فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آپ نے قران مجید کی سورہ الرحمان میں اس آیت کو پڑھاہوگا جس میں اللہ باری تعالی فرماتا ہے کہ

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
(پس تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے )
یہ آیت سورۃ الرحمن میں 31 مرتبہ آئی ہے۔ا للہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی اقسام و انواع کی نعمتوں کا ذکر فرمایا اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ استفسار فرمایا ہے، حتی کہ میدانِ حشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کے بعد بھی یہ استفسار فرمایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یاد دہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تا کہ بچنے والے اس سے بچنے کی سعی کر لیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کی کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات میں تین مخلوقات ایسی ہیں جن میں سب سے پہلے فرشتوں کا نام آتا ہے دوسرے نمبر پر جانوروں کا نام اور تیسرے نمبر پر ہم انسانوں کا اب ذرا غور کیجیئے اللہ تعالی کی حکمت اور منشاء کہ اس نے فرشتوں کو عقل و شعور سے تو نوازہ لیکن نفس نہیں دیا یعنی خواہش یا تمنا جیسی کوئی صنف ان کے اندر نہیں جبکہ جانوروں کو اس مالک و مولا نے نفس تو دے دیا لیکن عقل و شعور جیسی نعمت عطا نہیں کی وہ بیچ بازار میں چلتے پھرتے روڈ گندہ کردیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس عقل و شعور نہیں ہے لیکن اللہ تعالی نے ہم انسانوں کو عقل و شعور جیسی نعمت کے ساتھ ساتھ نفس بھی عطا کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی نے انسانوں کو یہ نعمتیں دے کر اپنی تمام مخلوقات میں افضل و اعلی بنادیا یعنی اشرف بنادیا جس کی وجہ سے ہمیں اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا کردیا گیا اس خالق و مالک کی ان نعمتوں کا جو اس نے ہم کو عطا کی ہیں شمار کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے جیسے میرے رب نے قران مجید کی سورہ النحل کی آیت نمبر 18 میں ارشاد فرمایا

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔ اور اگر اللہ تعالی کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکوگے۔
میرے یاروں آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے ہمیں بیشمار ایسی ویڈیوز نظر آتی ہیں جو دنیا کے کونے کونے سے لوگ محنت کرکے اپلوڈ کرتے ہیں جن میں ہمیں ان لوگوں کے بارے میں دکھایا اور بتایا جاتا ہے جنہیں "عجیب و غریب مخلوق" کا نام دیا گیا ہوتا ہے اور وہ واقعی ایسی ہی ہوتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان ویڈیوز میں کوئی پیدائشی طور پر دونوں ٹانگوں سے معزور ہوتا ہے تو کسی کے دو یا ایک ہاتھ نہیں ہوتا کوئی ہیدائشی طور پر نابینا ہے یا کوئی حادثاتی طور پر کسی معزوری کا شکار نظر آتا ہے تو کوئی ایسے جڑواں یوتے ہیں جن کا جسم تو ایک ہوتا ہے لیکن منہ علیہدہ علیہدہ اور اکثر ہمارے ارد گرد بھی ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں لیکن یاروں اگر ان تمام لوگوں کو دیکھنے کے بعد ہم اپنے آپ پر نظر دوڑاتے ہیں کہ ہم چل پھر بھی رہے ہیں بول بھی رہے ہیں دیکھ بھی سکتے ہیں دوڑ بھی لگاسکتے ہیں یعنی اللہ تعالی نے ہمیں ایک مکمل جسم کے ساتھ اور مکمل اعضاء کے ساتھ رکھا ہوا ہے تو کیا اس خالق و مالک کا شکر ادا کرنے کا دل نہیں چاہتا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کسی نے کیا خوب کہا کہ
قدرت کو اگر دیکھنا ہو تو اپنے آپ کو دیکھیئے
جسم کے ہر اعضاء کی اپنی ہی ایک ترتیب ہوتی ہے

