بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب بھی سڑکوں پہ چلتی پھرتی بے پردہ اور دوپٹے کو رسی کی طرح گلے میں
لٹکائے خواتین کو دیکھتی ہوں تو ان کی معصوم سی صورتوں پر جمی مصنوعی خوشی
مجھے بہت کچھ کہتے کہتے خاموش کر دیتی ھے۔ سوچتی ہوں شائد یہ میری طرح
دقیانوسی نہیں۔
ہینڈ بیگ میں محفوظ ان کے کاغذی نوٹ کتنے قیمتی ہیں؟ اس کا اندازاہ ان کی
اپنے بیگز کی حفاظت میں رکھی مضبوط گرفت سے ہو رہا ہوتا ھے۔ وہ قیمتی زیور
جو ان کی الماری ( یا اپنی سوچی ہوئی کوئی خفیہ جگہ ) کے کسی نہ نظر آنے
والے گوشے میں محفوط ہوتے ہیں کیا وہ اپنی ذات ان زیورات سے بھی ارزاں سمجھ
رہی ہیں۔
حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھے۔
"دنیا ساری کی ساری مال و متاع بے اور سب سے مہنگی چیز دنیا میں نیک اور
صالحہ عورت ھے"
دور جاہلیت جس میں بیٹیوں کی پیدائش پہ سر شرم سے جھک جاتے تھے۔ جہاں
بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا جی ہاں وہی دور جاہلیت ھے جس میں باپ کے
مرنے کے بعد بیٹا ماں سے شادی کر لیتا تھا۔
اسلام نے جاہلیت کے تمام بت توڑ ڈالے۔
عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی وغیرہ کے نام پر وہ مضبوط قلعے دئے جن
قلعوں کے اندر وہ محفوظ اعلی رتبوں پہ فائز نظر آتی ھے۔ کسی ایک رشتے کی
کمی کی صورت میں باقی رشتے باپ،بیٹے،بھائی، شوہر، چچا یا ماموں کی سرپرستی
کی شکل میں اس کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوتے
ہیں۔
لیکن آج یہی مضبوط قلعے خواتین کو جیل خانے معلوم ہوتے ہیں۔
کہیں وہ میرا جسم میری مرضی کی گردان دہراتی نظر آتی ہے تو کہیں وہ مکمل
لباس اور پردے کی حفاظت کو اپنے لئے پابندی کا نام دے کر آزادی کا نعرہ
لگاتی دکھائی دیتی ھے۔
وہ ان سب کو دقیانوسیت قرار دے کر دوبارہ اسی جاہلیت کے دور میں جا رہی ھے
اور ان سب کو وہ لبرلزم کا نام دے کر نہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ھے
بلکہ دوسروں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکنا چاہتی ھے۔
شاعر نے شائد انہی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا
سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتول کی
اور تالیاں بجاتی ھے امت رسول کی
لیکن مجھے شاعر کی بات سے اتفاق نہیں۔ کیونکہ جو خواتین بھی یہ سب کر رہی
ہیں وہ دین اسلام سے واقف نہیں۔
میں تو اپنے دین کی تاریخ میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں کہ جن کی شرم وحیا
کبھی میدان جہاد میں بھی کم نہ ہوئی تھی۔
ہمارے دین میں تو ام المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا جیسی
عظیم خاتون کی مثال ھے کہ جنہیں خود اللّٰہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ
السلام کے ذریعے سلام بھیج رہا ھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی مثال کہ جنہیں حضرت جبرائیل علیہ
السلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذریعے سلام کہہ رہے ہیں۔
ان صحابیہ کی مثال کہ جب وہ اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر میدانِ جہاد
میں پہنچتی ہیں تو کسی نے کہا کہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر بھی پردے میں
آئی ہو تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹا شہید ہوا ھے حیا تو شہید نہیں ہوئی۔
یہاں میں حیا پر چند احادیث مبارکہ پیش کروں گی۔
1) حیا صرف خیر ھے۔
2) حیا اور ایمان کو ایک جگہ رکھا گیا ھے (یعنی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں)
ان میں سے جب ایک کو اٹھایا جاتا ھے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ھے۔
3) جب تو نے شرم کو اٹھا کر رکھ دیا تو اب جو دل چاہے کر۔
عورت کا مقام ومرتبہ ہی تو ھے کہ جب خولہ بنت حکیم رضی اللّٰہ عنہا ظہار
(شوہر کا بیوی کو ماں کہہ دینا) کا معاملہ لے کر حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ
وسلم کے پاس تشریف لاتی ہیں۔ آپ اپنی شکایت کا ذکر حضرت محمد صلی اللّٰہ
علیہ وسلم کے سامنے آہستہ آہستہ بیان فرما رہی تھیں کہ پاس موجود حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بھی نہ سن پائیں مگر اللّٰہ تعالیٰ نے فوراً
جبرائیل علیہ السلام کو حضرت خولہ بنت حکیم کی دلی کیفیت کےپیش نظر یہ آیات
(احکام کی شکل میں ) دے کر بھیج دیا۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں
تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں
کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے واﻻ ہے۔
سورةالمجادلة آیت 01
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے
ہیں) وه دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے
بطن سے وه پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔
بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بخشنے واﻻ ہے.
سورةالمجادلة آیت 02
دعا ھے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی سمجھ دے اور اپنا اصل مقام
ومرتبہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
|