شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - ( قسط نمبر 31) سکول کی زندگی کا بقیہ حصہ ۔

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

جب ہم آپریشن کا وقت لے کر گھر واپس آرہے تھے تو میں نے اپنے اس محلے دار سے کہا اگر کبھی فرصت میسر آئے تو ہم گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ بھی چلیں گے ۔ اس لمحے وہ کار ڈرائیو کررہے تھے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی ہو رہی تھیں ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ گلبرگ ہائی سکول کو کیسے جانتے ہیں ۔ میں نے کہا میں وہاں پڑھتا رہا ہوں۔ اس لیے وہ سکول اب بھی میرے دل میں بستہ ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس سکول میں جاکر ان کلاس روم کو دیکھوں جن میں بیٹھ کر میں کبھی پڑھتا رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا میں بھی وہاں پڑھتا رہا ہوں ۔ میں نے پوچھا آپ کس سال وہاں پڑھتے رہے ۔انہوں نے بتایا کہ میں نے 1970ء میں وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔ میں نے کہا میں بھی 1970 ء ہی میں اس سکول سے فارغ التحصیل ہوا تھا ۔میں نے کہا آپ کا پورا نام کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا مجھے محمد اسلم آرائیں کہتے ہیں ۔ میں نے کہا میرا نام محمد اسلم لودھی ہے ۔ وہ کہنے لگے کہیں آپ پہلے بنک آف پنجاب میں ملازمت تو نہیں کرتے تھے ؟ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ انہوں نے کہا میرا ایک کلاس فیلو بنک آف پنجاب میں ملازمت کرتا تھا کہیں وہ آپ ہی تو نہیں ہیں ۔میں نے کہا آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔یہ سنتے ہی اسلم آرائیں صاحب نے اپنی کار کو سڑک کے کنارے کھڑا کیا اور نیچے اتر کر مجھے اپنے گلے لگالیا اور کہا۔ یار میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ اﷲ نے مجھے عمر کے آخری حصے میں میرا کلاس فیلو ملوا دیا ہے ۔ میں نے کہا۔ جناب بالکل یہی جذبات میرے بھی ہیں ۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں اور ایک ہی مسجد میں نماز بھی پڑھتے ہیں ۔دن میں پانچ بار ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ اس دن کے بعد ہم ایک دوسرے کے بہترین دوست بن گئے ۔ میری بائیں آنکھ کا مفت آپریشن بھی انہوں نے کروا دیا اور زندگی کے ہر قدم پر وہ میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ۔ان کی شکل میں مجھے ایک بااعتماد دوست کا مل چکا تھا ۔جس سے میں اپنے دل کی بات کرسکتا ہوں ۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے بھی مجھے کبھی فراموش نہیں کیا ہر خوشی کے موقع پر وہ میرے ہم رکاب رہے ۔ بلکہ مجھے کہیں جانا پڑتا تو وہ فوری طور پر اپنی کار لے آتے اور دوران سفر ہم گپ شپ کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچ کر واپس گھر بھی آجاتے ۔مسجد اﷲ کی رحمت کے فرشتہ صفت امام قاری محمد اقبال صاحب اور لیسکو اتھارٹی کے ہیڈ ڈرافٹس مین(ر) محمد نذیرصاحب بھی ہمارے مشترکہ دوستوں میں شامل ہوگئے ۔ ہم نماز فجر کے بعد اکٹھے کبھی محمدی نہاری کھانے مزنگ پہنچ جاتے تو کبھی مدینہ ریسٹورنٹ ڈیفنس چوک سے مزیدار دھی کی لسی پینے کا پروگرام بنالیتے ۔مجھے اس آبادی میں آئے ہوئے 9سال ہو چلے ہیں ۔اسلم آرائیں جو مضبوط قوت ارادی کے مالک بہادر انسان ہیں ۔ایک دن اچانک انہیں فالج کے مرض نے آ گھیرا ۔ ان کی بیٹی اور دونوں بیٹے ،اپنے والد کوموذی بیماری سے بچانے کے لیے اس قدر مستعد اور متحرک ہو گئے کہ اﷲ تعالی نے ان کے والد کو 80فیصد صحت بھی کردیا ہے ،گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں بیٹوں اور بیٹی کی محنت اور توجہ رائیگاں نہیں گئی ۔جبکہ وفا شعار بیوی کا گرانقدر تعاون انہیں ہر لمحے حاصل تھا ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد وہ ایک بار پھرنماز کی ادائیگی کی ادائیگی کے لیے ہر صبح مسجد آیا کرینگے اور ایک بار پھر ہمارے دوستوں کی کمپنی میں شامل ہوجائیں گے۔ان شا ء اﷲ ۔
.................