یعنی قدرت کا یہ کمال ہے کہ ہاتھ کی جگہ پائوں نہیں ہیں اور پائوں کی جگہ ہاتھ بلکہ ہر عضو کو اس رب نے اپنی مطلوبہ جگہ فکس کیا ہواہے یہ اس کی نعمت نہیں یے تو کیا ہے ؟ یاروں ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اس رب کی عطا ہے فی زمانہ دنیا کا ہر کامیاب انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی کے پیچھے اس کی محنت اور قابلیت ہی کارفرما ہے جس کی وجہ سے وہ کامیاب انسان بن سکا جبکہ یہ اس کی بھول ہے اگر اللہ رب الکائنات کی مرضی منساء اور مصلحت شامل نہ ہو تو وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " کوئی شخص اپنی لیاقت اور طاقت سے روزی حاصل نہیں کرسکتا صرف اللہ ہی سب کا رازق ہے " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم غور کریں تو اس کی نعمتوں کے بدلے ہم اس کا شکر ادا ہی نہیں کرسکتے معزز یاروں حضرت جنیدبغدادی رحمتہ اللہ تعالی علیہ ایک دفعہ اپنے ایک مرید کے ہمراہ کہیں سے گزر رہے تھے تو راستے میں ایک کتا آگیا کتا کھڑا آپ علیہ الرحمہ کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور آپ علیہ الرحمہ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوگئے کچھ دیر ایسا ہی رہا پھر اچانک وہ کتا تو وہاں سے چلا گیا لیکن آپ علیہ الرحمہ وہیں کھڑے رہے تو لوگوں نے کہا کہ انسان تو انسان آپ علیہ الرحمہ تو ایک کتے کے سامنے ادب سے کھڑے ہوگئے یہ کیا ماجرہ ہے آپ علیہ الرحمہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اسی حالت میں اپ علیہ الرحمہ اپنے حجرے کی جانب چلدیئے جب آپ علیہ الرحمہ اندر تشریف لے گئے تو مرید بھی اندر چلے گئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ سے جب پوچھا گیا کہ یہ سب کیا تھا ؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ دراصل اس کتے نے مجھ سے کہا کہ اے جنید اس وقت جو تیرا مقام و مرتبہ ہے یہ پیدائشی تو نہ تھا اور اب جب سے تجھے یہ مقام ملا ہے تب تو اللہ تعالی کے ذکر میں لگ گیا مجھے یہ بتا کہ تیرے اندر ایسی کیا خوبی تھی کہ اللہ رب العالمین نے تجھے انسان بنایا اور میری کیا خطا تھی کہ مجھے کتا بنایا مجھے اس کا سوال سن کر بڑا تعجب ہوا لیکن میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور آنسو اس لئے آگئے کہ جب میں نے اسے دیکھا اور پھر اپنے آپ کو تو سوچنے لگا کہ یہ اس رب الکائنات کا خاص کرم ہے مجھ پر کہ اس نے مجھےانسانون کی شکل دی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے عرض کیا نہ کہ اگر ہم اس کی نعمتوں کی شکر گزاری کے لیئے پوری زندگی بھی اس رب الکائنات کی بارگاہ میں سجدے میں پڑے رہیں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے لیکن کبھی آپ نے یہ غور کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ اللہ رب العزت کی ہم پر اتنی کرم نوازیاں کیوں ہیں ؟ ہماری اوقات سے زیادہ ہمیں نعمتوں سے نوازہ گیا کیوں ؟ ہم پر بیشمار نعمتوں کا نزول کیا اور کرتا ہی جارہا ہے کیوں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک تو اس خالق کائنات کا یہ احسان کہ اس نے ہمیں انسان بنایا دوسرا احسان یہ کہ اس نے ایک اہل ایمان مسلمان کے گھر میں ہمیں پیدا کیا اور تیسرا سب سے بڑا احسان یہ کہ اس نے ہمیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے اپنے حبیب کریم اور وجہہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا تو میرے یاروں اتنی ساری نعمتیں ایک ساتھ ہمیں جب میسر ہوجائیں تو کیا اس رب کریم کا شکر ادا نہیں کرنا چاہیئے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ساری مہربانیاں اور ساری نعمتیں سرکار علیہ وسلم کے دم سے ہی ہیں اور ان ہی کی بدولت ہمیں اس رب العالمین نے اس قدر نوازا ہوا ہے کہ ہم اپنی اس عارضی زندگیوں کو اچھی طرح سے گزار سکیں
میرے یاروں زرا غور کریں اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا ان کی تنہائی دور کرنے کے لیئے اماں حوا کو بھیجا پھر ان سے نسل انسانی آگے بڑھی انبیاء کرام صحابہ کرام تابعین تبہ تابعین ائمہ مجتہدین بزرگان دین اولیاء کرام اور خاص و مقرب بندے اس دنیا میں آئے اور پھر اسی نسل سے ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تشریف لائے اب یہ سب اس پروردگار کی نعمتیں نہیں تو اور کیا ہے ؟
