حسن بن علیؓ بن ابو طالب 621ء میں پیدا ہوئے اور 670 ء
میں وفات پائی۔ حضرت فاطمہؓ کے بڑے بیٹے تھے۔اہل اسلام ان کو رسول اﷲؐ کے
پوتے ہونے کے ناتے بہت پیار کرتے ہیں۔ مسلمان ان کو خلیفہ راشد پنجم مانتے
ہیں۔ ان کے والد خلیفہ راشد چہارم کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ منتخب
کیا گیا۔ لیکن تنازہ سے بچینے کی خاطر صرف سات ماہ خلیفہ رہنے کے بعد ایک
معاہدے کے تحت حکومت حضرت امیر معاویہ ؓ کے حوالے کر دی۔ اس سے خلافت جسے
عام الفاظ میں حکومت الہیہ کہتے ہیں خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔ آپؓ
نے اس کے بعد باقی زندگی مدینہ میں گزاری۔ جب فوت ہوئے تو مسجد نبوی کے
سامنے بقیع قبرستان میں حضرت فاطمہؓ کی قبر کے نذدیک دفنائے گئے۔ رسول اﷲ ؐ
کو اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ سے بہت محبت تھی۔ ہر روز اپنی بیٹی
حضرت فاظمہؓ کے گھر جاتے اور ان دونوں سے پیار کرتے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ
اپنے دور میں ان سے پیار کیا کرتے تھے۔ انہیں اپنے کندھوں پر بٹھایا کرتے
تھے۔ کہتے تھے حضرت حسن ؓرسول اﷲ ؐ کے متشابہ ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور
میں آپ کبار صحابہ کے وظائف مقرر کئے تو حضرت حسنؓ صف اوّل میں تھے۔ حضرت
عثمانؓ کے دور میں بھی ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان کے دور میں جوان
ہوگئے تھے اور طبرستان کی فوج کشی میں مجائدانہ شرکت کی۔ حضرت عثمانؓ کو
بچانے کے دوران خود ذخمی ہوئے۔ جنگ جمل میں حضر ت علیؓ کو روکا۔ حضرت علیؓ
کی شہادت کے بعد جامع مسجد تشریف لائے۔
مسلمانوں نے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔حضرت معاویہ ؓ کو معلوم تھا کہ
حضرت حسنؓ صلح پسند ہیں اس لیے ان سے معاہدے کی خواہش ظاہر کی۔ چناچہ خون
ریزی سے بچنے کے لئے ایک معاہدے کے تحت حضرت حسنؓ نے حکومت کی کمان حضرت
معاویہؓ کے حوالے کر دی۔670 ء میں جب مدینہ میں زندگی گزار رہے تھے کہ کسی
نے ان کر زہر دے کر شہید کر دیا۔ زندگی میں حضرت عائشہؓ سے رسول اﷲ ؐ کے
قریب دفن ہونے کی اجازت طلب کی تھی۔ حضرت عائشہ نے بخوشی اجازت دے دی
تھی۔مگر بنو اُمیہ کے لوگوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اس کے بعد بقیع قبرستان
میں دفنائے گئے۔ مدینہ کے لوگ ان کی موت پر بڑے افسردہ تھے۔ اس سے قبل اتنا
بڑا جنازہ کسی نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔حضرت حسن ؓ شکل میں رسول اﷲؐ کے
مشابہ تھے۔ خصوصاً صورت میں بلکل ہم شبیہ تھے۔ اپنی بیویوں سے اچھا برتاؤ
کرتے تھے۔ حضرت حسن ؓ کو شیخین کے دور خلافت میں وظائف باقاعدگی سے ملتے
تھے۔ مدینہ میں جو جماعت علم و افتا کے منصب پر فائز تھی اس میں آپؓ کا ذات
گرامی بھی شامل تھا۔ البتہ آپؓ کے فتاویٰ کے تعداد بہت کم ہے۔آپؓ کے مرویات
کی تعداد کل تیرہ ہے۔ ان میں زیادہ تر حضرت علیؓ اور ہند سے مروی ہے۔ مذہبی
علوم کے علاوہ آپؓ کو زمانہ کے مروجہ فنون میں بھی ورک تھا۔ ایک مرتبہ حضرت
علی ؓکہا کہ خطبہ دو۔ کہا کہ آپؓ کے سامنے مشکل ہے۔حضرت علیؓ دوسری طرف ہو
گئے تو بہترین خطبہ دیا۔ تاریخ میں آپؓ کے کئی حکیمانہ قول ملتے ہیں۔ آپؓ
کی ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے رسول اﷲؐ کا نمونہ تھی۔ سلطنت کو ٹھکرا کر
ملت کو خون ریزی سے بچایا۔ تاریخ میں ایسی مثال کم ملتی ہے۔ ظاہر بین یہ
کہتے تھے کہ فوج کی کمزروری کی وجہ سے ایسا کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ
مسلمان میں اتحاد کی خاطر ایسا کیا گیا۔ حضرت حسنؓ کو عقیدہ کی درستی اور
اس کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رہا۔ شیعان علیؓ کا عقیدہ تھا کہ حضرت علیؓ نے
وفات نہیں پائی۔ حضرت حسنؓ کو اس کی اطلاح ملی تو کہا لو گ جھوٹ کہتے ہیں۔
ایسے لوگ کبھی بھی شیعہ نہیں ہو سکتے۔ ہمیں معلوم ہوتا کہ حضرت علیؓ عنقریب
ظاہر ہونگے تو ہم نہ میراث تقسیم کرتے نہ اُن کی عورتوں کا عقد ثانی کرتے۔
عبادت الہی آپؓ کامحبوب مشغلہ تھا۔ فجر کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھے رہتے۔
پھر امہات مومنینؓ کے پاس جا کر سلام کرتے۔ صدقہ خیرات اور فیاضی آپ ؓ کا
خاندانی وصف تھا۔ اﷲ کی راہ میں دولت خرچ کرتے۔ شعر وشعری سے بھی سے آپؓ کو
لگاؤ تھا۔خود بھی شعر کہتے تھے۔ رسول اﷲؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا۔ حسنؓ
کو میرا علم اور میرے صورت ملی ہے۔ کتب حدیث اور سیر کے ابواب لفظائل بھرے
بڑے ہیں۔ رسول اﷲؐ نے فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے۔ خدا اس کے ذریعے
مسلمانوں کے دو گروں میں صلح کرائے گا۔ حضڑت معاویہؓ کے ساتھ صلح کا معاہدہ
کر کے حضرت حسنؓ نے اس پیش گوئی کی عملی تصدیق فرمائی۔ عموماً قصر سلطنت کی
تعمیر انسانی خون ریزی سے ہوتی ہے۔ لیکن حضرت حسنؓ نے ایک ملتی ہوئی عظیم
لشان سلطنت کو محض چند انسانوں کے خون کی خاطر چھوڑ دیا۔ سلطنت کو ٹھکرا کر
امت مسلمہ کو خون ریزی سے بچایا۔ حضرت انسؓ روایا ت کرتے ہیں رسول اﷲؐ نے
فرمایا اہل بیت میں مجھے سب سے زیادہ حضرت حسنؓ محبوب ہے۔ حضرت ابو ہریرہ
روایات کرتے ہیں، ایک دفعہ رسول اﷲؐ حضرت فاطمہؓ کے گھرگئے حسنؓ اور حسین ؓ
آپؐ سے لپٹ گئے۔ آپؐ ؐ نے فرمایا خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں، اس لیے
تو بھی ان کو محبوب رکھ اور ان کو محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ۔ |