اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ
پھیر لیتا ہے اور کنارہ کش ہو جاتا ہے اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی
لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے“۔مال و اسباب‘ قدرتی وسائل کی
فروانی کے باوجود ہم مضطرب و بے چین ہیں۔ معاشرہ انگار بنتا جارہا۔ہر طرف
نفسانفسی ہے۔ ہر رشتہ‘ تعلق مطلب پرستی کی بھینٹ چڑھ چکا۔ وہ الفت‘
راوداری‘ شفقت‘ مان‘ ایثار‘ ہمدردی‘ اخلاص‘ اَدب واحترام‘ غم خواری‘ اپنی
تہذیب‘ ثفا فت ناپید ہوتے جارہے۔ انسان ہی انسان کے خون کا پیاسا
ہوچکا۔زمین کے ٹکڑے کی خاطر خونی رشتہ داروں کو موت کی وادی میں دھکیلا
جارہا۔ ہر آتا دِن ہماری مشکلات میں اضافہ لارہا۔ کوئی تعلق بنا مطلب‘
خودغرضی کے ہمارے پاس نہیں۔ دستورِ دُنیا‘ ساتھ وہاں تک‘ مطلب جہاں تک کی
ہم عملی تصویر ہیں۔ہم بے حس ہو چکے۔ہمارے اِدھر گرد کتنے ہی بے بس‘ بے
سہارا افراد ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔ہماری تھوڑی سی توجہ ان کا مستقبل
تابناک بنا سکتی ہے۔ مگر‘ ہمیں اُن سے بدلے کی کوئی امید نہیں‘ اِسی لئے
ہمیں ان سے واسطہ تک نہیں۔ ہماری فطرت ِ ثانی بن چکی کہ نیکی کر سوشل
میڈیاپر ڈال۔یہ کسی بڑی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہو سکتا۔
چیخوف روس کا ایک مصنف تھا جو 1904 میں فوت ہو گیا۔اُس نے روس کے سرخ
انقلاب سے پہلے وہاں کے حالت پر بے شمار کہانیاں لکھیں جو ہمیں بتاتی ہیں
کے روسی معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا تھا‘جس کی وجہ سے وہاں انقلاب آنا
پڑا۔چیخوف کی ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک تانگہ والا تھا‘غریب اور
مجبور‘اُس کا دس بارہ سال کا بچہ بہت بیمار تھا‘وہ اس کا علاج نہ کروا سکتا
تھا۔گھر پر ہی اس کی تیمارداری کر رہا تھا۔رات کو بچہ فوت ہو گیا اور وہ اس
کے سرہانے ہی روتا رہا۔صبح ہوئی تو تانگہ جوتا کہ باقی بچوں کا پیٹ تو
پالنا تھا۔ایک سواری ملی‘راستے میں اس نے سواری کو بتایا کے رات اُس کا بچہ
مر گیا۔سواری نے کہا بہت افسوس ہوا اور خاموش ہو گئی۔اُسے اتارا‘ پھر دوسری
سواری مل گئی‘یہ کچھ خواتین تھیں‘اُس نے انہیں بھی بتایا کہ رات اس کا بچہ
بغیر علاج کے مر گیا‘اُنہوں نے بھی کہا بہت افسوس ہوا مگراللہ تعالیٰ کی
مرضی ہے کوئی کیا کر سکتا ہے اور اپنی باتوں میں لگ گئیں۔پھر دو چار اور
سواریاں بھی ملیں اور ایسے ہی ہوتا رہا۔شام کو گھر پہنچا تو ٹوٹ چکا
تھا۔گھوڑی کو تانگے سے کھولتے ہوئے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا‘گھوڑی
کے ماتھے پر اپنا ماتھا ٹکا کر رو پڑا اور کہنے لگا:تُوتو ماں ہے‘ تو تو
میرا دُکھ سمجھ سکتی ہے۔میرا بچہ مر گیا ہے۔اور اس کے ساتھ گھوڑی بھی رو
پڑی۔
ہر روز ہمارے گردونواع کئی طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔کئی لوگوں کے
ساتھ خود غرضی کے معاملات ہوتے ہیں اور یہ سب ہونا کوئی خاص بات نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ خود غرض اور مفاد پرست اور بے حس ہو گئے ہیں۔
احساس مر چکے ہیں اور یہ ساری باتیں صرف سڑکوں‘بازاروں‘ اسپتالوں‘ دفاتروں
میں ہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں‘اسکولوں‘ کالجوں اور ہر فیلڈ تک پہنچ گئی
ہے۔ہر جگہ خود غرضی اور مفاد پرستی نے اپنا ڈیڑہ جما لیا ہے۔ہوس کی مانگ
ہے‘ مطلب کی دوستی ہے مگر۔۔۔کسی نفس کو کسی شہ سے کوئی پیار تو نہیں
ہے۔پہلے اسکولوں میں کالجوں میں معاشرے کو سنوارنے کا سبق دِیا جاتا تھا پر
جیسے جیسے خود غرض ومفاد پرست لوگوں نے حالات کو اپنے قابو میں رکھنے کی
کوشش شروع کی اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ دکھاؤے کی آندھی میں ایسی
سوچ کو پروان چڑھایا۔کئی لوگ تو خود غرضی کی آگ روزانہ جلتے ہیں۔ بے حسی
اور خود غرضی نے ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جس سے کئی
گھر اور لوگ بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کئی خود غرض لوگ اپنے مفاد کے لئے
اتنے گر جاتے ہیں کہ وقت پڑنے پر گدھے کو بھی سرخ سلام کر لیتے ہیں! اور
مطلب پورا ہونے پر انجان بن جاتے ہیں۔اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی میں
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے میں اپنے
رات دِن ایک کر دیتے ہیں۔ خود غرضی کی اس وباء نے لوگوں کوایسے جھکڑ لیا ہے
جس سے جان چھڑانا بہت حد تک مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آرہا ہے۔ایسے لوگ
اپنے مطلب کے وقت آپ سے نہایت میٹھے لہجے میں بات کریں گے مطلب نکل جانے کے
بعد نہ صرف آپ کو بری طرح نظر انداز کردیں گے بلکہ آپ کو نقصان پہنچانے سے
بھی گریز نہیں کریں گے۔اور کس حد تک گر جائیں گے۔خود غرض اور مفاد پرست
انسان سانپ کی طرح ہوتے ہیں۔آپ چاہیں ان کے ساتھ جس قدر بھی نیکی کرو وہ
ایزا پہنچانے سے باز نہیں آئیں گے۔
انا‘غرور‘خود پسندی‘ خود غرضی، جھوٹ روحانیت کے لئے تیزی سے ہلاک کرنے والے
زہر ہیں اورمعاشرتی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔خودغرضی اور
ذاتی مفادات نے کبھی ہمیں ایک قوم بننے ہی نہیں دیا۔ضرورت پڑنے پر خون کے
رشتے بھی نظریں چرانے لگتے ہیں۔جیسے کسی نے کیا خوب کہا:
بات چلی تو نیل گگن سے تارے توڑے لوگوں نے
وقت پڑا تو جان چھڑا لی جان سے پیارے لوگوں نے
ہم آج اس نہج تک آن پہنچے ہیں کہ ہمیں صرف اپنی ہی فکر ہوتی ہے اوروں کی
زندگی برباد کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے اور سوچیں بھی کیوں؟اپنے مفاد کے
لئے کسی کو بھلا برا کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہمیں اپنے مفاد‘ خود غرضٰ‘
مردہ دلی سے باہر آکر معاشرے کے لئے سوچنا ہوگا۔ کامیابی طشتری میں رکھ کر
نہیں ملا کرتی‘ آپ معاشرے کو پھول بنانے کی کوشش کریں‘ اپنے حصے کی شمع
روشن کریں‘ خود غرض‘ مطلب پرست لوگ بظاہر خود کو بہت تیز‘ روشن خیال اور
ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ مگر‘ دراصل وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے
مطلب پرست کسی کے مخلص نہیں ہوتے۔ انہیں معاشرہ تو درکنار۔اپنے والدین‘ بہن
بھائیوں تک سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ مفاد ہرستی‘ خود غرضی کی آگ میں جلنا
ان کا مقدر ہوتا ہے۔خود غرضی‘ بے حسی معاشرہ کا ناسور ہیں۔ اِن کا سدباب
ہماری ذمہ داری ہے۔ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ مسلم معاشرہ
دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوتا ہے۔ہمارا معاشرہ پھول کی مانند ہو‘ جس سے سب
مستفید ہوسکیں۔ ہماری خود غرضی‘ مفاد پرستی‘ بے حسی نے جہنم سے زیادہ تکلیف
دہ بستیاں بنا دی ہیں۔ جس میں رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ ہرزندہ
دِل انسان ٹوٹ رہا۔ |