نویں کلاس میں ایک اور قابل ذکر واقعہ پیش آیا۔ ہیڈماسٹر خان لطیف خان اکثر سائیکل پر ہی سکول آیا کرتے تھے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہوتی کہ جیسے ہی وہ سائیکل سے اتریں تو ہم احتراماً ان کا سائیکل پکڑ لیں اور مخصوص جگہ پر جا کر کھڑی کر کے چابی ان کے سپرد کر دیں۔ ہر صبح سکول کے کئی لڑکے ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تاکہ ہیڈماسٹر صاحب کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کی جا سکے اور اس بہانے ان سے ذاتی جان پہچان بھی ہو جائیگی۔ ہماری جماعت میں مانیٹر طلعت کا چھوٹا بھائی رفعت بھی پڑھتا تھا، جو اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے خاصا خود سر اور مغرور بھی تھا۔ وہ اپنے بھائی کی مانیٹری کی وجہ سے بڑی بڑی شرارتیں کر جاتا۔ ان کے والد بھاری بھرکم جسامت کے مالک ٹھیکیدار تھے ان کا شمار امیر لوگوں میں ہوتا تھا۔ ایک دن رفعت کو شرارت سوجھی۔ اس نے ہیڈماسٹر خان عبداللطیف خاں کی سائیکل کے ایک پہیے سے ہوا نکال دی اور خاموشی سے آ کر کلاس روم میں بیٹھ گیا۔ چھٹی کے بعد جب ہیڈماسٹر گھر واپس جانے لگے تو سائیکل کے پہیے میں ہوا نہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ پنکچر لگوانے کے لئے مستری کے پاس گئے تو اس نے چیک کرکے بتایا کہ ہر چیز ٹھیک ٹھاک ہے ،کسی لڑکے نے شرارت سے ہوا نکال دی ہے۔ یہ سنتے ہی ہیڈماسٹر صاحب کا شک نویں بی کے لڑکوں پر گیا کیونکہ سکول میں جتنی شرارتیں ہواکرتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر اسی کلاس کے لڑکے شامل ہوا کرتے تھے۔ نویں بی کے لڑکے پڑھنے سے زیادہ جسمانی اور ذہنی شرارتوں میں مصروف رہنا پسند کرتے (اسی لئے جب میٹرک کا نتیجہ آیا تو پوری کلاس میں سے صرف دو لڑکے ہی پاس ہوئے ۔باقی سب فیل ہوگئے)۔ اگلی صبح ہیڈماسٹر صاحب اپنے کمرے میں جانے کی بجائے سیدھے ہماری کلاس میں آئے اور ساری کلاس کے لڑکوں کو بینچوں پر کھڑا کر کے پوچھا ۔ سچ سچ بتاؤ میری سائیکل کے پہیے سے ہوا کس نے نکالی تھی؟ اب کس میں جرأت تھی کہ وہ اقرار کرے‘ ساری کلاس سر جھکائے خاموش کھڑی تھی ۔جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب کسی جانب سے ہاں یا ناں کی آواز نہ آئی تو ہیڈماسٹر خان لطیف خان صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ غصے سے دھاڑے کہ مجھے خود ہی وہ لڑکا بتا دے، ورنہ میں ساری کلاس کو سزا دوں گا۔ یہ سن کر ہماری جان پر بھی بن گئی کہ ہم تو یہ کام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور سزا ہمیں بھی ملے گی۔ مجھے طلعت کے چھوٹے بھائی پر پہلے ہی شک تھا کیونکہ کل سے اس کی سرگرمیاں بدلی بدلی سی لگ رہی تھیں۔ تشویش اس کے چہرے پر عیاں ہو رہی تھی لیکن میں اس کا نام اس لئے نہیں لینا چاہتا تھا کہ اس طرح خواہ مخواہ مانیٹر سے دشمنی پڑ جائے گی۔ کلاس میں رہنے کے لئے مانیٹر کی دشمنی سے بچنا ہی پڑتا ہے۔ جیسے بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر دریا میں رہنا تو مگرمچھ سے دشمنی نہیں لینی چاہیے۔ مانیٹر کلاس کا مگرمچھ ہی تو ہوتا ہے کیونکہ اساتذہ کرام اسی کی بات کو حتمی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بہت سوچ سمجھ کر میں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ کلاس کے دوسرے لڑکوں کا بھی یہی عالم تھا ۔ کوئی بھی مانیٹر کے ڈر سے زبان کھولنے پر تیار نہ تھا جبکہ ہیڈماسٹر صاحب کو کسی مخبر نے خفیہ طور پر خبر کر دی تھی کہ سائیکل کے پہییے سے ہوا مانیٹر کے چھوٹے بھائی رفعت نے نکالی ہے۔ سب کو خاموش دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے رفعت کو کلاس سے باہر نکال دیا اور کہا کہ کل اپنے والد کو لے کر آؤ ورنہ تم کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اپنی چوری پکڑے جانے کی بناء پر وہ سخت شرمندہ تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح بات یہیں پر ختم ہو جائے لیکن ہیڈماسٹر صاحب نے (جو ہمیشہ تحمل مزاج اور بہت نرم دل واقع ہوئے تھے) یکسر مختلف نظر آ رہے تھے اور ہر صورت ذمہ دار کو سزا دینا چاہتے تھے۔

دوسرے دن رفعت اپنے اصلی باپ کو لانے کی بجائے گاندھی پارک سے ایک ایسے شخص کو اپنا باپ بنا کر لے آیا جو وہاں گنڈیریوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ رفعت کی بدقسمتی کہ ہیڈماسٹر صاحب نے چند روز پہلے اسی شخص سے گنڈیریاں خرید کر کھائی تھیں اور وہ اسے بخوبی پہچانتے بھی تھے۔ جب رفعت گنڈیریوں والے کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا تو ہیڈماسٹر صاحب کو بیٹھا دیکھ کر گنڈیریاں والے کے حواس اڑ گئے لیکن اب اس کی واپسی کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ رفعت نے بڑے ادب سے ہیڈماسٹر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا سر یہ میرے والد صاحب ہیں۔ سر سے پاؤں تک دیکھ کر ہیڈماسٹر صاحب نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تم گاندھی پارک میں گنڈیریاں فروخت نہیں کرتے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو پھر تم رفعت کے باپ کب سے بن گئے؟ رفعت کا باپ تو ٹھیکدار ہے ۔ اپنی چوری پکڑے جانے کے خوف سے وہ تھرتھر کانپنے اور معافی مانگنے لگا۔ پھر رفعت کو مخاطب کرتے ہوئے ہیڈماسٹر صاحب نے فرمایا۔ کتنے پیسے دے کر اسے باپ بنایا ہے ،وہ نظریں جھکائے خاموش کھڑا رہا۔ اس پر ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ میری نظروں سے دور ہو جاؤ ورنہ میں تم دونوں کو جعلسازی کے الزام میں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔ یہ سن کر گنڈیروں والا تو رفو چکر ہو گیا لیکن رفعت کی شامت آ گئی۔ کافی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اسے کلاس سے یہ کہہ کر ایک بار پھر نکال دیا گیا کہ کل اپنے اصلی باپ کو سکول لے کر آئے، ورنہ خود کو سکول سے خارج سمجھے۔ دوسری صبح وہ اپنے حقیقی باپ کو سکول لے آیا جو ٹھیکیدار تھا اور کافی بھاری بھرکم بھی تھا ۔ ہیڈماسٹر صاحب نے رفعت کی نازیبا اور گستاخانہ حرکت پر والد سے شکایت کی۔ رفعت کے والد نے ہیڈماسٹر صاحب سے معذرت کی اور آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی بھی کروائی، تب کہیں جا کر معاملہ رفع دفع ہوا۔