میرے واجب الاحترام ہڑھنے والوں ماں کے پیٹ میں ایک نطفہ سے داخل ہوکر پوری انسانی شکل میں ڈھالنا اور پھر مقررہ وقت پر اس دنیا میں خوبصورت انسانی روپ میں مکمل اعضاء کے ساتھ لانا یہ اس رب کی نعمت نہیں تو کیا ہے ؟ دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی کو دیکھنے کے لیئے آنکھوں کی نعمت بات کرنے کے لئے بولنے کی نعمت کام کرنے کے لیئے ہاتھوں کی نعمت چلنے پھرنے کے لیئے پائوں کی نعمت کیا سب نعمتیں ہمارے لیئے نہیں ہیں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس خالق کائنات کی طرف سے جو نعمتیں ہمیں عطا ہوتی ہیں ان کے صحیح یا غلط استعمال کا اختیار ہمارے اپنے پاس ہوتا یے اگر ہم نے اس کا استعمال اللہ رب العالمین کے حکم کے مطابق کیا تو وہ ہمارے لیئے نعمت ہے اور اگر اس کے حکم کے برخلاف استعمال کیا تو وہ ہمارے لیئے زحمت بن جائے گی اب دیکھیئے ایک کھانے کا لقمہ پیٹ میں پہنچانے کا اس نے کیا خوب انتظام کیا ہے کہ اگر وہ لقمہ گرم ہے تو ہاتھ بتادیتے ہیں سخت ہے تو دانت بتادیتے ہیں میٹھا ہے یا ترش یہ زبان بتادیتی ہے اور اگر باسی ہے تو یہ ناک سونگھکر بتادیتی ہے بس ہمیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ ہم یہ سوچ لیں کہ وہ لقمہ جو ہم کھا رہے ہیں وہ حلال یے یا حرام ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سورہ الرحمان کی اس آیت کو 31 مرتبہ بار بار دہرانے کا مقصد یہ ہی ہے کہ وہ رب ہمیں عطا کی اپنی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں ان نعمتوں سے غافل نہ ہونے کی تنبیح کرنا چاہتا ہے کہ میں نے تمہیں اچھا لباس دیا پہننے کو اچھی اولاد جیسی نعمت سے نوازہ اچھے اور لذیذ موسم کے پھل دیئے ہر موسم کی بہاریں عطا کیں تو کیا پھر اے جن وانس تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت میں رب العالمین نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اگر میری نعمتوں کے معاملے میں تم ناشکرے ہوئے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے اللہ تعالی نے یہاں قیامت میں ہونے والے حساب کتاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میرا بندہ میرے سامنے کھڑا ہوگا تو جس کے جیسے اعمال ہوں گے اس کی ویسی ہی حالت ہوگی اچھے اعمال والوں کے ساتھ اچھا اور برے اعمال والوں کے ساتھ جہنم کی ہولناکیاں ہوں گی جو اس نے خود ہی اپنے لیئے منتخب کی ہوں گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گویا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اس عارضی دنیا میں اللہ رب العزت نے جو بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں ہمیں ان کا ہر حال میں شکر ادا کرنا ہوگا ویسے اس کی عطا کی ہوئی نعنتوں کے مقابلے میں ہم پوری زندگی سجدوں میں پڑے رہیں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے لیکن اگر ہم ہر وقت اور زندگی کے ہر لمحے میں اپنی زبان سے اس رب الکائنات کا شکر ادا کرتے رہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے کیا معلوم کہ شکر ادا کرتے رہنے سے وہ ہم سے راضی ہوجائے اور اگر وہ راضی ہوگیا تو ہمیں اور کیا چاہیئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی کی بھگ دوڑ میں اتنے مصروف نہ ہوں کہ ہم اللہ رب العزت کے حکم کی پیروی کرنا ہی چھوڑدیں اور یہ بھاگ دوڑ ہم صرف رزق کی خاطر کرتے ہیں جبکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " رزق کی تلاش میں زیادہ اگے نہ جائو یہ رب کی ذمہ داری ہے تم صرف آخرت کی فکر کرو یہ تمہاری ذمہ داری ہے "۔اس لیئے ہمیں اس مالک و مولا نے جو بھی عطا کیا ہے تھوڑہ یا زیادہ اس کی نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کریں کیوں کہ اگر ہم نے اپنے ہر عمل سے صرف اس کو راضی کرنا ہے تاکہ ہماری یہ عارضی دنیا اور ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی دنیا دونوں سنور جائیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہروقت اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بنائے اور ہم سے وہ کام لے جس میں اس رضامندی ہو اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہو ۔آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 165 Articles with 133503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.