سنسار میں باجے ڈھول ،قربانی میری طرح انمول، یہ بکرا بولتا ہے

کلن نے باریش بکرے کے قریب جاکر کہا السلام علیکم ۔
بکرا بولا وعلیکم السلام رحمت اللہ و برکاتہ۔
کلن نے سوچا کس قدر بدتمیز مالک کا کیسا مہذب بکرا تعجب ہے۔ وہ بولا کیوں بھائی صاحب کیا حال ہے؟
بکرا بولا ابھی تک تو خیریت ہے ۔ آپ مجھے خریدنے کے لیے تو نہیں آئے ۔
کلن کو سینگ مارنے والی بات یاد آگئی ۔ وہ بولا بھیا میری کیا بساط کہ تم کو خریدوں میں تو معمولی قصائی ہوں ۔
اوہو اچھا تو تمہاری خدمات میری خریدو فروخت کے بعد میسر آئیں گی؟
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے ؟ تائید کرے یا انکار کردے۔ کلن بولا وہ خدمت کون کرے گا میں نہیں جانتا ۔
بکرا بولا کوئی بھی کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور سناو میرے پاس آنے کی زحمت کیوں کی؟
کلن نے مطلب پر آکر کہا بھائی ایسا ہے کہ دو دن بعد تمہاری قربانی ہو جائے گی ؟ تو تمہیں کیسا لگے گا؟ ؟
مجھے بہت اچھا لگے گا ۔ حضرت اسماعیلؑ نے جس سعادت کے لیے خود کو پیش کیا وہ مجھے نصیب ہوجائے گی ۔
یہ جواب سن کر کلن چکرا گیا ۔ وہ بولا بھیا یہ بتاو کہ تمہاری پرورش کسی مدرسے میں تو نہیں ہوئی ۔
بکرا بولابیچ میں مدرسہ کہاں سے آگیا؟
نہیں یہ جو علم و حکمت کی بات تم نے کہہ دی میں اس کا راز جاننا چاہتا تھا ۔
بکرا بولا مجھے تم پڑھے لکھے آدمی نہیں لگتے کیوں علامہ اقبال نے تو پہلے ہی اس راز کو فاش کرچکے ہیں ۔
کلن قصائی بکرے کی زبان سےاقبال کا نام سن کر بھونچکا رہ گیا۔ وہ بولا اچھا کیا تمہیں وہ شعر یاد ہے ۔
کیوں نہیں علامہ نے کہا تھا : یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
کلن قصائی کی سمجھ میں شعر نہیں آیا وہ بولا لیکن پھر بھی اس طرح ذبح ہوجانا کسے اچھا لگتا ہے؟
دنیا بھر میں ہر روز لاکھوں بکرے ذبح ہوتے ہیں لیکن قربانی کی سعادت کتنوں کو نصیب ہوتی ہے ؟ اس لیے میں تو خود کو خوش بخت سمجھتا ہوں ۔
جی ہاں یہ تو بہت بڑی بات ہے مگر قربانی تو وہ تمہارا خریدار کرے گا ۔ تمہیں کیا ملے گا ؟
بھیا کچھ وقت نکال کر اقبال کو پڑھا کرو کیا خوب کہا ہے : میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی میں اسی لئے ہوں بکرا، میں اسی لئے نمازی
کلن بولا علامہ اقبال اپنے آپ کو بکرا کیسے کہہ سکتے ہیں؟
بھیا انہوں نے تو خود کو مسلماں کہا لیکن میں نے اسے بکرا سے بدل دیا ۔ اب اتنی جسارت تو میں کرہی سکتا ہوں۔
کلن نے کہا جی ہاں یہ بات تو ہے لیکن پھر بھی موت کا ڈر کسے نہیں ہوتا ؟
یار لگتا ہے تم نے غالب کو بھی نہیں پڑھا ۔
کلن بولا بھیا ہم لوگوں کو شعر شاعری پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ہم لوگوں کی زندگی تو پایا اور اوجڑی کی نذر ہوجاتی ہے۔
اچھا خیرہم جیسوں کو غالب کی نصیحت ہے: موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کلن بولا میں تو بکرے سے ملنے آیا تھا مگر فلسفی مل گیا ۔
ارے بھیا فلسفی کے سینگ تھوڑی نا ہوتے ؟ مجھے تو سینگ بھی ہیں ۔
کلن نے کہا دیکھو منڈی کے بکرے دھڑا دھڑ بک رہےہیں لیکن تمہارا کوئی گاہک ہی نہیں آتا ، اس پر تم کیا کہتے ہو؟
میں تو وہی کہتا ہوں جو غالب کہہ گیا : جیتے ہیں آرزو میں مرنے کی گاہک آتا ہے پر نہیں آتا
کلن نے کہا یار تم تو شعر کا قیمہ بنا دیتے ہو۔ اس بیچ کلن نے دیکھا کہ مگن ایک گاہک کے ساتھ ان کی طرف آرہا ۔
کلن نے دیکھا مگن کہہ رہا تھا دیکھو بھیا تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس کی قیمت میں ایک روپیہ بھی کم نہیں کروں گا۔
گاہک بولا جی ہاں لیکن بھاو تو بتاو ۔
