پاکستان ایک اسلامی رفاحی ملک ہے۔ جس کی بنیاد ہی کلمہ
طیبہ پر رکھی گئی تھی۔۔افسوس 75 سال گزر گئے مگر ابھی تک اسلام نافز العمل
نہ ہوسکا۔ بنیادی حقوق کا حصول ممکن نہیں ہوسکا۔ شکر الحمد ﷲ نماز، روزے،
عمرے، حج سمیت صدقہ خیرات زکوٰۃ سب کچھ پاکستانی باشعور عوام دل جمعی سے
ادا کرتے ہیں ۔ لیکن خوراک ، ادویات پھل فروٹ سبزی دودھ سمیت ہر چیز میں
ملاوٹ دھوکہ لوٹ کھسوٹ شامل ہیں۔ ہماری بدنصیبی بھی ہماری طرح بے بس ہیں ۔
بحثیت پاکستانی ہماری بے بسی ہماری مجبوری ایسی ہے جس کا شاید دیگر ممالک
میں رہنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم ملک دیا اور دینا کی ہر نعمت ہر موسم سے نوازا
مگر ہمارے لالچی حکمرانوں نے اس کے بھی دو ٹکڑے کروا دیئے پھر بھی عبرت یا
سبق حاصل نہیں کیا۔
مسلمان ممالک تو پھر مسلمان ملک ہیں غیر مسلم ملکوں نے بھی اپنے مسلم
شہریوں کو اﷲ کے گھر عمرہ و حج کے لئے خصوصی پروگرام بنا کر دیئے تاکہ غیر
مسلم ممالک کے شہری بھی عمرہ و حج آسانی سے سستا ادا کر سکیں مگر پاکستان
پاکستان میں متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد اگر
روزگار کی تلاش کے علاوہ بیرونِ ملک سفر کرتی ہے تو اکثر اس کا مقصد حج اور
عمرہ جیسے مذہبی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے۔
یہ لوگ پائی پائی جوڑ کر برسوں اس سفر کے لیے رقم جمع کرتے ہیں لیکن ملکی
کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے ہر برس اس میں اضافہ ہوتا جا
رہا ہے۔
پاکستان میں حج کے اخراجات اب اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ غربا تو ایک طرف یہ
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی پہنچ سے بھی باہر جا چکے ہیں۔
سنہ 2020 میں پاکستان سے حج کے فریضے کی ادائیگی کے لیے جانے والے افراد سے
حکومت نے پانچ لاکھ روپے فی کس کے لگ بھگ رقم لی تھی جو 2022 میں سات لاکھ
دس ہزار روپیتک جا پہنچی اور رواں برس اس مد میں 12 لاکھ روپے کے قریب وصول
کیے جا رہے تھے
اسلامی جموریہ پاکستان میں جو حکمران طبقہ ہے ماضی و حال میں خاص طور پر
1950-51 کے بعد ان کی ملک پاکستان سے محبت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہے؟
کہ پاکستان مقروض جبکہ حکمران طبقہ کھرب پتی بن گیا ( ان فوجی و سول
حکمرانوں سے معذرت جو پاکستانی قوم کی خدمت عبادت سمجھ کرتے رہے ہیں )
ایک بات جو اسلام نے ہمیں سمجھائی بتائی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حقوق معاف کر
دے بھی تو حقوق العباد نہیں کیونکہ وہ انسان کے دوسرے انسانوں پر ہیں۔
جس دن ہمارے سیاستدانوں ، جرنیلوں، ججوں بیوروکریٹس سمیت تمام سیاہ و سفید
کے مالک حکمرانوں کو یہ بات سمجھ آگئی اس دن حج کا سرکاری کوٹہ ختم کر دیا
جائے گا۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ عبادات کا مطلب ’’ اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم
غفور و رحیم ؐ کی خوشنودی ہے ‘‘ جو جو لوگ بھی سرکاری خرچہ پر عمرہ و حج کی
سعادت حاصل کرتے ہیں ان کو ملک پاکستان میں سسکتے تڑپنتے بھوکے پیاسے
خودکشیاں و جسم فروشیاں کرتی عوام کیوں یاد نہیں ؟ اﷲ معاف کرے اگر عوام
درد بھوک افلاس سے مر رہی ہو اور حکمران طبقہ عمرہ و حج ادا کر رہا ہو تو
یہ عبادت نہیں سیر سپارٹہ ہے۔ ابھی ایک سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہے جس
میں حاجی صاحبان حج کی سعادت کے بعد وطن عزیز پہنچ رہے ہیں ،ویڈیو میں
دیکھا جا سکتا ہے کہ حاجی صاحبان کے سامان کی تلاشی اسیے لی جا رہی ہے جیسے
بہت بڑے سمگلنگ کے بیگوں کو توڑا جا رہا اور ان میں ’’ آبِ زم زم ‘‘ ایسے
تلاش کیا جا رہا ہے جیسے بہت بڑے سمگلنگ ہو اور ممنوعہ یا نشہ آور اشیاء
برآمد ہو رہی ہو۔افسوس حجاج اکرام کا ادب و احترام بھی مدِنظر نہیں رکھا جا
رہا۔ جو حجاج اکرام سے برآمد کیا جا رہا ہے وہ ’’ آبِ زم زم ‘‘ جو انہوں
اپنے پینے والی بوتلوں میں حرمین شریفین سے لایا ہوگا تاکہ جو جو ملنے آئے
جو جو بیمار ہو اس کو جنتی پانی کا تحفہ دیا جائے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
ہر حاجی کو 5 لیٹرز آبِ زم زم کی بوتل ائیر پورٹ پر ملتی ہے تو پھر حجاج
کرام اپنے سامان میں زم زم چھپا کر کیوں لاتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ اگر
ایک حاجی صاحب کو 20-30 کلو گرام کی اجازت ہے حجاج صاحبان ن نے خریداری کی
بجائے آب زم زم لانے کی کوشش کی ہے تو یہ قابل فخر اور قابل رشک ہے مگر
افسوس وہ نہیں جانتے کہ ان کا تعلق کس ملک سے۔
دنیا میں اقوام کی شناخت انکے حکمرانوں سے ہوتیں ہیں
یااﷲ پاکستان کو غیرمند حکمران نصیب فرما آمین |