نویں جماعت کا امتحان قریب آیا تو میرے دائیں پاؤں کی ایڑی میں شدید درد ہونے لگا۔ بظاہر تو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن ایڑی کے اندر ہی اندر لاوہ پک رہا تھا جو مجھے چلنے پھرنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ پڑھنا لکھنا بھی مشکل ہو چکا تھا‘ بغیر پڑھے ہی میں نے تمام پرچے دے ڈالے۔ بڑے بھائی رمضان لودھی ہر صبح مجھے سائیکل پرسکول چھوڑ جاتے اور پرچہ ختم ہونے کے بعد مجھے لینے بھی آ جاتے۔ اس طرح سارے امتحان کے دوران بھائی رمضان لودھی نے میری بہت مدد کی اور بھائی ہونے کا حق بھی ادا کردیا لیکن مناسب تیاری نہ ہونے کی وجہ سے پاس ہونے کی بجائے فیل ہونے کے امکانات زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران میں اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اپنی کامیابی کی دعائیں مانگتا رہا کہ اﷲ ہی میری ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتا ہے کیونکہ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اسے حسن اتفاق ہی کہئے کہ نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی مجھے خواب میں نئی کتابیں نظر آنے لگتی تھیں، اسے میں اپنی کامیابی کی دلیل سمجھ لیا کرتا تھا اور خدا کے فضل و کرم سے کچی سے نویں تک مسلسل پاس ہوتا آیا تھا اور کسی بھی سال مجھے ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

نتیجے کا دن آیا تو میں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح علی الصبح بیدار ہو کر فورٹریس سٹیڈیم کے بالمقابل ایوب گارڈن جا پہنچا، وہاں مجھ سے پہلے کئی لڑکے پھولوں کو ان کی ٹہنیوں سے الگ کر چکے تھے۔ بہرکیف میرے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ پھول آ ہی گئے، جن کا گلدستہ تیار کر کے میں بھی خوشی خوشی سکول روانہ ہو گیا۔ راستے میں کئی اساتذہ سے آمنا سامنا ہوا۔ بڑے ادب و احترام سے انہیں سلام کر کے اس امید پر سکول جا پہنچا کہ میں بھی آج کامیاب اور سرخرو ہوکر لوٹوں گا۔ سکول پہنچے تو ہر جانب رنگ برنگے خوبصورت کپڑے پہنے لڑکے خوشی خوشی دوڑ بھاگ رہے تھے اور ان خوشگوار لمحات کی آمد کا شدت سے منتظر تھے۔ جب نتیجہ سنایا جانا تھا۔ تقریباً دس بجے سبھی لڑکے اپنے اپنے کلاس روم میں پہنچ گئے ۔ابھی کلاس ٹیچر نہیں آئے تھے۔ دوستوں میں خوب گپیں چل رہی تھیں۔ اتنے میں کلاس کے انچارج ٹیچر بڑا سا رجسٹر ہاتھ میں لیے آ گئے۔

پہلے انہوں نے فیل ہونے والے لڑکوں کے نام پکارے جن میں میرا نام شامل نہیں تھا ،جس پر میں نے شکر ادا کیا ۔ پھر آواز آئی کہ باقی سب لڑکے پاس ہیں ۔تب میری جان میں جان آئی۔ نتیجے کا اعلان ہوتے ہی پاس ہونے والے لڑکے اتنے بے قابو ہو گئے کہ پھولوں کے گلدستے دور ہی سے استاد پر نچھاور کرنے لگے جن سے بچنے کے لئے استاد کو بڑا سا رجسٹر اپنے بچاؤ کے لئے سامنے رکھنا پڑا جبکہ فیل ہونے والے لڑکے غم سے نڈھال نظر آ رہے تھے۔ آج شرمندگی ان کا مقدر بن چکی تھی۔ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ اڑ کے اپنے گھر پہنچ جاؤں اور والدین کو پاس ہونے کی خوشخبری سناؤں کیونکہ اس مرتبہ میرے والدین بھی میری کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں تھے۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.