی ایک نازک سی کونپل تھی اب ایک
تناور پھلداردرخت بن گئی ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اب
باطل کیلئے ناممکن ہو گیا ہے کہ وہ اس کا بال بیکا کر سکے ۔ گردشِ زمانہ
نےامریکہ اور اسرائیل کو جس طرح یکہ و تنہا کر دیا ہے اس پر غالب کا شعر(مع
ترمیم)صادق آتا ہے
قیس انڈیا میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو |