فرانس ہنگاموں کی زد میں

تین دریاؤں یونی، مارن اور اوسی کے سنگم سے جنم لینے والا دریا، دریائے سین جو 777 کلومیٹر لمبا ہے، اس موڑ پر بہت خوبصورت نظر آتا تھا۔گال نسل کے لوگ جب یہاں سے گزرے تو انہیں یہ جگہ اچھی لگی ۔چنانچہ وہیں دریا کے کنارے انہوں نے ایک نئی بستی بسائی اور آباد ہو گئے۔ یہ 259 قبل مسیح کی بات ہے۔ ویسے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق وہاں ملنے والی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں لوگ آٹھ سو قبل مسیح میں بھی آباد تھے۔ 52 قبل مسیح میں رومن جرنیل جولیس سیزر کے فوجی یہاں سے گزرے اور انہوں نے مچھیروں کے اس قبیلے کو شکست دے کر اس علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، دریا کے شمال میں ایک رومن بستی بھی آباد کی اور اسے لوٹیٹیا(Lutatia)کا نام دیا گیا۔گال نسل کے جو مچھیرے وہاں آباد تھے ان کے قبیلے کا نام پیرسی تھا۔اس حوالے سے اسے پیرسیوں کا لوٹیٹیا بھی کہا جاتا تھا۔رومیوں نے یہاں قبضے کے بعد یہاں معبد، تھیٹر اور پبلک کی فلاح کی بہت سی چیزیں تعمیر کیں اور اس علاقے کو روم کا صوبہ قرار دے کرلوٹیٹیا کو اس کا کیپیٹل قرار دیا۔

رومن سلطنت کے خاتمے پر اس شہر کا نام پیرس قرار دے دیا گیا اور شہنشاہ کلووس(King Clovis) کی قیادت میں ایک جرمن قبیلے فرینکس نے 508 میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور پیرس کو اپنا کیپیٹل قرار دیا۔شہر کی بے پناہ دولت کو دیکھتے ہوئے ،845 میں سکینڈے نیوین ممالک کے باشندوں، جو وکنگ (Vickings) کہلاتے تھے، نے شہر پر یلغار کی اور لوٹ کر چلے گئے۔ 856 اور 861 میں وہ دو بار پھر آئے مگر ان دونوں دفعہ پیرس کے لوگ بیدار تھے اور انہوں نے انہیں شکست سے دو چار کرکے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔12 ویں صدی میں پیرس یورپ کا ایک اہم تریں شہر اور سیاسی سماجی علمی معاشی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔اس دور میں شہر میں بہت سی تعمیرات ہوئیں۔1163 میں مشہور نوٹرے ڈیم کی تعمیر ہوئی۔1190 میں لوورے (Louvre) کے قلعے کی تعمیر ہوئی ، جہاں آج دنیا کا بہت بڑا عجائب خانہ ہے اور جہاں آپ کو مونا لیزا جیسے سینکڑوں شاہکار دیکھنے کو ملتے ہیں۔1190 ہی میں یونیورسٹی آف پیرس وجود میں آئی۔ 1370 میں پیرس میں سیوریج سسٹم شروع کیا گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ بہتر کیا جاتا رہا اور کمال ہے کہ یہ سسٹم آج بھی اسی طرح فعال ہے چودھویں صدی ہی میں 36 قسم کی پلیگ کی بیماری شہر میں پھیلی اور شہر کی چوتھائی آبادی کو موت سے ہمکنار کر گئی۔

1420 سے لے کر 1436 تک انگریزوں نے فرانس پر قبضہ کر لیا اور شاہ ہنری VI برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس کا بھی کنگ رہا۔اس واقعہ کے بعد فرانس کے بادشاہ سو سال تک پیرس سے دور رہے مگر پھر 1528 میں کنگ فرانسس اول دوبارہ پیرس لوٹ آیا۔ یہ پہلا بادشاہ تھا جو لووارے محل میں رہا۔اس نے ہوٹل ڈی ویلی اور پیرس سٹی ہال کی تعمیر کرائی اس کے دور میں پیرس کی آبادی ڈھائی لاکھ تھی۔اسی کے عہد میں پیرس میں پرنٹنگ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوا۔16 ویں صدی پیرس میں مذہبی کشیدگی کا دور تھا جب کیتھولک لوگوں نے پروٹسٹنٹ لوگوں کا قتل عام کیا۔اس کشیدگی کے باوجود پیرس اس وقت یورپ میں کتابوں کی چھپائی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔18 ویں صدی میں پیرس پڑھے لکھے اور شعور رکھنے والے لوگوں کا مرکز تھا اور اسی وجہ سے 1789 میں وہاں ایک انقلاب آیا جسے انقلاب فرانس کہتے ہیں اور اس انقلاب کے نتیجے میں دینا بھر میں ایک نئی تبدیلی محسوس کی گئی۔19 ویں صدی میں نپولین کی فتوحات نے پیرس کی شان بڑھائی۔1852 سے 1870 تک شہر کو بہت وسعت ملی، کئی نئے علاقے شامل کئے گئے۔ بہت سی تعمیرات ہوئیں۔ ایفل ٹاور وجود میں آیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ بہت سے سیاح پیرس کے حسن کو دیکھنے بڑی تعداد میں وہاں پہنچے۔

