ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔
یعنی یہی نظام حیات ہے۔ زندگی کے سارے شعبے بشمول عقائد، عبادت ،معاشرت ،
معیشت اور سیاست اس کے تابع ہیں ۔ حکومت پرسنل لاء کو قائم رکھے یا اسے ختم
کرکے یونیفارم سیول کوڈ لائے ہم اپنے دین پر عمل کریں گے اور ایسا کرنے سے
دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی۔ اس معاملے میں مسئلہ کب ہوگا ؟ اس
سوال کا جواب آیت اگلے حصے میں ہے ۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ اس دین سے ہٹ کر
جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے
اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد
آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا ‘‘۔یعنی اگر ہم نے اس
کتاب حق کی رہنمائی کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے پر زیادتی کرنا شروع کردی
یا اپنے حق سے زیادہ طلب کرنے کی ہوس میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو
یونیفارم سیول کوڈ کے مطابق ہم پر غیر اسلامی فیصلے تھوپ دئیے جائیں گے۔اس
سرکاری ظلم و زیادتی کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی پہل اگرخود ہماری جانب سے
نہ ہو تو کوئی اس کا فائدہ اٹھاکر ہمیں اپنے دین سے برگشتہ کرنے میں کامیاب
نہیں ہو سکےگا۔ ہم اگر اسلام کے دائرے رہ کر زندگی گزاریں اور انصاف کو
پامال کرنے والی عدالتوں کا رخ ہی نہیں کیا تو وہ ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکیں
گی ۔
اس بات کو وراثت کی مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم از خود اس کو قرآن حکیم کے
مطابق تقسیم کردیں ۔ کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے اور جس کو دین کے مطابق جو
مل جائے وہ اس سے زیادہ کی حرص نہ کرے تو مسئلہ گھر سے باہر نہیں جائے گا۔
مشکل اس وقت پیش آئے گی کہ جب کسی کا حق مارا جائے یا کوئی اپنے حق سے کہ
جو اللہ نے مقرر کیا ہے زیادہ کا طلبگار ہو۔ ایسے میں پرسنل لاء کی موجودگی
میں عدالت سے انصاف مل جاتا تھا لیکن اب نہیں ملے گا اس لیے عائلی معاملات
میں اسلام کے خلاف فیصلے کر نے والی عدالت سے گزیرکرنا لازمی ہوجائے گا ۔
مسلمانوں نےاگر یہ نہیں کیا بلکہ زیادہ کی طلب میں غیر اسلامی عدالت سے
رجوع کرتے رہے تو انہیں اس آیت کا آخری حصہ پیش نظر رکھنا چاہیے :’’ جو
کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب
لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے‘‘۔ جہاں تک تعددِ ازدواج کا سوال ہے اس کے لیے
موجودہ نظام نے پہلے ہی گنجائش بنا رکھی ہے۔ وہ دوسری اور تیسری عورت کے
ساتھ رہنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر ان کو بیوی کے درجہ اور دیگر حقوق سے
محروم کردیتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اپنے ساتھ رہنے والی خاتون سے نکاح
کرکے اسے بیوی کا احترام دے نیز دیگر حقوق سے بھی فیضیاب کرے تو اسے کون
روکے گا؟ عدلیہ میں حق سے زیادہ دینے پر پابندی نہیں ہے۔ انتظامیہ تو اپنے
سامنے ہونے والے قتل پر شکایت کے آنے سے قبل کارروائی نہیں کرتا۔
اسلام کا یہ نظامِ رحمت ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا جو مسلمانوں کی
مخالفت میں اندھے ہوگئے ہیں یا اس پراپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتے ہیں۔
میڈیا کے بہکاوے میں آکر اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہو جانے والوں
کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں لیکن انہیں اپنے قول و عمل سے اسلام کی حقانیت
کا قائل کیا جاسکتا ہے اوریہ ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے۔ اس صورتحال میں
جولوگ منہ کو آئیں ان سے متعلق رویہ کی رہنمائی کے لیے نبیٔ کریم ﷺ کے
ذریعہ اگلی ہی آیت میں یہ اعلان کروا دیا گیا کہ :’’اب اگر یہ لوگ تم سے
جھگڑا کریں، توا ن سے کہو: "میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اللہ کے آگے سر
تسلیم خم کر دیا ہے"۔ یعنی مخالفین اسلام سر پٹخ لیں تب بھی ہمیں اپنے دین
کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کے دباو میں آئے بغیر دین پر عمل پیراہوں گے نیز
انہیں اس طرح اسلام کی دعوت بھی دیں گے جیسا کہ فرمانِ قرآنی ہے:’’ پھر
اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں سے پوچھو: "کیا تم نے بھی اس کی اطاعت و
بندگی قبول کی؟" اگر کی تو وہ راہ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو
تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی آگے اللہ خود اپنے بندوں کے
معاملات دیکھنے والا ہے‘‘ ۔
قرآن حکیم میں اہل اسلام کو نہ صرف دعوت دین کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اس کا
طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’اے نبیؐ! کہو کہ "ہم اللہ کو
مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات
کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ
پر نازل ہوئی تھیں اور اُن ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰؑ اور
عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں ہم ان کے درمیان
فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں" ۔ برادران وطن کے
درمیان مسلمانوں کا یہ تعارف اسلام کی دعوت کا جزولاینفک ہے کہ یہ سارے
جہان کے خالق و مالک کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والی امت ہے۔ یہ کسی حال
میں اس سے دستبردار نہیں ہوگی کیونکہ فرمان ربانی ہے :’’اس فرماں برداری
(اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ
ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا ‘‘۔ بلا
کم و کاست اس دعوت کو پہنچا دینے کے بعد پھر دین کے معاملے میں کوئی زور
زبردستی نہیں ہے۔ جس کی مرضی ہو وہ اپنے آپ کوابدی کامیاب و کامران کا
مستحق بنائے یا جو چاہے ناکامی و نامرادی گہری کھائی میں اتر جائے ۔ ارشادِ
حق ہے:’’تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ‘‘۔
|