مگن نے کہا ایک کروڈ ۔
یہ سن کر کلن کے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔ اب وہ گاہک کے جواب کا منتظر تھا۔
گاہک نے جواب دیا مجھے پتہ تھا۔ اس نے اپنے ساتھی کی جانب اشارہ کرکے کہا سریش اس کو بیگ تھما دو ۔
مگن ہنس کر بولا کیوں بھائی دوہزار کے نوٹ تو نہیں ہیں ۔ ورنہ میں کہاں بنک کے چکر کاٹوں گا۔
سریش بولا جی نہیں سب ایک ہزار کے کڑک نوٹ ہیں ۔ گن کر اطمینان کرلو۔
مگن نے بیگ کھول کر دیکھاتو اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ ایک کروڈ ہیں ۔ وہ بکرے کی رسی گاہک کو تھما کر بولا چلو مبارک ہو ۔ میں تو چلا جھمرو تلیاّ۔
کلن کے لیے یہ سب حیرت انگیز تھا ۔ سریش بکرے کی رسی کو تھام کر چل دیا ۔ کلن بھی اس کے ساتھ ہولیا اور گاہک سے کہا السلام علیکم ۔
گاہک بولا وعلیکم ۔ کیوں تم چارہ وارہ بیچتے ہو کیا؟
کلن بولا جی نہیں میں کلن قصائی ہوں ۔ آپ کا نام کیا ہے ؟
میرا نام درویش شاہ ہے لیکن ہمارے پاس قصائیوں کی ایک بڑی فوج ہے اس لیے تمہاری ضرورت نہیں ۔
قصائیوں کی فوج ؟ میں نے تو کبھی نہیں سنا ۔
ارے بھیا تم نے بجرنگ دل کا نام نہیں سنا ؟ وہ بکرے تو چھوڑو انسانوں کو نہیں چھوڑتے ۔
کلن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ قربانی کے بکرے اور بجرنگ دل کا کیا تعلق ؟ اس نے پوچھا درویش سیٹھ صاحب آپ کا کیا کاروبار ہے ؟
درویش شاہ بولا میں کوئی کاروبار نہیں کرتا ۔ میں تو سیوک ہوں ۔ راشٹر(قوم) کی سیوا کرتا ہوں ۔
کلن بولا لیکن ایک سو چالیس کروڈ لوگوں کی سیوا آپ کیسے کرسکتے ہیں؟
ارے بھائی میں پورے راشٹر کی نہیں بلکہ اس کے ایک اہم فرد اندریش کمار کی خدمت کرتا ہوں ۔
اچھا لیکن آپ کے پاس بکرے کے لیے ایک کروڈ کیسے آگئے؟
یار یہ بھی کوئی سوال ہے۔ مجھے یہ رقم میرے مالک اندریش نے دی ۔
اور ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آگئی۔
ارے بھیا میرے مالک کو ا ن کے مالک بھاگوت نے دی ہوگی ۔
اور بھاگوت کے پاس اتنے پیسے کیسے آگئے؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ رقم گوتم اڈانی کے خزانے سے آئی ہوگی ۔
کلن کو لگا کہ اس بکرے کی ڈور بہت لمبی ہوگئی ہے۔ اس نے پوچھا لیکن ایک بکرے پر گوتم اڈانی اتنی بڑی رقم کیونکر خرچ کرسکتا ہے؟
ارے بھائی پردھان جی کہیں تو وہ اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو؟
کلن نے پھر سوال کردیا لیکن پردھان جی یہ کیوں کہیں گے۔ اس بکرے سے ان کو کیا فرق پڑتا ہے؟
درویش نے کہا اس سوال پر میں نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ بکرا بولتا ہے اور سچ سچ بولتا ہے۔
کلن بولا سمجھ گیا اور مرنے سے بھی نہیں ڈرتا ۔ اسی لیے پردھان جی کو اس سے ڈر لگتا ہے۔
درویش بولا جی ہاں کلن یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو ذبح کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔
کلن نے پوچھا لیکن کیا وہ اس طرح سچ کی آواز دبانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
درویش شاہ نے کہا جی نہیں۔ اس کے ہر قطرے سے ایک حق گو پیدا ہوگا اور سچائی کا بول بالا کرے گا ۔
بکرا ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا وہ بولا گستاخی معاف اگر اجازت ہو تو اس بات پر ایک شعر عرض کروں ۔
درویش شاہ نے کہا برا ماننے کی بات ضرور سناو، میں وہ امانت تمہاری یادگار کے طور پر اپنے آقا اندریش کمارتک پہنچا دوں گا ۔
بکرا بولا اچھا تو شعر سنیں: آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی





 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.