20صدی میں پہلی جنگ عظیم کے دوران پیرس شدید بمباری کا نشانہ بنا اور دوسری جنگ عظیم میں 1940 سے1944تک فرانس کا زیادہ تر حصہ بشمول پیرس جرمنی کے قبضے میں رہا۔ لیکن دونوں جنگوں کے درمیانی عرصے میں پیرس ماڈرن آرٹ کا مرکز رہا اور اس شہر میں اہل علم، اہل ذوق ، ادیبوں اور شاعروں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی اور یہ علم و عرفان کا مرکز تھا۔اس صدی میں پیرس نے بہت ترقی کی اور بہت سی نئی تعمیرات ہوئیں۔21ویں صدی میں کچھ دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے ۔ نسلی کشیدگی بھی بڑھی مگر وہاں کے مقامی اور آنے والے مہاجر نسل کے لوگوں کی نئی نسل قدرے سکوں سے مل جل کر رہتے ہیں۔ گو اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر پیرس آج سیاحت کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ پرکشش مقام ہے یہ وہ شہر ہے کہ جہاں ہر سال سب سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔ یہاں دنیا کے بہترین آرٹ کے شاہکار آپ کے منتظر ہوتے ہیں اور اس کا شمار یورپ کے بڑے اور اہم شہروں میں ہوتا ہے۔ پیرس کا حسن، شان اور دلچسپی بیان نہیں کی جا سکتی ۔ اس کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

پیرس میں نسلی امتیاز کا حال ہی میں ہونے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے کہ فرانس کے ایک الجزائر نژاد شخص ایمنویل میکرون کے نوجوان 17سالہ بیٹے نائیل نے گاڑی پر جاتے ہوئے اشارہ کاٹ دیا جس کی پاداش میں ایک پولیس والے نے اسے موقع پر گولی مار دی۔پہلے پولیس کا موقف تھا کہ اس نے گاڑی ہم پر چڑھائی تھی مگر کیمرے کی آنکھ نے ساری حقیقت کھول دی کہ گولی جان بوجھ کر ماری گئی ہے۔ اب پیرس ہنگاموں کی زد میں ہے۔ آزاد ملک کے آزاد شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے چالیس سے زیادہ کاروں کو نقصان پہنچایا ہے، بہت سی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ وہاں کا مقدس تریں مئیر ہاوس ، جی ہاں مئیر وہاں کو انتظامی سربراہ ہوتا ہے،جلا دیا اور وہاں توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔ مئیر کے بیوی اور بچے کو زخمی بھی کیا ہے۔ یہ تو اور بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ چالیس سے زیادہ پولیس والوں کو زخمی بھی کیا۔ اس وقت 2000 سے زیادہ شر پسند گرفتار ہیں۔اس ساری تخریب کاری کی مماثلت لاہور میں 9 مئی کے واقعات سے بہت ہے۔ ایک دم سے ہجوم پلاننگ کے مطابق چلتا ہے۔ سارے شہرمیں توڑپھوڑ کرتا ہے اور ہمارے جناح ہاؤس کی طرح وہاں کے مقدس مئیر ہاؤس کو آگ لگاتا اور تباہ کرتا ہے۔لگتا ہے کہ دونوں واقعات کا ماسٹر مائنڈ ایک ہی شخص ہے۔ ویسے بھی جو سیاسی پارٹی لاہور کے واقعات میں ملوث ہے اس کے فرانسیسی ورکرز کی بڑی تعداد پیرس میں بھی موجود ہے۔ شنید ہے کہ وہ پیرس والے اس نیک کام کے لئے چندہ بھی بیجتے ہیں۔حکومت پاکستان اگر خیر سگالی کے جذبے کے تحت فرانس کی پولیس کی مدد کرے تو مجھے یقین ہے کہ پیرس میں ہونے والی سازش کا کھرا بھی زمان پارک تک آسانی سے مل جائے گا اور دنیا بھر میں تخریب کاری کرنے والے اصل ملزم فوری بے نقاب ہو جائیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501175 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More